top header add
kohsar adart

کالم شالم  ”مدینہ منورہ“

کالم شالم  ”مدینہ منورہ“

چیرکر رکھ دیا ظلمات کا سینہ دیکھو
شہرِ یثرب کو کیا کیسے مدینہ دیکھو

 

ہم جدہ پہنچے تو ہمارے دیرینہ دوست انجنئیر افتخار چودھری کا میسج آیا،

"میں بھی جدہ میں ہوں اور شام کو میرے ساتھ میرے پرانے دوستوں نے بیٹھک رکھی ہے.  کیوں کہ میں پرسوں واپس جارہا ہوں۔  اگر آپ بھی آ جائیں۔”

دعوتی کارڈ بھیج دیا گیا۔ راجہ معروف صاحب کے ساتھ ہم پہنچ گئے۔ انجنئیر افتخار صاحب نے عمر کا طویل حصہ یہاں عزیزیہ میں گزارا۔ اُن کے بارے میں ان شاء اللہ الگ سے لکھیں گے۔  فی الحال روداد سفر جاری ہے۔

عرب حکمرانوں نے بھلے ملوکیت قائم رکھی ہے مگر اپنی عوام کو تمام تر سہولیات دی ہیں۔ آج کے دور کے کنگ جناب محمد بن سلمان تو ایک دُور اندیش شخصیت ہیں۔ جو جانتے ہیں کہ تیل سے دنیا اب الیکٹرونک کی طرف جاری ہے تو جدید دور میں پرانے حیلے نہیں چلتے۔  سو جدہ ایک انٹرنیشنل مزاج کا شہر بن رہا ہے۔  ساحل آباد ہو رہے ہیں۔ لوگوں کو آزادی دی جا رہی ہے۔ شام کو قہوہ خانے، حقہ خانے، ریستوران آباد نظر آتے ہیں۔  ہمارا مدینہ کا ٹرین کا ٹکٹ آن لائن بُک تھا۔  سو، راجہ صاحب نے ہمیں ٹرین پر چڑھا دیا۔ جو سفر پانچ گھنٹے کا ہوتا تھا اب ایک گھنٹہ چالیس منٹ میں ہم سرکار کے قدموں میں پہنچ گئے۔
خوبصورت سفر کا مزہ لیتے ہوئے مدینہ ریلوے اسٹیشن پر التمیمی کے ہمارے مہربان شاھد ترین صاحب نے گاڑی بھیج دی۔ اب ہمارے بنگالی بابو ڈرائیور نے پوچھا، "صاب کدھر جانے کا ؟”
ہم نے کہا،  "نماز ظہر کا وقت ہے، سیدھا مسجد نبوی جانے کا”.  اس کا مشورہ تھا کہ پہلے ہوٹل چلا جائے لیکن ہم نے کہا، "ارے بھیا! ہم ہوٹل میں ”لمے پیہنے“ نہیں آئے”

ہم مسجد پہنچ گئے۔ وضو خانے کی برقی سیڑھیوں پر ایک مظفرآباد کے نوجوان نے پہچان لیا۔ جس نےسلفی لی۔ ہم جلدی میں تھے۔  نماز کے بعد ہم جبل احد گئے۔ پھر مسجد ِ قبلتین سے مدینہ کی پہلی مسجد قباء گئے جہاں دو نماز نفل ادا کیے اور بنگالی بابو کو کہا،
بھیا! ہمارے پیٹ میں چوہے کوڈی کھیل رہے ہیں”.  وہ ہمیں طباق ریسٹورنٹ لے آیا۔ ساتھ ہی طیبہ ہوٹل دیکھ کر یاد آیا کہ‌ دو ہزار نو میں اس نام کا ہوٹل ہمارے "گرائیں” کرتے تھے.  خیر ہم نے پیٹ پوجا کی اور ہوٹل آ کر غسل کر کے دوبارہ نبیﷺ کے دربار میں پہنچ گئے کہ وقت کم تھا۔ بہت سے دوستوں کو وقت نہ دینے کا افسوس ہے جو ہم سے پیار کرتے ہیں مگر کیا کریں ہمارا وزٹ مختصر ہے۔ یار زندہ، صحبت باقی۔  دوستوں کی محبتوں کا بہت بہت شکریہ۔

رات کو شاھد بھائی اور کچھ دوست آ گئے، جو طیبہ ریسٹورنٹ پر لے گئے۔ ہم جیسے ہی اندر داخل ہوئے سامنے چار پانچ گرائیں کھڑے ہوگئے اور سینے نال ٹھاہ کر کے لگ گئے۔  دو ہزار نو کے بعد پھر ملاقات ہو گئی۔

ہمارے ایک بہت ہی مِٹھے یار مزمل کے بارے میں تجمل نے بتایا کہ وہ بھی سعودیہ میں ہی ہے۔  نمبر بھی مل گیا۔  ہم نے کال کی۔  پندرہ سال کے طویل عرصہ کے بعد ہم نے پوچھا ”سیانتا ای؟“ وہ بولا، "محشر میں ایک ہی لائن میں کھڑے ہوں گے کیسے نہ ”سیانوں“۔  ابھی ٹکٹ بھیجتا ہوں، میرے پاس تبوک آجاؤ۔ مدت ہوئی ہم نے جپھی نہیں ڈالی۔”

ہم نے عذر پیش کیا، "یار دل تو بہت کرتا ہے مگر وقت کم ہے.  ان شاء اللہ پھر زندگی نے فرصت دی تو ملیں گے”. رات بھر اُس کی کالیں آتی رہیں۔

کس کو خبر ہے اب کہ مرے ساتھ تم بھی تھے
ہائے وہ روز و شب کہ مرے ساتھ تم بھی تھے

شکیل اعوان ۔۔۔۔۔ مدینہ منورہ 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More