کالم شالم "حکیم چُھرا صاحب”

کالم نگار : شکیل اعوان

کالم شالم۔    (حکیم چُھرا   صاحب )

شکیل اعوان

فارسی کہاوت ہے،  "نیم حکیم خطرہ جان، نیم مُلا خطرہ ایمان”. بدقسمتی سے ہمارا واسطہ گزشتہ پچہتر سالوں سے ایسے ہی لوگوں سے پڑا ہے۔

انسانی جسم کی طرح سماج بھی بیمار ہوتے ہیں۔ فرق بس اتنا ہے کہ انسان کی بیماری گھر یا خاندان کو پریشان کرتی ہے لیکن سماجی بیماری پورے معاشرے کو گہن کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ جن اقوام نے ان بنیادی سماجی بیماریوں پر بہت پہلے قابو پا لیا تھا وہ آج دنیا کی قیادت فرما رہی ہیں اور جو معاشرے ابھی تک "پمل پوسے ” (تذبذب) کا شکار ہیں، روز اپنے لوگوں کے بکھرے لاشے اُٹھائے ” پِٹ کُلہٹا” بین فرما رہے ہیں۔ جب آپ اپنے گھر کو چھوڑ کر ہمسایوں کے گھروں میں دخل اندازی کریں گے تو بقول لُڈن میاں "دھڑن تختہ” تو ہو گا۔  اب جو فصل ” مردِ مچُھ” نے بوئی تھی وہ پک کر تیار ہو چُکی ہے۔ اب اسے کاٹیے۔ اب رونا کاہے کا؟ فطرت کا اصول ہے۔

” جو راہسو، اوہ کپسو "

حکیم چھُرا صاب فرمایا کرتے تھے  "زخم جتنا گہرا ہوگا چُھرا اتنا ہی اندر جائے گا”۔  ذرا ماضی پر ایک نظر دوڑائیں۔۔۔۔۔ جب قریہ قریہ، کُو بہ کو "المفسدین” کو پروموٹ کیا جارہا تھا۔  اس وقت بھی کچھ صاحبانِ عقل تھے جو کہتے تھے کہ یہ ہمارے ہی گلے پڑیں گے۔ مگر اُس وقت "ڈالری محبت” میں جنون کی حد تک گرفتار لوگ بات سننے تک کے روادار نہ تھے۔

اب جب ” ماموں گاٹے گاٹے ” تک آگیا ہے تو مذمتوں سے کام چلانے سے کیا ہوگا ؟ پانچ لاکھ علماء کے امام کا ایک انٹرویو نظر سے گُزرا تھا۔ جس میں اینکر نے سوال کیا کہ یہ جو دہشت گردی سے عام لوگ مر رہے ہیں آپ اِس پر فتوی کیوں نہیں دیتے؟  تو موصوف آئیں بائیں شائیں کر کے کہنے لگے کہ ہماری مجلس ” شورا” میں غور ہو رہا ہے اور بات گھما گئے۔  آج وہ بیماری جب اپنے گھر تک پہنچی ہے تو پوچھنا یہ ہے کہ مجلس ِ "شورا” اگر شورے سے مُکت ہوگئی ہو تو فیصلہ کرے کہ بوٹی بوٹی حلال تے شورا شورا حرام ہے کہ نہیں ؟

جب ہم پڑوسیوں کو گھر میں جوق درجوق (یا جونک در جونک) لا رہے تھے تو سوچنا تھا کہ اپنے گھر میں اتنی گنجائش بھی ہے کہ نہیں۔ اب "مزمان” مالک بن گئے ہیں تو کون نکال سکتا ہے؟  یوں بھی بہت سے لوگوں کا کاروبار سمگلنگ سے جُڑا ہے اور سب سے پہلے ” تہندا تے فیر ملخ ” جن کا منشور ہو ان کی دنیا ہی الگ ہوتی ہے کہ بچے پرائے مریں تو کیا فرق پڑتا ہے کہ اپنے یا تو محفوظ ممالک میں ہیں یا بنکروں میں۔

ہماری بدنصیبی ہے کہ ہمیں آج تک کوئی اصلی حکیم ملا ہی نہیں۔  جو ملا "نیم حکیم” ہی” ٹکرا ".  سو آج مریض کی حالت دگرگوں ہے اور عوام الناس بھی ” صفا پہولے پہالے "۔  جو بقول تایا میر تقی میر۔۔۔۔ جس کے بہ سبب بیمار ہوئے
"اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں "

چلو اور کچھ نہیں تو بندہ لونڈا ہی بدل لیتا ہے مگر ہم اتنے مستقل مزاج ہیں کہ پچاس سالوں سے اسی عطار کے لونڈے کا دم بھر رہے ہیں”۔۔ اور وہ ہمارے استحصال کے معاملے میں "لم کڈھ ” رہا ہے۔۔  جیسی ہماری منقسم سوچ ہے "قیامتی نی پندرہویں” تک ہم اِنھی لونڈوں کے مرہون منت رہیں گے۔

ہمارے بچپن میں ہمارے گاؤں کے ایک ڈاکٹر تھے جو مرحوم ہو چُکے ہیں۔ مریض کو کوئی بھی عارضہ لاحق ہوتا ایک "رتی شیشی” سے دو "ٹہکنے” پلاتے اور کہتے ” جُل کھوتی ٹینچا مار” ۔۔ لگتا ہے ہمارے صاحبان اقتدار و اختیار کو بھی وہی "شیشی” ہاتھ لگ گئی ہے اور گزشتہ پچہتر سالوں سے وہ یہی نسخہ استعمال کر رہے ہیں۔ ہر انتخابات میں دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر اگلی بار موقع ملا تو وہ "پھٹے چک ” دیں گے۔ نہیں معلوم وہ کیسے "پھٹے” ہیں جو "چکے”  ہی نہیں جا رہے۔

ہماری قومی بے چارگی کا یہ عالم ہے کہ آئے روز سو لاشے اُٹھاؤ اور قسمت کا لکھا سمجھ کر انھیں شہید قرار دے کر دل کو تسلی دے لو۔  خدائے زندہ "زندوں” کا خدا ہے. دنیا اسباب و تنظیم کے ساتھ جُڑی ہے۔  حکیم چُھرا کے اقوال زریں میں سے ایک قول یہ بھی ہے کہ

جن قوموں کے ہاں فکری افلاس بڑھ جاتا ہے ان کے ہاں "منج” بڑی ہوتی ہے "عقل” نہیں۔

یار شکیل ! جہاں حکیم الامت کی کسی نے نہیں سنی وہاں "حکیم چُھرا” کون سے باغ کی مولی ہیں؟

یوں بھی سیانے فرما گئے ہیں
"عقل نئیں تے موجاں ہی موجاں ”

تے فیر موجاں لُٹو۔ "پِٹ پٹاس، بوکاٹ تے تہاڑا لوٹی”
چہ معنی دارد

ایک تبصرہ چھوڑ دو