چوتھے آسمان پر …. حضرت ادریس علیہ السلام کا واقعہ
"اجالے اور ہالے” نامور صحافی جناب معین کمالی کی تصنیف ہے۔جس میں انبیاء کرام کے واقعات کے علاوہ خلفائے راشدین ،چند صحابہ کرام اور بزرگان دین کے قصے اور کچھ سبق آموز داستانیں شامل ہیں۔
یہ مضامین اس قدر دلنشیں انداز اور دلچسپ پیرائے میں بیان کیے گئے ہیں کہ ہر عمر اور ہر علمی سطح کا قاری ان واقعات کے سحر میں کھو جاتا ہے۔”کوہسار نیوز” کے قارئین کے لیے انشاءاللہ ہر جمعۃ المبارک کو اس کتاب میں سے ایک مضمون شامل اشاعت کیا جائے گا۔یہ کتاب فرید پبلشرز اردو بازار کراچی نے شائع کی ہے جو نہایت مناسب ہدیے پر مذکورہ پبلشر سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
ابدی زندگی کی خواہش ہر انسان میں فطری طور پر موجود ہے۔جس خالق کائنات نے ہمیں یہ حیات مستعار عطا فرمائی ہے،حیات ابدی کی خواہش بھی اس کی ودیعت کردہ ہے۔خواہشات نفس سے مغلوب ہو کر اور اپنے ازلی دشمن شیطان لعین کے بہکاوے میں آ کر گمراہ ہو جانے والے لوگ طویل زندگی کے آرزومند ہوتے ہیں کہ اس طرح دنیا میں رہ کر زیادہ سے زیادہ کھائیں پئیں گے اور حرص و ہوس کے ہنگاموں میں گم رہیں گے۔لیکن خدائے علیم و خبیر کے بندے جانتے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی قطعی عارضی اور فانی ہے،بالکل پانی کے بلبلے کی طرح کہ نہ جانے کس آن پھٹ کر گم ہو جائے۔رحیم و کریم اللہ نے اپنے مطیع و فرمانبردار بندوں کے لیے حیات ابدی کا وعدہ فرمایا ہے جو اس دنیا کے ختم ہونے پر شروع ہوگی۔جن لوگوں نے اس دنیا میں تقوی اور پرہیزگاری اختیار کی وہ اس دنیا میں مالک حقیقی کی عطا کردہ بے پایہ نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔
یہ خیال کیوں آیا کہ مجھے طویل زندگی بھی چاہیے؟
نیکو کار بندے ہر دور میں گزرے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ انہی کے دم سے یہ دنیا قائم ہے کرہ ارض پر آدم علیہ السلام اور اولاد آدم علیہ السلام کو رونق بخشے چند سو برس ہی گزرے ہوں گے کہ ایک بلند مرتبت اور نیک سیرت انسان کو فرشتہ نے خوشخبری سنائی کہ آپ کے اعمال صالحہ بارگاہ ایزدی میں اس قدر مقبول ہیں کہ اس منعم حقیقی کے حکم پر تمام اہل عالم کے نیک اعمال کے برابر آپ کے نامہ اعمال میں اجر و ثواب لکھا جاتا ہے۔ معا” اس بندہ خدا کے دل میں خیال آیا کہ پھر تو مجھے طویل زندگی بھی چاہیے تاکہ خوب نیکیاں سمیٹوں اور حیات ابدی میں رضائے الٰہی اور اعلی درجات سے سرفراز کیا جاؤں۔ایک دوست فرشتے سے درخواست کی کہ وہ فرشتہ ازل سے زندگی دراز کرنے کا راز پوچھ کر بتائے۔
حضرت عزرائیل علیہ السلام نے چوتھے آسمان پر اپنا فرج پورا کر لیا
دوست فرشتہ ایک روز اس بندہ مومن و صالح کو اپنے بازؤں پر سوار کر کے افلاک کی جانب مائل با پرواز ہوا۔چوتھے آسمان پر موت کے فرشتے سے ملاقات ہو گئی جو زمین کی جانب اتر رہا تھا۔دوست فرشتے نے بندہ خدا کی خواہش بیان کی۔فرشتہ اجل نے دریافت کیا کہ طویل عمری کا طالب وہ شخص کہاں ہے؟ بتایا کہ وہ میرے ساتھ ہے۔
حضرت عزرائیل علیہ السلام نے انکشاف کیا کہ مجھے بارگاہ الہٰی سے جب اس صاحب کردار انسان کی روح چوتھے آسمان پر قبض کرنے کا حکم ملا تو میں حیران و پریشان ہوا کہ انسان تو زمین پر بستے ہیں پھر اس شخص کی روح چوتھے آسمان پر کیسے قبض کروں۔ بے شک اللہ سمیع و بصیر ہے۔مجھے زمین پر جانے کی ضرورت نہیں پڑی اور اس مرد خدا سے یہیں ملاقات ہو گئی۔موت کے فرشتے نے حکم خداوندی کی بجا آوری میں اس نیک طینت و پاک باطن انسان کی روح چوتھے اسمان پر قبض کر لی۔
سورۃ مریم کی آیت نمبر 57 میں اللہ کے اس محبوب بندے کا ذکر ان الفاظ میں ملتا ہے۔”ورفعنا و مکان علیا”یعنی ہم نے اسے بلند مقام پر اٹھا لیا۔یہی وہ نیک ہستی ہے جس سے سفر معراج میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات چوتھے آسمان پر ہوئی تھی۔قرآن میں بلند مقام پر اٹھانے اور حدیث میں چوتھے آسمان پر ملاقات کی تفصیل و تفسیر کعب احبار نامی ایک تابعی نے بیان کی ہے۔ جو ایک یہودی عالم تھے اور عہد فاروقی میں مسلمان ہوئے تھے۔ان کی روایات کا منبع و ماخذ اکثر تورات اور انجیل کے واقعات ہوتے تھے۔چنانچہ ان پر شرح صدر نہ ہونے کے باوجود علماء نے تاریخی روایت کے طور پر تسلیم کر لیا ہے۔
کرہ ارض پر سب سے پہلے قلم کا استعمال کیا
قارئین کرام! اللہ کے یہ نیک بندے حضرت ادریس علیہ السلام تھے۔جن کا ذکر سورہ مریم کی آیات نمبر 56 اور 57 میں یوں کیا گیا ہے کہ اس کتاب میں ادریس علیہ السلام کا ذکر کرو۔بلا شبہ وہ سچے ( انسان اور )نبی تھے۔ اور انہیں ہم نے بلند مقام پر اٹھا لیا تھا۔سوئے انبیا کی آیت نمبر 85 اور 86 میں حضرت ادریس علیہ السلام کا تذکرہ حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت ذوالکفل کے ساتھ کر کے ان سب کو صابر و نیکوکار قرار دیا گیا ہے جنہیں اللہ نے اپنے دامن رحمت میں جگہ عنایت فرمائی ہے۔
حضرت ادریس علیہ السلام کے نام و نسب اور زمان و مکان بعثت کے بارے میں قران حکیم سے ہمیں زیادہ تفصیل معلوم نہیں ہوتی۔تاہم مذکورہ دو مقامات پر ان کے ذکر اور مختلف روایات کے مطابق آپ علیہ السلام ایک بلند پایہ نبی تھے۔آپ علیہ السلام نے اس کرہ ارض پر سب سے پہلے قلم کا استعمال کیا۔اپنی قوم کی سخت مخالفت کے باعث آپ بابل سے مصر کی جانب ہجرت پر مجبور ہوئے۔اس طرح حضرت ادریس علیہ السلام پہلے مہاجر نبی قرار پائے۔
آپ علیہ السلام ہی نے طوفان نوح کی اطلاع دے کر لوگوں کو خبردار کیا تھا۔
مصر میں حضرت ادریس علیہ السلام نے علم و دانش کے مراکز قائم فرمائے تھے۔اس وقت مصر میں بہتر زبانیں رائج تھیں۔آپ علیہ السلام کو ان تمام زبانوں کا علم دیا گیا۔اس کے علاوہ حضرت ادریس علیہ السلام کو طب اور فلکیات کے علوم سے بھی نوازا گیا۔ایک روایت کے مطابق آپ علیہ السلام علم رمل بھی جانتے تھے۔بعض علماء کے خیال میں حضرت ادریس علیہ السلام طوفان نوح سے پہلے دنیا میں موجود تمام علوم سے واقف تھے جن میں تعمیر مکانات و معاہد سے لے کر فراہمی و نکاسی آب تک مختلف مدنی علوم بھی شامل تھے۔آپ علیہ السلام ہی نے طوفان نوح کی اطلاع دے کر لوگوں کو خبردار کیا تھا۔
حضرت ادریس علیہ السلام کی تعلیمات میں اللہ کی وحدانیت اس کی عبادت اعمال صالحہ کی تلقین،طہارت و پاکیزگی،عدل و انصاف،جہاد فی سبیل اللہ کی ہدایات اور منشیات سے پرہیز جیسی بہت سی باتیں ملتی ہیں۔اچھے کردار کے بغیر خوشنما نعروں اور بلند بانگ دعووں کے اس دور میں آپ علیہ السلام کا یہ قول تو بطور خاص گرہ میں باندھ لینے کے لائق ہے کہ "خدا کی یاد اور عمل صالحہ کے لیے نیت کا اخلاص بنیادی شرط ہے”