"چمچے "
شاعر : راشد عباسی
چمچے
ہر پاسے اے کتنے چمچے
نیلے، پیلے، کالے چمچے
ہر طرف کتنے چمچے ہیں
نیلے، پیلے اور کالے چمچے
میں تے حق نی گَل کیتی سی
مَندیاں بولی، ٹِکنے چمچے
میں نے تو حق بات کی تھی
برا بھلا کہہ کے، چمچے آپے سے باہر ہو رہے ہیں
نوٹاں ناں تُس جادو دِکھّو
ماء جایاں نال کُہلنے چمچے
آپ نوٹوں کا جادو ملاحظہ فرمائیں
اپنے بھائیوں کے ساتھ چمچے جھگڑا مول لے رہے ہیں
” نانہہ بِکنے، نانہہ لَفنے لیڈر”
کِسرے نِیلیاں کَپنے چمچے
"لیڈر نہ بکنے والے ہیں، نہ جھکنے والے”
کیسا سفید جھوٹ بول رہے ہیں چمچے
لیڈر سارے اَندرا ہِک اے
کُہلنے، پِہڑنے، مَرنے چمچے
لیڈر تو سبھی حقیقت میں ملے ہوئے ہیں
چمچے ان کی خاطر لڑتے، جھگڑتے اور مرتے ہیں
وچ کَیں وَیہہ تے جَگ مُنہ لاناں
کِس کَمّیں نَیں سَکھنے چمچے
دنیا بھرے ہوئے چمچے کو منہ لگاتی ہے
خالی چمچے کس کام کے ہیں؟
لیڈر جِتّی، کہاء نَیئے باہنے
گَڈیاں پِچھّیں نَسنے چمچے
لیڈر جیتنے کے بعد چمچوں کو گھاس نہیں ڈالتے
وہ پھر ان کی گاڑیوں کے پیچھے بھاگتے پا
راشد عباسی