چلو چَٹلے پہ چلتے ہیں!

جمیل الرحمن عباسی بانڈی چندال لوئر بیروٹ

 

بظاہر اتوار منانے اور روزہ گزارنے ، اب آپ سے کیا پردہ کہ درحقیقت اس پتھر دل کی خوشنودی کی خاطر کہ جسے قدرت نے دل ہی نہیں دیا ،جبھی دل لینا ہی جانتی ہے دینا نہیں ،
اب یہ کہاں ہم دل کے داغ لے کے بیٹھ گئے… ہم جا رہے تھے روزہ گزارنے تو ہم اپنی ایک عدد بکری اور دو عدد گائیوں کو ہانکتے ہوئے ،،رکھ ،، یعنی چراگاہ کی طرف چلے ۔
ننھیال ٹٹھہ شریف سے گزرے تو دیکھا کہ ہمارا کتا بھی ہانپتا بھونکتا پیچھے چلے آتا ہے تو ہم ،،کتے بھونکاتے بھونکاتے ،، آگے بڑھے یہاں تک کہ چَٹلے پر پہنچ گئے ۔

چٹلہ ، چھوٹی ٹیکری پر واقع ،،سیھری ،، یعنی ہموار زمین کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز ذخیرہ کی جا سکے کسی دور میں یہاں گھاس کا پَسّا یعنی ڈھیر ہوا کرتا تھا ۔

جس طرح ،،ملکِ طِلَسمِ ہوش رُبا ( یا بہ الفاظ بچپن ،، طُلسَم ہوشَربا ،، ) میں چکنے پتھر پر پیر آتے ہی ،شہزادہ جواں بخت ، سانپوں کی وادی سے ، شہزادی دل آرا ❤️ کے باغ میں پہنچ جاتا تھا ۔چٹلے پہ پہنچتے ہی ایک چھپاکا ہوا اور ہم ملک طفلی میں جا پہنچے ۔۔۔۔

یہاں ایک چھپڑ یعنی چھوٹا جوہڑ ہوا کرتا تھا ۔بارش کا پانی یہاں مدتوں جمع رہتا ۔ یہاں سے جانور پانی پیا کرتے اور ہم اسی کے کناروں سے گارا لے کر آٹا گوندھا کرتے ۔ ہم میں سے کچھ چولہا بناتے اور لکڑیاں اکٹھی کر کے فرضی آگ جلاتے اور ہماری ،،پہاوی ،،بھابھی جلدی جلدی روٹیاں تھاپتی تاکہ بھیا کے آنے سے پہلے روٹی تیار کر لے ۔ بچپن کے اس کھیل میں ہم گھر کا کام کاج ختم کر کے کوہالہ جانے کا ناٹک بھی کرتے لیکن محض ابتدا تک اور وہ بھی جب کبھی عدیل صاحب کی سہولت میسر ہوتی جو خود کوزہ و خود گِلِ کوزہ کے مصداق خود ہی گاڑی ہوتے اور خود ہی ڈرائیور ، چناں چہ جب ہمیں ان کے ہارن کی تلِلِلِل سنائی دیتی تو سب کام چھوڑ کر بھاگتے کہ اگر الائیڈ بس نکل گئی تو دوسری بہت دیر کرے گی چناں چہ ہم بھاگم بھاگ ان کی پلی پکڑ کر بس میں سوار ہو جاتے ۔
یہاں کی ایک اہم تفریح چٹلے کی مشرقی سمت واقع ریتلے پتھر کی پھسلن سِلیں تھیں جن پر ہم ایک پتھر رکھتے اس پتھر پر بیٹھ کر سلائڈنگ کے مزے لیا کرتے ۔ بعض دفعہ ہمارے لباس کا کوئی کونا دو پتھروں کے درمیان میں آکر پھٹ جاتا ۔ بالعموم ہم اس نقصان عظیم کو پردے میں رکھنے میں کامیاب ہو جاتے لیکن یہ راز جمعے کو فاش ہو کر رہتا جو کہ چھٹی اور ہفتہ وار دھلائی کا دن ہوتا تھا اور مہینے میں ایک آدھ بار کپڑے پھاڑنے کی پاداش میں ہماری دھلائی بھی ہو جایا کرتی تھی ۔

42c7d6db 3ef0 4f3c 9b35 4fbd93633d48

لوئر بیروٹ جلیال کا ایک دلکش منظر..سامنے دریائے جہلم کے اس پار آزاد کشمیر کے نظارے

چٹلے پر اگر دریا کی طرف منھ کر کے کھڑے ہوں تو نیچے دائیں بائیں بہت سی اہم جگہیں پائی جاتی تھیں جن کی آج ایک عرصے بعد یاد آئی ۔

 

گلتاج ماموں کی زمین کھیتر میں ایک ،، سائے کی بِنڈی ،، یعنی خرگوش کی بیٹھک پائی جاتی تھی ۔ پگڈنڈی کے بالکل ساتھ قدرے بلند جگہ پر چند پتھر اس انداز سے جڑے ہوئے تھے جیسے کوئی شیلف بنی ہو ۔ ہم سنا کرتے تھے کہ یہاں خرگوشوں کی جوڑی رہا کرتی تھی ۔ رات کو تو یہاں جانے کا حوصلہ نہ تھا لیکن دن میں کئی بار ہم نے یہاں رازداری سے چھاپے مارے کہ کہیں تو سائے پکڑے جائیں لیکن کبھی نظر نہیں آئے ۔ ہر بار ہم ان کا کھرا نکالتے اور اعلان کرتے کہ اپنے لمبے لمبے کانوں کے سبب ہماری آہٹ پا کر وہ ابھی ابھی یہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔
نیاز احمد ابا ، مولانا آصف اور عاطف وحید کے دادا مرحوم اپنی جوانی میں کیے گئے خرگوش کے شکار کے قصے خوب مزے لے کر سنایا کرتے تھے ۔ سائے کی بنڈی اور شکار کی داستانوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ بہرحال یہاں کبھی خرگوش کثرت سے پائے جاتے تھے لیکن غیر منضبط شکار نے یہاں سے ان کا نام و نشان مٹا ڈالا ،
اسی کھیتر نامی رقبے میں ایک مقام ،،اُبّی نی کھل ،، ہوا کرتا تھا یہ مقام ارشد حسین بھائی کے پرانے مکان کے پاس واقع تھا ۔ یہ ایک ٹیکری سی تھی ۔ امی جان مرحومہ بتایا کرتی تھی کہ کسی دور میں ہمارے علاقے میں ،، اُبیاں ،، ( واحد اُبّی ) بہت ہوا کرتی تھیں ۔ یہ ایک مرغی نما پرندہ تھا جس کی چونچ لمبی ہوتی تھی ۔امی سے حاصل کردہ معلومات کی روشنی میں ، بچپن سے میرے ذہن میں ابی کا خاکہ کیوی پالش پر بنے پرندے کی تصویر سے ملتا جلتا ہے۔
ابے نی کھل سے تھوڑا نیچے اتریں تو کھولہ ،، آ جاتا ہے ۔ واجد حسین ارشد حسین صاحبان کے دادا محمد الہی صاحب کی بکریوں کا یہ باڑا ہوا کرتا تھا ۔ گلتاج ماموں کے دور میں یہاں گھاس کے پَسّے ہوا کرتے تھے اور اب دانی ، یعنی داڑو یا اناردانہ کے درخت ،
یہاں سے سیدھا نیچے اترتے جائیں تو ایک ٹیکری آتی تھی جس کا نام چورہ ہےم ۔ دستیاب روایات کے مطابق یہاں ہمارے اجداد میں سے چند بھائیوں نے اپنے سوتیلے بھائی المعروف بڈھے دادا کو کلہاڑیوں سے کاٹ ڈالا تھا ۔ ہم بچپن میں یہاں جاتے تھے لیکن
خائفا یترقب یعنی آہستہ آہستہ ، ادھر ادھر دیکھتے ڈرتے ڈرتے مبادا کہیں بڈھا دادا نہ آ جائے ۔ یہ شاید اس غریب کے سوتیلے ہونے کا اثر تھا کہ اپنی مظلومیت کے باوجود اس کی شخصیت کا ہیولیٰ ہمیشہ ایک ولن کا سا رہا ۔ یہیں دائیں طرف ہماری پھوپھی کی ،، رکھ ،، سی مار واقع تھی ۔ یہاں کے بارے میں کوئی روایت حافظے میں محفوظ نہیں ، یا تو یہاں شیر نے کسی کو مارا ہو گا یا شیر کا خون کسی نے کیا ہو گا ۔
یہاں سے نیچے ماں کے ڈوگے واقع ہیں ۔ یہاں سے بائیں طرف ،،مورے نی بانڈ ،، مور کا موضع یا مقام واقع ہے ۔ کتنی ہی گرم دوپہریں یہاں ہم نے مور ڈھونڈنے میں ،، پسینا ،، دیں ! ۔ لیکن ہمارے بچہ ذہن کو معلوم نہ تھا کہ بانڈی کے خرگوش ،یہاں کی اُبیاں ، یہاں کے مور کب کے قصہ پارینہ بن چکے اب جو حال ہے سو بے حال ہے ::

ہربستی سے ، ہر وادی سے، ہر بن سے شرارے اُڑتے ہیں
ہرصحن سے ، ہر روزن سے ، ہر آنگن سے شرارے اُڑتے ہیں

ہر شاخِ نشیمن جھلسی ہے، ہر طائر سہما سہما ہے

گل زخمی غنچے گھائل ہیں گلشن سے شرارے اُڑتے ہیں۔۔۔

جمیل الرحمن عباسی

ایک تبصرہ چھوڑ دو