"ٿر ٿر اندر ٿاڪ” بھارومل کی خاکوں پر مشتمل کتاب

تحریر: رياض سہيل

ٿرٿراندرٿاڪ

بھارومل امرانی کی خاکوں پر مشتمل کتاب

رياض سہيل

IMG 20240327 WA0002
بھارومل امرانی کی پروفائلز پر مشتمل کتاب صحرائے تھر کے مختلف شعبہ جات کی نمائندہ شخصیات کی زندگی کی جدوجہد اور تھر سے محبت کا احوال ہے۔ بھارومل اپنے قلمی محنت اور بصارت کے ساتھ ساتھ لوک دانائی کی وجہ سے جانے پہچانے لکھاری ہیں اور انہوں نے یہ جگہ جہد مسلسل کے ذریعے حاصل کی ہے۔
لکھنے پڑھنے کے حوالے سے میری ان سے ملاقات کا حوالہ صحافت ہے، جب انہوں نے حیدرآباد میں آکر قلم آزمائی کی۔ بعد میں انہوں نے تھر کے ماحولیات سے متعلق ایک غیر سرکاری ادارے میں کام کیا اور سیاسی خبروں کی دھول میں لٹے ہوئے ہم جیسے صحافیوں کے ذہنوں کو ماحولیات کی طرف متوجہ کرنے کے لیے ہمت افزائی کرتے رہے۔

IMG 20240316 WA0378

تھر کی ماحولیات مسلسل حکومتوں کی جانب سے نظر انداز کیے جانے اور قحط سالی کی وجہ سے بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ گزشتہ تیس سال کے عرصے میں تھر کا معاشی اور سماجی ڈھانچہ بھی تبدیل ہوا ہے اور سیاست نے بھی نیا رخ اختیار ہے۔ ایسے میں بھارومل نے تنظیم میں صرف ملازمت ہی نہیں کی بلکہ اس کام کو اپنے دل کی اور اندر کی بات سمجھ کر، اپنا مقصد سمجھ کر کیا ہے۔ ان کی ایک پہچان تھر کے ماحولیات کے ایک سرگرم کارکن کی بھی ہے، جو اس موضوع کے بارے میں جانتا بھی ہے اور کھل کر بات بھی کرتا ہے۔

بھارو مل کا شمار آسانی کے ساتھ ان لوگوں میں کیا جاسکتا ہے جن کو اپنے لوگوں اور زمین سے پیار ہے۔ ایک مارواڑی کہاوت ہے کہ جو جتنے گہرے کنویں کا پانی پیتا ہے وہ اتنا ہی گہرا ہوتا ہے۔ بھارو کی شخصیت بھی کچھ اسی قسم کی ہے۔

بھارو سندھی اور ڈھاٹکی زبان میں شاعری بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے ادبی اور لسانی حوالے سے بھی مختلف مضامین لکھے ہیں۔ ان کے نزدیک تھر اور تھر کے لوگ ہی سب کچھ ہیں۔ وہ طبع میں سنجیدہ لیکن حساس مزاح کی خوبی رکھنے والے ہیں۔

تھر میں جتنے ریت کے ٹیلے ہیں اتنے ہی کاریگر اور سمجھ دار لوگ ہیں، جن کو معلوم ہے کہ مشکل اور تبدیل شدہ حالات میں کیسے جیا جائے؟ انھیں حالات سے مقابلہ کرنا اور رہنا بھی آتا ہے۔ جیسے قحط سالی میں بارش کے موسم کا انتظار کیا جاتا ہے اسی طرح سے لوگ اچھے وقتوں کا انتظار کرتے ہیں۔ اور وہ کبھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔

میں تھر کو رپورٹ بھی کرتا رہا ہوں اور بچپن سے تھر کو دیکھتا بھی رہا ہوں۔ اس وجہ سے تھر سے میرا لگاؤ ہے۔ اور تھر اور تھر کے لوگوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ ایک بات مجھے سمجھ میں آئی کہ تھر کے لوگوں کو زندہ رہنا آتا ہے۔ ان کو خوش ہونا آتا ہے۔ ان کے پاس زندہ رہنے کے گر اور ہنر ہیں۔

تھر کے بندے کو جہاں کہیں بھی داخل ہونے کا موقعہ ملتا ہے وہ اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔ اس کو کھڑا ہونا آتا ہے وہ فاسل (پنڈ پہن) ہو جاتا ہے لیکن ہٹتا نہیں۔ شاید اس لیے کہ صحرا میں زندہ رہنے کے وسائل اور مواقع بہت کم ہیں۔ ایک ہی ذریعہ ہے جس پر وہ انحصار کرتا ہے اور وہ ہے اپنی محنت، اپنا ہنر، اسکل، کاریگری۔ سیاست ہو یا ادب، صحافت ہو یا این جی او سیکٹر، عوام کی خدمت کا شعبہ ہو یا تعلیم۔۔۔  تھر کے لوگوں نے اپنا لوہا منوایا ہے۔ ایسے کئی لوگ ہیں جن کی زندگی سراپا جدوجہد کی کہانی اور مثال ہے۔ بھارو مل نے ان میں سے چند ایک کو اپنی قلم آزمائی کے لئے منتخب کیا ہے۔

عام طور پر تاریخ بادشاہوں، شہنشاہوں، شہزادوں اور شہزادیوں کی لکھی جاتی رہی ہے۔ لیکن ایک تاریخ عام انسان کی بھی ہے اور تاریخ نویس ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ اصل تاریخ عام انسان کی ہی ہے۔ بھارو مل بھی اسی پنتھ کے پنتھی لگتے ہیں۔

بھارومل کے یہ کردار سماج میں چلتے پھرتے کردار ہیں جو صحرا کی ریت پر چلتے چلتے اپنے قدموں کے نقش چھوڑ جاتے ہیں، بعض اوقات بالکل دیومالائی کردار لگتے ہیں۔ ہمارا یہ دوست جہاں کہیں بھی جاتا ہے اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھتا ہے۔ جس کی وجہ سے اسے بے پناہ مشاہدہ اور معلومات ملتی ہے۔

پروفائل سے مطلب ہے کسی شخصیت کو ڈسکرائیب کرنا۔ شخصیت کا خاکہ پیش کرنا۔ اس شخصیت کو کیسے پہچانا اور یاد کیا جاتا ہے؟ اس کو دیکھنے کے لیے آنکھیں چاہئیں جو گہرائی تک دیکھ سکیں اور ایک بھرپور مطالعہ چاہیے۔ یہ مطالعہ خود اپنی آنکھوں سے، ذاتی طور پر معلومات جمع کر کے اور پھر ثانوی معلومات کے لیے متعلقہ کتابوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ کوئی خانہ پری نہیں ہے۔ بلکہ تحقیق کے ساتھ ساتھ تخلیق کا کام ہے جو کہ بھارو نے بڑی ایمانداری سے کیا ہے۔

بھارو چاچا نواز کھوسو سے تو مل چکے تھے اور محفلیں بھی کر چکے تھے۔ ان پر لکھنے کے لیے شاید انہیں کسی اور حوالے کی ضرورت نہ پڑی ہو۔ لیکن مسکین جہان خان کھوسو کے لیے مواد اکٹھا کرنا مشکل کام تھا۔ کیونکہ مسکین جہان خان تو بھارو کی پیدائش سے پہلے ہی اس جہاں سے چلے گئے تھے اور مسکین پر مجنوں بلوچ کی جامع اور بھرپور تحریر کی موجودگی میں قلم اٹھانا کوئی آسان کام نہیں۔

سائین رائے چند سے لیکر مائی ڈھائی سمیت مختلف شخصیات کے پروفائلز پڑھ کر لگا کہ یہ بڑا عرق ریزی کا کام ہے۔ اس نے باقاعدہ دھول چھانی ہے۔ وہ متعلقہ لوگوں کے آبائی گاؤں گئے ہیں۔ وہاں جا کر چھوٹی چھوٹی معلومات اکٹھی کی ہے۔ جو لوگ زندہ ہیں ان سے بھارو نے رسمی خواہ غیر رسمی انٹرویو کیے ہیں۔ اور لگتا ہے کہ بعض سے تو کئی بار ملاقاتیں کی ہیں۔ وہ اس دوران بغیر بتائے اس شخصیت کا مطالعہ کرتے رہے نیز جہاں ضروری سمجھا اس سے گفت و شنید کر کے بھی تحقیقی کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔

ایک تبصرہ چھوڑ دو