
پی ڈی ایم کو بڑا جھٹکا ۔ریویو آف ججمنٹ ایکٹ کالعدم
پی ڈی ایم کو بڑا جھٹکا ۔ریویو آف ججمنٹ ایکٹ کالعدم
سپریم کورٹ نے ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹ ایکٹ کالعدم قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف درخواستیں قابل سماعت قرار دے دی ہیں۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ یہ ایکٹ اختیارات سے تجاوز کر کے بنایا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں اٹک جیل میں بشریٰ بی بی کی عمران خان سے ایک گھنٹہ ملاقات
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے
کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نا اہلی تاحیات ہوگی ۔
سپریم کورٹ کےبیان میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کیس کا متفقہ فیصلہ سنایا گیا ہے، یہ ایکٹ آئین کے خلاف ہے، پارلیمنٹ نے اپنے دائرہ کار سے تجاوز کیا، فیصلے کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔
ایکٹ سے متعلق کیس میں جسٹس منیب اختر نے اضافی نوٹ بھی تحریر کیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ پارلیمان کی قانون سازی کے اختیار سے تجاوز ہے، سپریم کورٹ ریویو ایکٹ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں لہذا اسے کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔
سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کےخلاف درخواستوں پر فیصلے کے لیے عدالت نے فریقین کو الیکٹرانک نوٹس بھجوائے تھے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ 19 جون کو چیف جسٹس پاکستان عمرعطابندیال،جسٹس منیب اختر اورجسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل بینچ نے کیس کی 6 سماعتیں کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعتیں کیں، درخواست گزاروں نے ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کےخلاف درخواستیں دائر کی تھیں۔
جس پر اٹارنی جنرل نے درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کی تھی، درخواست گزارپی ٹی آئی نے اس قانون سازی کے لیے آئینی ترمیم لازم قرار دینے کا مدعا پیش کیا تھا۔
پارلیمنٹ کے منظور کردہ ایکٹ کے تحت آرٹیکل 184 تھری کے مقدمات کے فیصلے کے خلاف متاثرہ فریق کو اپیل کا حق دیا گیا تھا، اپیل سننے والے بینچ میں ججز کی تعداد مرکزی کیس سننے والے ججز سےزیادہ ہونا لازم ہے تاہم پی ٹی آئی سمیت انفرادی حیثیت میں وکلاء نے اس ایکٹ کو چیلنج کیا تھا۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دی جاسکتی ہے، جس کے لیے 20 دن کی معیاد مقرر ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق عدالتی فیصلے کے نتیجے میں مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں نواز شریف کی وطن واپسی پھر تعطل کا شکار ہو گئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف کی وطن واپسی میں تاخیر انہی ممکنہ قانونی پیچیدگیوں کے پیش نظر ہو رہی ہے
یہ بھی پڑھیں سائفرکاپی وزیراعظم ہاؤس سےگم ہوئی،کیس کس پربنتا ہے؟
۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف نےاپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ نواز شریف وطن واپس آ کر قانون کا سامنا کریں گے۔
نواز لیگ کیا کہتی ہے؟
دوسری طرف مسلم لیگ نون کا موقف ہے کہ اس فیصلے سے
نواز شریف کی وطن واپسی پر براہ راست بے اثر نہیں پڑے گا۔
سابق وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہےکہ آئین میں طریقہ کار وضع ہے کہ اداروں نے کیسے چلنا ہے، عدالت کا کام مقدمات کا فیصلہ کرنااور لوگوں کو انصاف فراہم کرنا ہے، پارلیمان کے اختیار میں عدالت کی بار بار مداخلت اچھی روایت نہیں، اس سے ادارے کمزور ہوں گے۔
انہوں نے کہا تاثر جا تا ہے کہ پارلیمان کی غیرموجودگی کا فائدہ اٹھایا گیا، یہ قانون بارکونسلز اور بار ایسوسی ایشنز کا پرانا مطالبہ تھا، سمجھ سے بالا ترہے جس ڈاکٹر سے شفا نہیں مل رہی کہا جارہا ہے دوسرا آپریشن بھی اسی سے کرایا جائے، آئین کہتا ہے کہ آپ اپنی مرضی کا وکیل رکھ سکتے ہیں۔
لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ نوازشریف کے کیس میں اس فیصلے کا کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ پارلیمان 184/3کے تحت سزا پر نااہلی 5 سال کرنے کا قانون منظور کرچکی ہے، الیکش ایکٹ میں ترمیم کے بعد نااہلی 5 سال سے زیادہ نہیں ہوسکتی،لہٰذا متاثرہ فریق اب 5 سال بعد سیاست کے لیے اہل ہوچکے ہیں،قتل یا ریپ کیسز میں سزا ہوتی ہے تو سزا کے 5 سال بعد سے آگے نااہلی نہیں جاتی۔
اعظم نذیر نے مزید کہا کہ یہ فیصلے بعد میں ہوں گے، سپریم کورٹ کےاس فیصلے سے پارلیمان کی خود مختاری پر آنچ آئی، اس وقت یہ فیصلہ دے کرپارلیمان کی غیرموجوگی کا فائدہ اٹھایاگیا ،یہ یقینی بنایا گیا کہ پارلیمان اس فیصلے کا تدارک نہ کرسکے۔