پہلے پاکستانی اسپرانتودان علامہ مضطر عباسی کی21 ویں برسی

پہلے پاکستانی اسپرانتودان علامہ مضطر عباسی کی21 ویں برسی

FB IMG 1624462592160

 

پاکستان اسپرانتو ایسوسی ایشن (PakEsA) نے پاک ٹی ہاؤس میں پہلے پاکستانی اسپرانتودان علامہ مُضطَر عباسی کی 21ویں برسی کا اہتمام کر رکھا تھا، جِس کی صدارت ڈاکٹر امجد علی شاکر نے کی۔ مہمانِ خصوصی ڈاکٹر جمِیل احمد پال تھے ۔

کلماتِ صدارت میں ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ پنجابی کے حوالے سے میں ڈاکٹر جمیل پال کو جانتا تھا۔ اسپرانتو کے حوالے سے آج ان کی محققانہ باتیں سن کر معلومات میں اضافہ ہوا ۔ علامہ عباسی سے ہر ملنے والا کچھ نہ کچھ سیکھ کر اُٹھتا تھا ۔ جِس طرح مائیں بچوں کو اِکٹھا رکھتی ہیں اسی طرح وہ بھی ہم سب کو اِکٹھا رکھنے کی کوشش میں لگے رہے۔ میں نے اپنی کتاب بھائی کے ہاتھ مری بھجوائی تو اُنہوں نے جِن دوستوں کے حوالے کی وہ آج کل اسپرانتو کی بدولت بیرون ملک رِزق کما رہے ہیں۔ جیسے گورو نانک نے ہندو مسلم اتحاد قائم کیا، ویسے ہی ہم سب کے درمیان تعلقات قائم رکھنے کے لیے عباسی صاحب بذریعہ اسپرانتو کوشش کرتے رہے۔  سانجھ کے لوگوں کا مزاج اس زبان میں ہے ۔ اِستدلال کا سلیقہ ، لوجیکل تھِنکِنگ علامہ صاحب میں تھی ۔ وہ لاجواب نہیں ، قائل کرتے تھے۔ جیسا ابھی ان کے کولیگ پروفیسر مُنیر نے بتلایا کہ وہ تحقِیقی کام کرنے کا شعور دے کر ریسرچ کرنے کی طرف مائل کر دیتے تھے ۔ اُصُول و تحقِیق کے گُر باتوں باتوں میں سمجھا دیتے تھے ۔ لِسانیات پر عام فہم گفتگو کرتے تھے۔ ایک بار کہنے لگے لفظ ڈسپنسری کے اندر پنساری چھُپا بیٹھا ھے ۔ لِبرٹی اور لائبریری کا مآخذ ایک ہی ہے۔ یہ اُن سے ہی معلوم ہوا۔ اِنسانی حقِیقتوں کو تلاش کرنا، اُنھوں نے سکھلایا، یہ سیکھ کر پھر کوئی اِنسان بُرا نہیں لگتا۔ لسانیات کا فہم و اِدراک، علامہ صاحب ہی کا فیضان ہے، اُنہی کے چراغ سے روشنی لی۔ کُچھ عرصے بعد کسی لیکچر کے دہرا دینے کو وہ دھوکہ دینا سمجھتے تھے ۔ اُن کی عِلمِیت، لیاقت و قابلیت کے جسٹس ڈاکٹر رشِید جالندھری معترف تھے۔ آپ علم کی دولت سے مالا مال تھے، وہی ساری عمر اپنے مِلنے والوں میں بانٹتے رہے ۔ وہ فرماتے تھے کہ طلباء کو Notes نہ لکھوائیں۔ اُنھیں مطالعہ کی عادت ڈالیں۔ میں اُن کے لیے لکھتا ہوں جِنہوں نے اختلاف کرنا سیکھا۔ ہمارا نِظامِ تعلیم پِنجرے میں بند ہے۔ سوال اُٹھانے پر حکومت پریشان ہو جاتی ہے۔ حالاں کہ سورۃ الضحیٰ کی آیت نمبر 10 میں ہے سوال کرنے والے کو ڈانٹ نہ دینا ( اُس کے سوال کا جواب دیں ۔ سوال کو ہمارے مولوی نے گداگر سے منسُوب کر دیا ہے کہ فقیر کو نہ ڈانٹیں)۔ علامہ عباسی صاحب سوال اُٹھانا سکھاتے تھے۔ وہ بہت پڑھتے تھے، بہت سوچتے تھے، بہت محبّت کرتے تھے۔ مگر کبھی فیصلہ مسلط نہیں کرتے تھے۔ وہ اِختلافِ رائے کرتے تھے، کِسی کی تردِید کے درپے نہیں ہوتے تھے ۔ وہ اپنی رائے دیتے تھے۔ خود تجزیہ کرتے تھے اور دُوسروں کو تجزیہ کرنے کا ڈھنگ سکھاتے تھے۔ وہ سائنسی ذہن کے حامل تھے۔ وہ دائیں بازو والوں کو بھی جگہ دیتے تھے اور بائیں بازو کے لوگوں کو بھی ۔ مقصد یہ تھا کہ نوجوان نئے زاویے سے سوچیں تاکہ اُن کے پاس علم ہو۔ وہ سائنسی رویّے اور سوچ کو عام کرتے تھے۔ شاید اسپرانتو سائنسی سوچ پھیلانے کا ایک ذریعہ تھی۔ وہ نوجوانوں کو اسپرانتو سِکھاتے اور اُن سے مکالمے کا بہانہ ڈھونڈ نکالتے۔
مہمانِ خصوصی ڈاکٹر جمیل پال نے کہا کہ میں نے سن 80ء کے لگ بھگ اسپرانتو کے بارے میں سُن کر علامہ عباسی کی کتاب مکتبہ القریش سے منگوائی۔  پڑھنے کے بعد پنجابی میں خط لکھ کر اسپرانتو مرکز ، لوئر مال ، مری ارسال کر دیا۔  جِس کا جواب علامہ صاحب نے پنجابی میں دے کر حوصلہ افزائی کی ۔ اسپرانتو کانفرنس، مُلتان میں پہلی مُلاقات ہوئی، تب سے اُن کے تبحرِ عِلمی سے مُتاثر ہو کر ہر سال مری کانفرینسز میں جانا شروع کیا۔ بہت بڑے عالم فاضل ہونے کے باوصف ان میں انکساری تھی۔ شاخ پر جتنا پھل ہوتا ہے اتنی ہی ٹہنی جھُکتی ہے کی مِثال علامہ صاحب تھے ۔ اُستاذ کی حیثیت سے ان میں وہ تمام خُوبیاں موجُود تھیں جِن کا صِرف ذِکر ہوتا ہے، عملی شکل کہیں دکھائی نہیں دیتی ۔ اُن کی یہ دُور اندیشی تھی کہ اُنہوں نے اسپرانتو زبان کی اہمیت و افادیت کو سمجھتے ہوئے PakEsA (پاکِستان اسپرانتو ایسوسی ایشن) کا قیام عمل میں لایا تاکہ پاکِستانی اس زبان کے ذریعے بین الاقوامی رابطے میں رہیں ۔
پاکستان اسپرانتو ایسوسی ایشن کے صدر شبیر سیال نے صدر یونیورسل اسپرانتو ایسوسی ایشن و سرپرست اعلیٰ، انٹرنیشنل اکیڈمی ڈاکٹر ریناتو کورسیتی اور "پاکیسا” کے سابق جنرل سیکرٹری جاوید احسان کی وفات پر اظہار تعزِیت کیا اور اُن کی گراں قدر خِدمات بتلانے کے بعد کہا کہ علامہ عباسی ایک عظیم شخصیت تھے۔ وہ ہم سب اسپرانتو دانوں کے حقِیقی مُعلّم و محسن ہیں ۔ پاکِستان میں وہ جہاں جہاں گئے وہاں وہاں انہوں نے اسپرانتو گروپس قائم کیے جو بِلا معاوضہ
اسپرانتو سکھا رہے ہیں ۔ کِردار سازی میں اُن کا کِردار مثالی رہا ۔ اُن کی تمام عمر عِشقِ کِتاب میں گُزری۔ اُن کی کُتب پرستی کا ثبوت اُن کی وسیع و عریض ذاتی لائبریری سے ملتا ہے، جو مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری میں منتقل ہو چکی ہے ۔
محمد الطاف رؤف نے دوران کمپیرنگ بتایا کہ شبیر سیال کے مُرتّبہ مراسلاتی کورس ، عالمی زبان اسپرانتو کا پیش لفظ ڈاکٹر رینا تو کورسیتی نے تحریر فرمایا تھا۔ مُلتان اسپرانتو کلب کو ہمیشہ جاوید احسان نے فعال رکھا ، "فاتسِیلا اسپرانتو” کی اشاعت اور مرکزی دفتر پاکیسا کے امور میں اُن کا کِردار مثالی رہا ۔ ماہنامہ الحق اکوڑا خٹک اور الفاروق کراچی نے علامہ مُضطَر عباسی کے تحقیقی مضامین شائع کر کے نہ صرف قارئین کو لِسانیات اور نئی زُبانوں کی تفصیلات سے آگاہ کیا بلکہ ایسا حوالہ جاتی مواد بھی فراہم کیا جو یہ ثابت کر سکے کہ یورپ کی تمام بڑی زبانیں دراصل عربی النسل الفاظ پر مبنی ہیں ۔ مُختلِف موضُوعات پر علامہ عباسی کے دو درجن سے زیادہ کتابچے و کُتب شائع ہو چُکی ہیں لیکن کسی کِتاب یا تحرِیر کا مُعاوضہ اُنہوں نے اپنی ذات پر خرچ نہیں کیا ۔ جو بھی اُن سے ملا اُس نے ہمیشہ اُن کو اچھے کلمات سے یاد رکھا۔ PaKEsA کے وائس پریزیڈنٹ رحیم شاہ نے کہا کہ اِٹلی کی عظِیم شخصیت ڈاکٹر ریناتو کورسیتی عالمی شہرت کے حامل تھے ۔ اُن کی وفات عالمی اسپرانتو تحریک کے لیے ایک بڑا صدمہ ہے۔ اُن کی کمی کو پورا نہیں کِیا جا سکتا۔ اُنہوں نے عالمی سطح کے ساتھ ساتھ ایشیا اور پاکستان میں اسپرانتو تحرِیک کو مُستحکم بنانے میں اہم کِردار ادا کیا۔ پاکستان میں ورلڈ سوشل فورم منعقدہ 2005ء کراچی میں UEA ( عالمی اسپرانتو ایسوسی ایشن) اور PakEsA کی نمائندگی میں اُن کی سرپرستی اور مُشترکہ کاوِش اُن کی بہترین کارکردگی کے ثبوت ہیں . پاکستان میں دُوسرا ایشیا سیمینار منعقد کروانے میں میں بھی اُن کا بھرپور تعاون اور کاوشیں یادگار رہیں گی، جو پاکستان میں اسپرانتو کی ترقی اور تحرِیک کے ساتھ اُن کی والہانہ محبت کا ثبُوت ہے۔ جاوید احسان سابق جنرل سیکرٹری پاکیسا کی وفات بھی پاکیسا اور اسپرانتو تحریک کے لیے بہت بڑا صدمہ اور نقصان ہے۔ اُنہوں نے ہر دور میں اسپرانتو تحریک کے فروغ میں اہم کِردار ادا کیا ۔ اسپرانتو زُبان کے لیے علامہ مضطر عباسی کی شاندار خدمات کے اعتراف میں اُنہیں یونیسکو کے ذیلی ادارے UEA کا اعزازی رُکن منتخب کیا گیا ۔ یہ اعزاز دُنیا کے 15 کروڑ اسپرانتو دانوں میں تب صرف 57 افراد کو حاصل تھا، جِس کا باقاعدہ اعلان اسپرانتو کی 86 ویں عالمی کانگرس میں (زیگرب میں) اگست 2001ء میں یونیسکو کے سربراہان نے خُود کیا ۔
پنجاب کالج میں فِزکس کے لیکچرر عبدالغفار انجم نے اسپرانتو کے حوالے سے علامہ عباسی کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ انگریزی زبان جو 30/35 مُلکوں میں بولی جاتی ہے کے نیچے پاکستانی قوم کو لگا دیا گیا ہے ، جبکہ اسپرانتو بولنے والے دُنیا کے سو سے زیادہ مُلکوں میں موجُود ہیں ۔ اسپرانتو انگلش کے مقابلے میں آسان زبان ہے۔ اس کو سکُولوں کالجوں میں اختیاری زبان کا درجہ دینے سے طلبہ میں خود اعتمادی آئے گی ۔
ممتاز افسانہ نگارآصف عمران نے اپنے افسانوں کا نیا مجموعہ”روزنِ خواب” اسپرانتو کلب کوعطیہ کرنے کے بعد کہا کہ PAF رسال پور اکیڈمی میں ان کے بیٹے کی شہادت پر علامہ عباسی کے تعزیتی خط سے ہمارے اہلِ خانہ کو حوصلہ ملا۔ وہ انسان دوست تھے اور سب انسانوں کو اسپرانتو کے ذریعے جوڑنا چاہتے تھے تا کہ سب بنی آدم اُمتِ واحدہ بن جائیں ۔
علامہ کے کولِیگ پروفیسر منیر نے بتایا کہ جب علامہ مضطر عباسی PAF کالج لوئر ٹوپہ میں وائس پرنسپل تھے تب انہوں نے خطبہ حجۃ الوداع کا اسپرانتو ترجمہ سو سے زیادہ مُلکوں میں ارسال کیا۔ جسے پڑھ کر سب اسپرانتو دان بہت متاثر ہوئے۔ جِن خاندانوں نے اسلام قبول کیا اُنہوں نے فرمائش کی کہ قرآن پاک کا اسپرانتو ترجمہ بھی اُنہیں ارسال کریں۔ علامہ صاحب نے یکسوئی سے ترجمہ کرنے کے لیے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا ۔ قُران مجید کا اسپرانتو ترجمہ، یونیورسل اِسلامی اسپرانتو ایسوسی ایشن کے صدر شاہد بخاری جب حج کرنے گئے تب سعودیہ دارالترجمہ میں دے آئے ۔ یونیورسل اسلامی اسپرانتو کے سیکرٹری جنرل امجد بٹ، جو حال ہی میں عمرہ کر کے واپس آئے ہیں، نے بتایا ہے کہ سعُودی عرب والے اس ترجمے کو عنقریب شائع کر کے اسپرانتو دان حاجیوں کو تحفتاً دیا کریں گے ۔ میں کئی ملکوں میں گھُوم چکا ہوں ، علامہ عباسی جیسا باعِلم ، مُخلص اور بےلوث کہیں نہیں ملا ۔ اُن جیسوں کو سرکاری ایوارڈ دینے سے ہی وہ اعزازات معتبر و مؤقر سمجھے جاتے ہیں ۔
راقم شاہد بخاری نے کہا کہ علامہ عباسی کی قابلیت و لیاقت کے جوہر اُس وقت کھُلتے تھے جب کوئی معترض آپ کے لیکچر کے بعد اعتراض کرتا جِس کا جواب جِس خُوش دِلی و ذہانت سے دےکر آپ اُسے مطمئن کر دیتے اس پر حیرت ہوتی تھی ۔ 1978ء تا دمِ وفات 2004ء کی مُلاقاتوں نے علامہ عباسی کے کِردار کی دُوسری عظمتوں سے بھی مُتعارف کروایا۔ اُن کی قابلیت، لیاقت، سخاوت، خطابت، بے نیازی ، عِجز و اِنکساری، دوسروں کو بڑھاوا دینا، ہر ادنیٰ کو اعلیٰ کر دینا ، کِتاب دوستی ، خُود داری، فیاضی ، وضعداری اور پاسداری کے بہت سے پہلو سامنے آئے، جو میری زندگی کے لیے سبق بن گئے ۔ وہ واقعی ایک رول ماڈل تھے ۔ خُدا کرے اسپرانتو کو جلد سکولوں کالجوں میں بطور اختیاری زبان کے شامل کر لیا جائے تا کہ اُن کی رُوح شاداں و فرحاں رہے ۔

IMG 20250224 WA0222 2

شاہد بخاری ۔۔۔۔ لاہور

ایک تبصرہ چھوڑ دو