پھانسی گھاٹ……جب ایک قانون داں مجرم بنا
سینئرصحافی آغا خالد کےقلم سے نکلی تہرے قتل کی ایک سچی اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی کہانی
صاحب تحریر
ایک چھوٹے سے ہال میں دس بارہ لوگ موجود تھے مگر ہم سب صرف ایک دوسرے کے سانسوں کی سرسراہٹ ہی سن سکتے تھے اور دوسری طرف 20 سے 25 فٹ اونچے تختے پر وہ بظاہر تناہوا کھڑا تھا، مگر اس کی ٹانگیں لرز رہی تھیں اسی لیے اس کی پشت سے دو لوگ اسے سہارا دیئے ہوے تھے اور ان دونوں نے اس کے ہاتھ اس کی پشت پر ایک پتلی رسی سے باندھ دیئے تھے ، یہ پھانسی کے مجرم کے آخری لمحات تھے ، 3 جیتے جاگتے اپنے موکلوں کو لمحوں میں گولیوں سے بھون دینے والا قانون داں تختہ دار پر بے بسی کی تصویر بنا کھڑاتھا…
جلاد نے اس کے سر سے ایک فٹ اونچے لکڑی کے فریم میں ایک موٹی سی رسی باندھی پھر اس کی مضبوطی کا اندازہ لگانے کو یکے بعد دیگرے اسے کئی بار جھٹکا اور پھر اسکے دوسرے سرے کو پھندے کی شکل دے کر اسے بھی ناپا تولا اور ایک بار تن کر کھڑے ہونے کی کوشش کرتے مجرم کے گلے میں ڈال کر دیکھا اور پھر رسی نکال کر مجرم سے بلند آواز سے پوچھا کہ وہ کچھ اور کہنا چاہے گا تو مجرم نے پہلی مرتبہ جلاد سے آنکھیں ملائیں اور پھر درد ناک بے بسی سے سر جھکادیا جس کا مطلب شاید انکار ہوگا. جلاد نے پھر بلند آواز میں پوچھا "پانی”…؟
یہ سن کر اس نے ہونٹوں پر زباں پھیری مگر نفی میں گردن ہلادی ، اپنے فرض کی تکمیل کے بعد جلاد نے اپنے کھلے ڈلے چوغے کی جیب سے سیاہ رنگ کی ٹوپی نکالی اور مجرم کے سر پر اس طرح چڑھائی کہ وہ گردن تک آگئی. شاید یہ اسی مقصد کے لیے تیار کروائی جاتی ہوگی پھر اس نے پھانسی کا پھندا مجرم کے گلے میں ڈالا اور اس کی گٹھان اتنی کھینچی کہ مجرم کو سانس لینے میں کوئی دقت نہ ہو مگر وہ گردن میں اس طرح پیوست ہوجائے کہ ایک جھٹکے میں اس کے سانس کی ڈور کو کاٹ دے. ادھر سے فارغ ہوکر اس نے قاضی کی طرف دیکھا جو بار بار اپنی کلائی پر بندھی گھڑی دیکھ رہے تھے. ان کے ساتھ جیلر اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ بھی کھڑے تھے اور جیلر کے دوتین ماتحت بھی ان کے پیچھے کھڑے تھے، جبکہ ہال میں 20 سے 25 فٹ اونچے تختہ دار پر جلاد مجرم اور دو اسے سہارا دینے والے کھڑے تھے..
تختہ دار کے سامنے خاصی جگہ تھی جس میں لکڑی کی دو تین بینچیں پڑی تھیں اور اسے ایک جنگلہ لگاکر الگ کردیا گیا تھا. جنگلے کے دوسری طرف بھی آٹھ دس لوگ تھے جن میں موت کی سزا کے منتظر اور دیگر کچھ قیدی تھے جیل حکام کے مطابق عبرت کے لیے انہیں موت کا حقیقی منظر دکھایا جاتاہے، مگر یہ سب خاموش اور با ادب کھڑے تھے. بینچیں خالی پڑی منہ چڑارہی تھیں. بعد میں مجھے بتایا گیا کہ عموما اس جنگلے کے پیچھے مجرم کے متاثرین ھی ہوتے ہیں جبکہ تختہ کے بائیں جانب میں اور جیل سپرنٹنڈنٹ کھڑے تھے.
قانونی طریقہ کار کے مطابق صبح کی اذان سے قبل موت کی سزا دی جاتی ہے جبکہ اس کا تعین مجسٹریٹ جیل حکام کے مشورہ سے ہر مجرم کا الگ سے طے کرتاہے،مگر چند منٹ کے فرق سے پھانسی صبح کاذب کے وقت ہی دی جاتی ہے ماسوا کسی خاص کیس یا حالات کے پھانسی کا جو دن متعین ہوتاہے اس روز پھانسی کے مجرم کے لیے خصوصی اہتمام کیا جاتاہے. اسے بہترین کھانا اور اس کی پسند کی دیگر اشیاء خورو نوش دی جاتی ہیں. وہ اگر طلب کرے تو اسے اس کی پسند کی خوشبو بھی فراہم کی جاتی ہے، سوائے آزادی کے قانون کے دائرے میں اس کی ہر جائز خواہش پوری کی جاتی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بقول جیل حکام کے پھانسی سے دوتین روز پہلے ہی اکثر مجرم کھانا پینا چھوڑ دیتے ہیں اور اپنے گناہ بخشوانے کو عبادات میں مگن ہوجاتے ہیں. ان کی بھوک مٹ جاتی ہے اور وہ صرف زندہ رہنے کو دن بھر میں ایک بار دوچار نوالے ہی کھا پاتے ہیں جبکہ ان کی زندگی کا آخری دن تو بہت ہی عبرت ناک ہوتاہے وہ نڈھال ہوجاتے ہیں اور بات چیت بند کردیتے ہیں یا چڑچڑے ہوجاتے اور جیل عملے سے الجھنا شروع کردیتے ہیں.
جیل حکام کے مطابق سب سے زیادہ تشویش کاباعث وہ قیدی ہوتے ہیں جو باقاعدہ پاگل ہوجاتے ہیں یا ان پر پاگل پن کے دورے پڑنے لگتے ہیں انہیں سنبھالنا خاصہ مشکل ہوتاہے مگر سپرنٹنڈنٹ کہہ رہے تھے کہ قانون کے تقاضوں کی تکمیل ہی ہمارے فرائض کا اہم ترین جز ہے جو ہمیں بعض اوقات دل پر پتھر رکھ کر بھی پورا کرنا پڑتاہے ، ایک اور حیرت انگیز انکشاف کرکے انہوں نے مجھے ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ اکا دکا ایسے قیدی بھی ہوتے ہیں جو پھانسی گھاٹ تک اچھلتے کودتے ڈانس کرتے جاتے ہیں اور خواہش کرکے اپنے ہاتھ کھلواکر پھانسی کاپھندا چوم کر اپنے گلے میں خود ڈالتے ہیں سپرنٹنڈنٹ کا کہنا تھا مگر ایسا قیدی برسوں میں کوئی ایک آدھ ہی آتاہے.
ایسے موت کے سوداگروں کا نفسیاتی تجزیہ کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ در اصل یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو کسی ظلم پر رد عمل میں قتل جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کرتے یا اپنے پیاروں کے قتل کابدلہ لینے کے لیے مجرم بن جاتے ہیں اور اس لیے وہ اپنے کیے پر نادم بھی نہیں ہوتے یا کوئی بہت بڑا بے دین یا مذاہب کاباغی بھی ایسا رد عمل دیتاہے. وہ اپنے تئین یہ تصور کرلیتاہے کہ تقدیر نے اس کے ساتھ کبھی انصاف نہیں کیا اور اس طرح ماہرین نفسیات کے مطابق اس کے ذہن میں پکتا لاوا اسے معاشرے کاباغی اور موت سے بے نیاز کردیتاہے. تبھی پھانسی کے پھندے پر ان کا انداز انسانی نفسیات کے برعکس چونکا دینے والا ہوتاہے،
اوہ۔۔میں یہ تو بتاناہی بھول گیاکہ میں پھانسی گھاٹ میں کیوں آیاہوں ، تو آئیے پہلے اس پر بات کرلیتے ہیں ، یہ 90 کی دہائی کا قصہ ہے میں ان دنوں ایک قومی روزنامہ میں "کرائم رپورٹر” تھا اور مجھے عرصہ دراز سے جنون تھا تفتیشی رپورٹنگ کا، جو میرا محبوب شعبہ تھا. اسی حوالہ سے دھرے قتل کے ایک بدنام کیس کی خبر پڑھ کر من مچلا کہ کیوں نہ کسی مجرم کے پھانسی پانے کے منظر کی رپورٹنگ اور اس کا انٹرویو کیا جائے. اس کے لئے میں نے کراچی کی ایک جیل کےدوست سپرنٹنڈنٹ سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا انہوں نے میرا مدعا سن کر قانونی تقاضوں کی تکمیل کی لمبی چوڑی تفصیل بیان کی تو میں مایوس ہوگیا. تب وہ ہنس کر بولے بھائی میں نے یہ جو جیل قواعد بتائے یہ میرے دوست کے لیے نہیں عام جام کے لیے تھے.نے آپ ایسا کریں کل رات 8 بجے آجائیں، ایک مجرم کو پھانسی لگنی ہے. اس کا انٹرویو کرلیں اور علی الصبح اس کی پھانسی کامنظر بھی دیکھ لینا ، بس پھر کیاتھا بے چینی سے دوسرے دن کی شب کا انتظار کیاجانے لگا اور دوسرے روز ٹھیک 8 بجے شب جیل کے دیو ہیکل کالے رنگ کے گیٹ کے سامنے میں موجود تھا. وہ گیٹ اتنا بڑا تھا کہ وہ پورا کھولا جائے تو بھاری بھرکم کنٹینر بھی اندر جاسکتا تھا مگر میرے لیے اس گیٹ کے ایک کونے میں بنا چھوٹاسا گیٹ کھولا گیا جس میں سے بمشکل ایک شخص ہی اندر جاسکتاتھا ، شاید جان بوجھ کر اس چھوٹے گیٹ کی اونچائی بھی کم رکھی گئی تھی. اس میں سر جھکاکر ہی داخل ہوا جاسکتا تھ.ا میں اندر داخل ہوا تو سپرنٹنڈنٹ سامنے کھڑے تھے وہ بڑی محبت سے ملے اور پھر مجھے اپنے دفتر لے گئے اور باقاعدہ بیٹھنے سے پہلے بولے یہ بتائیں کھانے میں کیا چلے گا، وہ بڑی محبت سے بولے، میں نے اس لیے پہلے نہیں منگوایا کہ آج آپ کی پسند کا کھائیں گے ، مجھے بے چینی تھی موت کے قیدی سے ملاقات کی اور میں اس سے سوالات کی لمبی فہرست بھی ذہن میں تیار کرکے آیا تھا سو میں نے معذرت کرتے ہوئے بتایاکہ میں گھر سے کھاکر نکلا ہوں بس فی الحال آپ مجھے جلدی سے قیدی سے ملوائیں تو انہوں نے کہاکہ یار جلدی کیاہے؟ پوری رات پڑی ہے…
مگر میرے اصرار پر انہوں نے اپنے ایک سپاہی سے کہاکہ جاؤ اس قیدی کی پوزیشن دیکھ کر آؤ اور اسے بتابھی دینا کہ ایک سینیر صحافی اس کا انٹرویو کرنا چاہتاہے. وہ سپاہی چند منٹ میں ہی پلٹا اور اپنے صاحب کو سلیوٹ مارکر بولا، صاحب وہ جاگ رہاہے, مگر عبادت میں مگن ہے ،” اسے بتایا تم نے آغاجی کا،”؟ سپرنٹنڈنٹ بولا ، "جی صاحب قیدی نے کوئی جواب نہیں دیا ”
اس جیل کے سب سے بڑے افسر نے چپل پہنی جو اتار کر وہ ٹانگیں پھلائے بیٹھا تھا اور میرے ساتھ چل پڑا ،جیل کے اصل حصہ میں داخل ہونے کے بھی کچھ قواعد و ضوابط ہوتے ہیں. جیل کے بڑے گیٹ کے بعد انتظامی دفاتر ہوتے ہیں اور وہاں جیل کے افسران اور ان سے متعلق عملہ بیٹھتا ہے. اس حصےکو جیل کی اصطلاح میں "ماڑی”کہاجاتاہے. اس ماڑی کے ایک حصہ میں قیدیوں سے ملنے کے لیے آنے والوں کی ملاقاتیں بھی کرائی جاتی ہیں جبکہ جیل کے اندر قیدیوں پر نظر رکھنے اور جیل کی حفاظتی چوکیوں میں تعینات عملہ اس کے علاوہ ہوتاہے. ماڑی کی حدود کے بعد ایک اور بڑا گیٹ ہوتاہے جس سے جیل کے اندرونی حصہ میں داخل ہونے والے ہر چھوٹے بڑے افسر یا سپاہی کی باقاعدہ تلاشی اور ان کے ہاتھ پرانمٹ سیاہی کی مہر لگائی جاتی ہے.
ہم اس مرحلہ سے گزر کر اندرون جیل داخل ہوئے اور ایک لمبی راہداری سے ہوتے ہوئے موت کے قیدیوں کی بیرک تک پہنچ گئے. رات زیادہ نہ گزری تھی مگر جیل میں ہو کا عالم تھا. اس بیرک کو خاص طرز پر تعمیر کیا گیا تھا. 8/8 یا 8/10 کی کھولیاں لائین سے بنی تھیں کچھ خالی تھیں مگر جن میں موت کی سزا پانے والے قیدی تھے ان میں مدھم روشنی کا چھت میں لگا بلب جل رہاتھا اور کچھ میں سے تلاوت یا ذکر کی ہلکی سی آوازیں آرہی تھیں. سپرنٹنڈنٹ آخری بیرک سے پہلے والی کے سامنے رک گیا ، جس میں ایک چھوٹے قد کا گٹھے ہوے جسم کا قیدی مصلے پر بیٹھا ذکر میں مشغول تھا. مدھم روشنی میں اس کے نقوش کچھ زیادہ نمایاں نہیں ہورہے تھے، سناٹے میں ایک سے زائد پیروں کی آواز پر وہ مڑکر ہماری طرف متوجہ ہوگیا تھا. سپرنٹنڈنٹ نے زبردستی کی دوستانہ مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ کے اشارہ سے اسے سلام کیا تو وہ سپاٹ چہرے کے ساتھ اٹھا اور موٹی موٹی سلاخوں والے لوہے کے دروازے کے دوسری طرف آ کھڑا ہوا میں نے سکوت توڑتے ہوئے اسے سلام کیا اور اپنے تعارف کے ساتھ مدعاء بیان کیا تو وہ میری بات مکمل ہونے سے قبل ہی چیخا اور مشتعل ہوکر دروازے کی سلاخوں کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر جھنجوڑتے ہوے بولا، تم میرا مذاق اڑانے آئے ہو…….؟
سناٹے میں اس کی آواز اور زیادہ گونج رہی تھی جبکہ جن بیرکس میں سے ذکر اذکار کی مدھم آوازیں آرہی تھیں وہ بھی اس کی پہلی چیخ کے ساتھ ہی دب گئی تھیں. میں نے اس سے کچھ مزید بات کرنے یا اسے منانے کی کوشش کی مگر قیدی کو بے قابو ہوتے دیکھ کر سپرنٹنڈنٹ میرا ہاتھ پکڑ کر واپس چل پڑا.نےمیں نے مڑکر اسے دیکھا تو وہ اور زیادہ چلاتے ہوئے مغلظات بکنے لگا،سپرنٹنڈنٹ مجھے متوجہ کرکے سرگوشی میں بولا، چند گھنٹوں بعد پھانسی لگنے والے سے الجھنا نہیں چاہیے ، ہم ناکام واپس آکر دفتر میں داخل ہوتے ہی کرسیوں پر ایسے ڈھیر ہوگئے جیسے ہارا ہوا جواری۔۔۔۔
سپرنٹنڈنٹ نے ماحول کی سنجیدگی کو ہوا میں اڑاتے ہوے ہلکا سا قہقہ لگایا اور بولا ،” پریشان نہ ہوں آغاجی.. یہ جیل ہے یہاں معاشرہ کے چھٹے ہوے بدمعاش اور جرائم پیشہ برسوں سے رہ رہے ہوتے ہیں. یہاں آنے کے کچھ دنوں بعد ہی ان میں جیل کاخوف ختم ہوجاتاہے مگر ایسے میں انہیں سیدھا رکھںنا ان سے جیل قواعد پر عمل کرانا اتنا آسان نہیں، اس لیے آج کی صورت حال آپ کے لیے گھمبیر سہی ہمارے لیے معمول کاحصہ ہے” پھر وہ میرا کندھا تھپ تھپاکر بولا ..آپ کا آج کا جیل کا دورہ ناکام نہیں ہوگا.میں ابھی اس کی فائل منگواکر آپ کو اس کے جرم کی تفصیل بتادیتا ہوں، اس کے بعد ہم گھر چل کر (جو جیل کے احاطہ میں ہی تھا)کھانا کھائیں گے اور ایک فلم دیکھیں گے، اتنے میں پھانسی کا وقت ہوجائے گا، پھر آکر آپ اپنی آنکھوں سے وہ منظر بھی دیکھ لینا. یوں آپ کی خواہش کے مطابق آپ کی اسٹوری بن جائے گی…
یہ سن کر میں بھی خوش ہوگیا تو اس نے مجرم کی فائل منگوائی اور اس میں سےمیری اسٹوری کے نکتہ نظر سے کچھ ضروری نکات لکھوانے لگا. مجرم کا نام "انور چوہان” تھا اور وہ پنجاب کے ایک چھوٹے شہر (مظفر گڑھ) کا بدنام وکیل تھا. وہ اپنے شہر کے وکیلوں کالیڈر بھی تھا اور جب بھی ضلعی بار کونسل کاانتخاب لڑتا جیت جاتا کیونکہ اپنی غنڈہ گردی اور بلیک میلنگ کی وجہ سے مقامی وکلا میں وہ خاصہ مقبول تھا. اس کافائدہ اٹھاکر وہ اکثر اپنے موئکلوں سے دھوکہ دہی بھی کرگزرتا اور مخالف گروپ سے پیسے لے کر کیس ہارجاتا اور اس کے فراڈ پر احتجاج کرنے والوں کی وہ پھینٹی بھی لگادیتا. وہ مقامی وکیلوں کے ایک طاقت ور گروپ کاسرغنہ تھا اور کوئی شریف آدمی یا قانون پسند وکیل بھی اس کی غنڈہ گردی کے سامنے کھڑے ہونے کی جرات نہ کرتا تھا جس پر وہ روز بروز بے لگام ہوتا جارہاتھا.
ایسے میں قریبی شہر کے 4 بھائیوں نے اپنی زمیں کا کیس اسے دیا، ان کی زمیں پر ان کے 6 چچیرے بھائیوں نےقبضہ کرلیا تھا وہ مال دار اور اور طاقت ور تھے اس لیے ان 4 بھائیوں نے اپنا کیس ڈٹ کے لڑنے کا چوہان کو معقول معاوضہ بھی دیا مگر شراب اور جوئے کی لت میں وہ سب چند روز میں اڑاگیا پھر دوسری پارٹی سے پیسے لے کر کیس جان بوجھ کر ہاربھی گیا. ان 4 بھائیوں نے اپنا کل اثاثہ چھن جانے پر ہائی کورٹ بار میں کچھ ثبوتوں کے ساتھ چوہان کی شکایت کردی کیونکہ مقامی سطح پر چوہان ایڈوکیٹ کے اثرو رسوخ کی بنا پر انصاف ملنے کی امید نہ تھی اور پھر ان کا بڑا بھائی اپنی شکایت پر کارروائی کے لیے روزانہ ہائی کورٹ بار پہنچ جاتا جس پر چوہان خاصا خوف زدہ اور مشتعل تھا کیونکہ اسے نظر آرہاتھا کہ اگر اس نے فریادی کو نہ روکا تو ہائی کورٹ بار اس کی ضلع بار کی ممبر شپ منسوخ کردے گا اور یوں وہ رسوا ہونے کے ساتھ بے دست و پا بھی ہوجائے گا.
سو اس نے مدعی کو ڈرانے دھمکانے میں ناکامی کے بعد اپنے تجربے سے قانونی موشگافیوں کافائدہ اٹھاکر مدعی پارٹی کو عبرت کا نشاں بنانے کا فیصلہ کرلیا اور لاہور کے ایک اسپتال میں دل کی تکلیف کا بہانہ کرکے کچھ رشوت کے عوض داخل ہوگیا اور اپنی جگہ کسی اپنے ساتھی کو لٹاکر مخبر کی اطلاع پر پستول کے ساتھ مدعی کے ٹھکانے پر پہنچ گیا. وہ اس وقت نشہ میں بدمست ہورہاتھا اس لیے آؤ دیکھا نہ تاؤ، مدعی کو دیکھتے ہی اس پر 3 فائر کیے ..وہ زخمی ہوکر گرگیا، گولیوں کی آواز پر مضروب کے دو بھائی جو قریب ہی تھے موقع پر پہنچ گئے، اس سے قبل کہ قاتل فرار ہوتا، انہوں نے چوہان کو دبوچ لیا. اس نے چھڑانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام ہوکر ان کے سروں پر بھی فائر دے مارے جس سے بعد میں آنے والے دونوں بھائی موقع پر ہلاک ہوگئے جبکہ پہلے والے نے 3 گولیوں کے باوجود دو روز بعد اسپتال میں دم توڑا.
چوہان تین بھائیوں کو قتل کرکے فرار ہوکر اسپتال جارہا تھا کہ نشے کی زیادتی اور قدرت کی پکڑ سے راستے میں ایکسیڈنٹ ہوگیا، اسے راہ گیروں نے بے ہوشی کی حالت میں مقامی اسپتال پہنچایا جہاں اس کے ہاتھوں موقع پر قتل ہونے والے دو بھائیوں کی لاشیں پڑی تھیں اور ان کے عزیزو اقارب کی بڑی تعداد بھی اسپتال میں موجود تھی جنہوں نے چوہان کو پہچان کر پولیس کو اطلاع دی جس نے اسپتال پہنچ کر اسے بے ہوشی میں ہی گرفتار کرلیا. یوں اس کا لاہور کے اسپتال میں داخلے والا منصوبہ دھرا رہ گیا. بعد میں اس نے پولیس کو دیے گئے بیان میں کہاکہ وہ ایک بھائی کو قتل کرنا چاہتا تھا لیکن دوسرے دو نے اسے دبوچ لیا تو مجبورا” انہیں بھی قتل کرنا پڑا ،انہی تینوں بھائیوں کے قتل پر اسے سزائے موت سنائی گئی تھی جس پر آج عمل درآمد ہونا تھا،
یہ سب تو ٹھیک ہے مگر پنجاب کے مجرم کی سزائے موت کے فیصلہ پر کراچی میں پھانسی کیوں؟
وہ بولے یہ معمول کاحصہ ہے اگر کسی مجرم کے فرار یا اس پر مخالف فریق کے حملے کاخطرہ ہوتوایسے قیدیوں کے بین الصوبائی تبادلے کیے جاتے ہیں، سپرنٹنڈنٹ کے گھر پر وقت گزار کر ہم دوبارہ پونے 4 بجے جیل پہنچ گئے جہاں مجرم کو پھانسی کی آخری تیاریاں جاری تھیں. سزائے موت کے قیدیوں کی بیرک سے پھانسی گھاٹ تک ہر 20 فٹ کے فاصلہ پر لالٹینیں جلاکر رکھی گئی تھیں جس کے متعلق جیل حکام کا کہنا تھا کہ انگریز دور سے یہ رسم چلی آرہی تھی جس کا مطلب مرنے والے کو پروٹو کول دینا تھا.اسی طرح ہر 100 قدم کے بعد ایک مسلح سپاہی کھڑا تھا، ہم بھی سپرنٹنڈنٹ کے ساتھ پھانسی گھاٹ کے سامنے کھڑے ہوگئے. دو پرانے قیدی مجرم کو سہارا دیے آرہے تھے جبکہ مجرم کے ایک ہاتھ میں ہتھکڑی تھی جس کا دوسرا سرا ایک سپاہی نے اپنے بیلٹ کے ساتھ جڑا ہوا تھا.
چوہان جونہی ہمارے قریب آیا اور لالٹین کی مدھم روشنی میں اس کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ چونک کر کھڑا ہوگیا اس کا مجہول جسم اچانک تن گیاتھا. مجھے لگا وہ کسی بھی لمحے مجھ پر حملہ کردے گا. اس نے میری جانب انگلی کا اشارہ کرکے کہا، تم وہی ہونا جو میرا انٹرویو کرنے آئے تھے، میری زباں خشک ہوچکی تھی، میں نےاثبات میں سر ہلایا تو وہ بولا، ہاں تو اب پوچھو کیا پوچھنا چاہتے ہو، اس کے لہجہ میں اب نفرت یاغصہ نہیں تھا جس سے مجھے حوصلہ ملا.میں نے کہا، آپ آج کیسا محسوس کرہے ہیں، وہ بلا توقف بولا، جنتی،میں پکا جنتی ہوں اور آج سیدھا جنت میں جائوں گا،
اس کے الفاظ اعتماد سے لبریز تھے، "مجھے یقین ہے میں بخشا جاؤں گا ، پھر وہ بات آگے بڑھاتے ہوے بولا، اللہ نے مجھے معافی کا بہت وقت دیا اور میں ن..نےاس کا بھرپور فائدہ اٹھایا، اپنے کیے پر نادم ہو، بہت زیادہ.نے مجھے نشے اور خراب صحبت نے تباہ کیا ، پھر وہ مجھے نصیحت کرتے ہوئے بولا،اس سے بچو، ”
دوبارہ زندگی ملی تو کیسے گزارو گے”، میں نے پوچھا… وہ غصہ سے بولا "مسلمان ہوں، ہندو نہیں.. ہمارا یہاں ایک ہی جنم ہے دوسرا اگلے جہاں،سپرنٹنڈنٹ کے اشارہ پر اس کے گارڈ اسے لے کر آگے بڑھ گئے. ہم بھی تختہ دار کے دوسری جانب آن کھڑے ہوئے جہاں جلاد اپنا کام مکمل کرکے قاضی کے اشارے کا منتظر تھا اور قاضی بار بار گھڑی دیکھ رہاتھا. پھر اس نے جلاد کو آنکھ کا اشارہ کیا تو اس نے ایک قدم یچھے ہٹ کر تختہ کالیور تھام لیا. قاضی نے پیچھے کھڑے جیلر کی طرف دیکھا اس نے تختہ دار کی پشت پر لگےٹیلی فون پر مین گیٹ پر کال کی اور پوچھا کہ عدالت سے کوئی اور ہنگامی حکم یا مدعی تو نہیں آئے؟
جواب نفی میں پاکر اس نے قاضی سے کہا، نہیں سر، یوں اس کی زندگی کی آخری امید بھی دم توڑگئی، اور پھر قاضی نے جلاد کی طرف دیکھ کر شہادت کی انگلی بلند کی جس کے ساتھ ہی تختہ گرنے اور مجرم کے پھانسی کے پھندے پر جھول جانے کی زور دار آواز آئی مجرم کا جسم تختہ کے اندر گم ہوگیا اور ہم سب لوگ صرف ہلتی رسی سے اس کی تکلیف محسوس کرہے تھے ، رسی کئی منٹ تک اچھلتی اور زندگی کی بھیک مانگتی رہی پھر آہستہ آہستہ ساکت ہوگئی. ایک انسان کاجسم پھندے پر جھول رہاتھا اور روح پرواز کرچکی تھی (اناللہ واناالیہ راجعون)
شہادت کی انگلی کے اشارے کے ٹھیک 25 منٹ بعد ڈاکٹر قاضی کی اجازت سے آگے بڑھا اور تختہ دار کا چھوٹا سا دروازہ کھول کر اندر چلاگیا اور لاش کو اچھی طرح چیک کرکے موت کی تصدیق کردی ہم میں سے کسی کو بھی مجرم سے ہمدردی نہ تھی مگر پھر بھی ایک انسانی موت پر ہم سب اداس اور دکھی تھے. تبھی ہمارے قدم بوجھل ہورہے تھے ،جیل سے باہر نکلے تو رات کی تاریکی کو چیر کر سفیدی اپنی چادر تان چکی تھی مگر جیل کے باہر بہت بڑے میدان کے ایک کونے میں ایک ٹیڑھے میڑھے پتھر پر کوئی بوڑھی عورت تنہا بیٹھی تھی سپرنٹنڈنٹ نے میرا ہاتھ پکڑا اور دور بیٹھی اس عورت کی طرف چل دیا اس کے قریب پہنچ کر وہ بولا،
"اماں پھانسی پانے والا تمھارا کون تھا ؟ پھانسی ہوگئی، اس کی لرزتی آواز رندھ گئی اور رخساروں پر سے آنسو بہہ نکلے.. اس بڑھیا نے بھی سفید چادر اوڑھی ہوئی تھی اور اس کے برابر ایک چھوٹی سی گٹھڑی پڑی تھی سپرنٹنڈنٹ کے دوبارہ سوال پر وہ کانپتی آواز میں بولی ،”ماں ہوں ۔۔۔او میرا پتر سی،” اورپھر اس کی ہچکی بندھ گئی.شاید ممتا کے جذبے تلے وہ یہ سوچ رہی ہو گی کہ پھانسی ٹل سکتی ہے ، ہم پہلے ہی اداس تھے ماں جی نے تو ہمیں بھی رلادیا ،سپرنٹنڈنٹ نے ماں جی کے سنبھل جانے پر کہا.. آپ اکیلی ہیں یاکوئی اور بھی ہے آپ کے ساتھ…
"ناں پتر کلی آں.پھر وہ سپرنٹنڈنٹ کو مخاطب کرکے بے بسی سے بولی، ماں واں پتر میں اودی ، دکھ سکھ وچ ماواں ای آندیاں نیں” ،سپرنٹنڈنٹ نے ماں جی کو مخاطب کرکے کہا ،لاش تھوڑی دیر میں کاغذی کارروائی مکمل کرکے آپ کے حوالے کردی جائے گی، پھر اس نے پوچھا ،اماں آپ لاش کہاں اور کیسے لے کر جاؤگی ،مظفر گڑھ پتر، آگے وہ خاموش ہوگئی… سپرنٹنڈنٹ سمجھ گیا اس نے اپنے عملے سے کہا ایدھی کی ایمبولینس بلائو. مظفر گڑھ کے لیے اسے ادائیگی کرکے اماں کو رخصت کرنا.. پھر اس نےمیری طرف اشارہ کرکے ماں جی سے کہا یہ کراچی کے صحافی ہیں آپ کے بیٹے کی کہانی چھاپیں گے، ان کو پتہ لکھوادو، لوگ آپ کی مدد کریں گے،
وہ تڑپ کر دونوں ہاتھ جوڑ کر بولی ناں پتر پہلے ہی بڑی بدنامی ہوئی اے بس ہور ناں کریں ،اور پھرسر نیچے کرکے ہم سے اپنے آنسو چھپانے لگی.. اس کے الفاظ کسی بم سے کم نہ تھے، میں بہت دل گرفتہ گھر پہنچا. ماں جی کی التجاء میرا پیچھا کررہی تھی، میں نے سارے نوٹس اپنی دراز میں ڈالے اور اس عہد کے ساتھ سوگیا کہ یہ اسٹوری کبھی نہیں چھپے گی، ماں جی کے دکھ میں مزید اضافہ نہیں کرون گا آج 25 سال بعد کتاب چھاپنے کی تیاری ہورہی تھی تو دوستوں نے اصرار کیاکہ مقام اور کرداروں کے نام بدل کر تو لکھ سکتے ہو، بہت سوں کو عبرت ہوگی-
When a lawyer became a criminal...پھانسی گھاٹ......جب ایک قانون داں مجرم بنا