top header add
kohsar adart

پاکستان کا نظام تعلیم ،سکولوں کی نجکاری، معاملہ کیا ہے؟

تحریر۔۔ شفاقت اعجاز عباسی

پاکستان میں مختلف النوع تعلیمی نظاموں کی وجہ سے طبقاتی تقسیم کا عمل بہت تیزی سے جاری ہے۔ سرکاری تعلیمی ادارے، عام پرائیویٹ ادارے، اعلیٰ درجے کے پرائیویٹ ادارے اور مدارس۔۔۔۔ ان سب اداروں کے نصاب ہی مختلف نہیں یہاں ذہن سازی اور کردار کی تشکیل بھی ایک دوسرے سے یکسر مختلف انداز فکر کے تحت ہوتی ہے۔ نتیجتا” عملی زندگی میں ملازمتیں اور کاروبار میں تعلیمی پس منظر اہم کردار ادا کرتا ہے اور یہ طبقاتی خلیج روز بہ روز بڑھتی جارہی ہے۔

حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائے کہ پورے ملک میں یکساں نصاب تعلیم ہو۔ نیز تعلیمی نظام، سہولیات اور ماحول میں بھی کوئی تفاوت نہ ہو۔ تاکہ نوجوانوں کو ان کی صلاحیتوں اور رجحانات کے مطابق یکساں مواقع ملیں اور منصفانہ مسابقت بھی یقینی ہو۔ حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ تعلیم کو ترجیح بنائے اور تعلیم کے لیے مختص بجٹ میں سو فی صد اضافہ کرے۔ اگر ہمیشہ کے لیے ممکن نہ ہو تو کم سے کم دس سال کے لیے تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ کر کے بجٹ کا 25فیصد تعلیم پر لگایا جائے۔

پاکستان بدقسمتی سے دنیا کے ان چند ممالک میں شمار ہوتا ہے جو تعلیم پر بجٹ کا بہت کم حصہ خرچ کرتے ہیں، جو کہ دو سے تین فیصد ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اس میں سے بھی آدھے سے زیادہ بجٹ کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ اگر قارئین کو 25 فیصد کی شرح زیادہ محسوس ہو تو وہ ملائشیا کی تعلیمی ایمرجنسی کا مطالعہ کرلیں۔

دنیا میں جتنے بھی ترقیاتی یافتہ ممالک ہیں ان کی ترقی میں بنیادی کردار تعلیم کا ہے۔ وہاں تھنک ٹینک ہیں جو قومی ضروریات کا جائزہ لے کر نظام تعلیم اور تعلیمی پالیسیوں میں مطلوبہ اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے تبدیلی کی سفارشات پیش کرتے ہیں اور قومی ضرورتوں کے مطابق پیشہ ورانہ مہارت کے حامل نوجوان تعلیم سے فراغت کے بعد ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

جہاں تک سرکاری سکولوں کا معیار بہتر بنانے کا تعلق ہے، قومی اسمبلی کے ذریعے قانون سازی ہو جائے کہ ہر ایم پی اے، ایم این اے، وفاقی اور صوبائی وزراء، سینیٹر، جج، جرنیل اور گریڈ 16 سے 22 تک کے افسران اپنے بچوں کو صرف سرکاری سکولوں میں ہی تعلیم دلوا سکتے ہیں۔ اگر یہ قانون سازی ہو جائے تو سرکاری سکول ہفتوں میں نہیں دنوں میں ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ لیکن جب تک یہ انقلابی قدم نہیں اٹھایا جاتا موجود صورت حال کو ویسے بھی بہتر کیا جاسکتا ہے۔ مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ جدید تعلیم کا اہتمام ہو اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ شاید ہم نے کبھی اس امر کو سنجیدگی سے نہیں لیا کہ دینی مدارس اور نجی سکولوں نے حکومت کا آدھا تعلیمی بوجھ اٹھایا ہوا ہے۔
قارئین کے لیے شاید یہ انکشاف ہو کہ مدارس، سرکاری تعلیمی اداروں اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بھرمار کے باوجود تین کروڑ بچے ابھی بھی سکولوں سے باہر ہیں۔

پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی فیسوں کو مناسب حد میں رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اگر حکومت اپنی یہ ذمہ داری پوری کرے تو عام آدمی بھی اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دلوا سکتا ہے۔

پنجاب میں کچھ گورنمنٹ سکولز کی نجکاری یا پرائیویٹ این جی اوز کو دینے کے معاملے میں سکول انتظامیہ، اساتذہ، والدین اور بچے سخت پریشانی میں مبتلا ہیں۔ کچھ سکولوں میں ہڑتالیں بھی جاری ہیں۔ نگران حکومت کو ایسا کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے سب سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔ اگر سب متعلقہ لوگوں کی مشاورت سے یہ کام کیا جاتا تو حکومت کو موجودہ صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔

پینشن کے معاملے پر لاہور میں احتجاج کرنے والے پرامن اساتذہ کرام پر تشدد قابل مذمت ہے۔ تشدد کرنے والے پولیس اہلکار اور تشدد کا حکم دینے والے افسران نے بھی آخر کسی استاد سے ہی تعلیم حاصل کی ہو گی جس کی بنیاد پر وہ ملازمت کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔

ذیل میں پیش کیے گئے واقعہ سے ترقی یافتہ معاشروں میں استاد کے احترام اور مقام کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

پاکستان کے دانشور اور استاد اشفاق احمد صاحب ٹریفک چالان کے سلسلے میں سویڈن کی عدالت میں پیش ہوئے۔ جج نے پوچھا، "آپ کیا کرتے ہیں؟” انہوں نے کہا کہ وہ ایک استاد ہیں۔ یہ سنتے ہی جج سمیت عدالت میں موجود ہر شخص استاد کے احترام میں با ادب کھڑا ہو گیا۔۔۔

Pakistan's education system, privatization of schools, what is the matter?,پاکستان کا نظام تعلیم ،سکولوں کی نجکاری، معاملہ کیا ہے؟
جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More