"پارانے ری ریل مانھ جاجھر واجے” قدیم لوک گیت
تحریر: بھارومل امرانی

پارانے ری ریل مانھ جاجھر واجے
پاری نگر کے قدیم شہر کا لوک گیت
بھارومل امرانی
پاری نگر کے قدیم شہر کو تھر کے باشندے پیار سے ‘پارانو’ بھی کہتے ہیں ۔ تھر کے حصے ‘کھاہور’ کے تعلقے ‘ڈاہلی’ کے ایک قدیم گاؤں کا نام پارانو بھی ہے مگر لوک گیتوں میں گایا ہوا پارانو پاری نگر کا قدیم شہر ہے رس نرتیہ کے اس لوک گیت کے بول پارکری ہیں۔ اس لوک گیت کو گاتے ہوئے ڈھول پر گربی ناچ کیا جاتا ہے۔
رس نرتیہ کا یہ لوک گیت ’پارانے ری ریل مانھ جانجھر واجےٍ‘ سنتے ہی ماضی کے دریچوں میں سے ایک دھندلی تاریخ کا منظر سامنے آ جاتا ہے۔ تصوراتی سفر طے کر کے اجڑے ہوئے دیار پاری نگر کے گلی کوچوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ پاری ننگر سندھ کی ایک شان دار اور قدیم بندر گاہ رہا ہے، جس کی بنیاد پہلی صدی عیسوی میں رکھی گئی تھی۔ اس بندرگاہ کی اولین آبادی چالیس ہزار کے قریب تھی۔ جن میں سے پانچ ہزار گھر جین دھرم والوں کے، نو سو گھر لوہاروں کے، سات سو گھر راج پوتوں کے اور پچیس سو گھر دوسرے قبیلوں کے تھے، لیکن اب بندرگاہ کے صرف آثار اور لوک کہانیاں ہیں جو ہمیں سننے کو ملتی ہیں۔
پاری نگر کے ان کھنڈرات کے قریب ہی ویرا واہ نامی بستی کی چند پختہ دکانیں، چائے خانے اور کچھ جھونپڑیاں آنے والوں کا استقبال کرتی ہیں۔ ویرا واہ سے آگے ننگر پارکر کی طرف جاتے ہی منظر تبدیل ہو جاتا ہے۔ ریت کے ٹیلے کہیں دور رہ جاتے ہیں۔ راستے کے دونوں اطراف میں یکایک پہاڑیاں نمودار ہونے لگتی ہیں۔
ننگرپارکر کے بعد ‘رن کچھ’ کا بیابان آ جاتا ہے۔ پاری نگر کے عروج کے زمانے میں موجودہ ‘کچِھِ کا رِن’ سمندر تھا اور اس سمندر کی شان دار بندر گاہ، پاری ننگر تھا۔ سمندر کے جہاز اس بندرگاہ پر لنگر ڈالتے تھے۔
پاری ننگر کا ذکر کرتے ہوئے کچھ مؤرخ لکھتے ہیں کہ وہاں پر جین دھرم والوں کا راج تھا، مگر ایسا نہیں ہے ، وہاں پر جین دھرم والوں کا اثر و رسوخ تو تھا لیکن وہاں پر حکومت پرماروں کے ہاتھ میں تھی۔ وہاں کے اوسواڑ امیر تو تھے مگر راج پوتوں کے تابع بھی تھے ۔اوسواڑوں نے جین دھرم کے چھے بڑے سنگِ مرمر کے مندر تعمیر کروائے تھے جو اتنے عرصے اور زمانے کی بے رحمی کے بعد بھی ایک شان دار ماضی کی آثار رکھے ہوئے موجود ہیں۔ ان پر جو تحریریں ہیں ان سے پتہ لگتا ہے کہ یہ گیارہویں صدی کے بیچ میں بنائے گئے ہیں۔ جن کاری گروں نے ان پتھروں کو تراشا ان کا کام بہت نفیس اور اعلیٰ ہے، جس کی مثال پیش کرنا انتہائی مشکل ہے۔ 1226 کو دہلی کے شہنشاہ کا لشکر پاری ننگر آیا اور اس نے ایک عظیم بندرگاہ اور شہر کو تباہ و برباد کردیا۔
اج ک مونے ڈھولوا رموا مہلو پردیسڑا،
پارانے ری ریل مانھ جاجھر واجے
مانرے پاگے پرمان کڑوا ہڑوا پڑیا،
مانرے کابیا تو لیجو واجو پردیسڑا،
پارانے ری ریل مانھ جاجھر واجے
مانرے ہاتھے پرمان چوڑلا ہڑوا پڑیا،
مانری بنگڑیاں تو لیجو واجو پردیسڑا،
پارانے ری ریل مانھ جاجھر واجے
مانرے کڑئے پرمان گھاگھرو ہڑوو پڑیو،
مانری چنڑی تو لیجو واجو پردیسڑا،
پارانے ری ریل مانھ جاجھر واجے
مانرے ناکے پرمان نتھڑی ہڑوے پڑی،
مانری ٹیلڑی تو لیجو واجو پردیسڑا،
پارانے ری ریل مانھ جاجھر واجے
مانرے کانے پرمان جھومر ہڑوا پڑیا،
مانرے چوٹلے تو لیجو واجو پردیسڑا،
پارانے ری ریل مانھ جاجھر واجے
ترجمہ:
آج تو مجھے ڈھول پہ ناچنے بھیجو رے پردیسیا،
پارانے کے میدان میں پائل باجے رے ۔۔۔۔۔
میرے پاؤں میں پہنے ہوئے کڑلے ڈھیلے پڑ گئے ہیں،
میرے کڑلوں کے باجے کو سن لینا رے پردیسیا،
پارانے کے میدان میں پائل باجے رے۔۔۔۔۔
میرے ہاتھوں میں پہنے ہوئے چوڑلے ڈھیلے پڑ گئے ہیں،
میری چوڑیوں کے باجے کو سن لینا رے پردیسیا،
پارانے کے میدان میں پائل باجے رے۔۔۔۔
میری کمر میں پہنا ہوا گھاگھرا ڈھیلا پڑ گیا ہے،
میری چنری کے باجے کو سن لینا رے پردیسیا،
پارانے کے میدان میں پائل باجے رے۔۔۔۔۔
میرے ناک میں پہنی ہوئی نتھڑی ڈھیلی پڑ گئی ہے،
میری ٹیلڑی کے باجے کو سن لینا رے پردیسیا،
پارانے کے میدان میں پائل باجے رے۔۔۔۔۔
میرے کانوں میں پہنے ہوئے جھومر ڈھیلے پڑ گئے ہیں،
میرے چوٹلے کے باجے کو سن لینا رے پردیسیا،
پارانے کے میدان میں پائل باجے رے۔۔۔۔۔۔