kohsar adart

وہ آنکھ…..

ام عزوہ کا چونکا دینے والا افسانہ

وہ آنکھ۔۔۔دروازے سے چپکی اس آنکھ کی وحشت۔۔بدن کے ہر حصے میں چبھتی ہوئی۔۔اچانک وہ آنکھ پھیلنے لگی۔۔۔بہت بڑی۔۔۔اتنی بڑی کہ کمرے کی ہر چیز پر حاوی ہونے لگی۔۔اس نے دیکھا تھا وہ پاگلوں کی طرح خود پر لباس در لباس کا پردہ کیے جاتی ہے۔۔مگر وہ غلیظ آنکھ۔۔۔جیسے اس کے جسم پر پیوست ہو گئی تھی حالانکہ ہر طرف گھپ اندھیرا تھا لیکن وہ آنکھ چمک رہی تھی اپنی شیطانیت سمیت۔۔۔وہ ہاتھ پیر مارنے لگی،لمحہ بہ لمحہ اس آنکھ کے بوجھ سے شل ہوتے وجود کو اس کیفیت سے نکالنے کے لیے اس نے بھرپور چیخنے کی کوشش کی تھی۔۔ شکر ہے کہ اب کی بار کامیابی ہوئی تھی اور پوری طاقت سے چیخنے کے باوجود ننھی سی چیخ برآمد ہوئی تھی۔اس کا یہ فایدہ ہوا تھا کہ اس آنکھ کی دہشت ختم ہو گئی تھی۔اور کمرے میں رکھی ہر چیز اپنی اصل حالت میں آگئی تھی۔۔۔

یا اللہ۔۔۔۔وہ پسینے پسینے تھی۔وہ سو تو رہی تھی لیکن یہ اتفاقاً کوئی ڈرانا خواب نہیں تھا۔ وہ ڈراؤنا لمحہ تھا جو اس کے لاشعور میں پیوست ہو گیا تھا۔ وہ آنکھ بند بھی کرتی تو اس خبیث آنکھ کی ذد میں اپنا پورا جسم محسوس کرتی۔واقعہ ہی کچھ ایسا تھا ۔۔۔ایک بچہ جو اس کے سامنے بڑا ہوا تھا جو ٹین ایج میں تھا جسے وہ اپنے بچوں جیسا سمجھتی تھی ۔اس بچے کی نگاہوں کو اچانک اپنے لیے گندا محسوس کرنا کسی کرب سے کم نہ تھا۔۔۔اپنے ہی گھر میں عجیب دہشت میں مبتلا تھی وہ۔۔

مگر وہ گھر اپنا کہاں تھا ۔جسے آج تک اپنا گھر سمجھتی آئی تھی، آج وہیں وہ غیر محفوظ تھی۔ دروازے پر ہلکی ہوا کی دستک اسے تھرا دیتی۔۔طبیعت کچھ بوجھل تھی بار بار آنکھ بند ہونے لگتی مگر لاشعور سے چپکا یہ خیال کہ وہ اکیلی ہے ،اسے سونے نہیں دیتا۔ نیند کے ہاتھوں تنگ آ کر اس نے گیلری کا دروازہ بند کر کے سونے کی ٹھانی۔گیلری کا دروازہ سیڑھیوں کے اوپر تھا اسے بند کرنے سے نیچے رہنے والوں کی آمد و رفت کو ختم کیا جا سکتا تھا لیکن دروازہ اتنا چھوٹا تھا کہ پانچ فٹ چار انچ کا بندہ اوپر سے ہاتھ ڈال کر کنڈی کھولنے کی کوشش کرتا تو آرام سے کھول لیتا۔

 

صرف کمرے کا دروازہ بند کر کے سونے کی کوشش میں دو الجھن تھی۔۔کہیں وہ ٹیبلٹ کے زیر اثر گہری نیند میں چلی جائے اور شوہر نامدار آ کر دروازہ نہ کھٹکھٹاتے رہ جائیں۔۔ اور کھڑکی بھی شیشے کی تھی اندر آنے والے کے لیے کوئی اتنی گہری رکاوٹ نہیں تھی۔۔ان تمام الجھنوں کو سوچتے ہوئے وہ گیلری کے دروازے تک جوں ہی پہنچی۔۔ دیکھا وہ دبے قدموں نچلی سیڑھیوں سے جلدی جلدی نیچے اتر رہا تھا اس کی سانس رکنے لگی۔۔”کیا یہ اوپر آنے کی کوشش میں تھا۔۔ میرے قدموں کی آواز سے مڑ گیا؟”خوف کا ناگ پھن پھیلائے اس کے پورے وجود کو جکڑنے لگا۔۔بظاہر بہادر بنتے ہوئے اس نے کھٹاک کی آواز کے ساتھ جارحانہ انداز میں دروازے کی کنڈی چڑھائی اور بیڈ پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھ گئی۔۔۔۔دہشت اپنی پوری خوفناک شکل سمیت اس کے جسم کو لرزا رہی تھی۔۔۔

"یا اللہ ..!کیا ہو گیا ہے مجھے” اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا. مگر یہ ڈر وہم کی کوکھ سے نہیں نکلا تھا اس ڈر کی ٹھوس اور کراہیت آمیز وجہ تھی۔وہ اس گھر میں کئی عرصے سے کرائے دار تھے۔ مالک مکان کے دو بچے تھے دونوں بہت چھوٹے تھے ۔جب وہ اس گھر میں آئی ۔۔ایک اچھے برادرانہ تعلقات تھے۔۔مالک مکان خاتون بڑی بہنوں کی طرح اس کا خیال کرتیں۔۔اس گھر میں اس کے کئی سنہری سال گزرے تھے لیکن اب کوچ کرنے کا وقت آ پہنچا تھا۔۔چھوٹے والے تیرہ سالہ بیٹے کو جب سے موبائل تحفے میں ملا تھا اس کے تجسس کی بھڑکتی آگ نے جانے اسے کس بے تابی میں مبتلا کر ڈالا تھا کہ جس کو بچپن سے خالہ کہا اب اسی کی کھوج میں رہنے لگا تھا۔۔ایک دن جب وہ بازار سے واپس گھر لوٹی تو اس نے دیکھا،اس کے کمرے کے دروازے میں(جو لوہے کا تھا)ایک نکتے جیسے سوراخ کو کسی چیز سے بڑا کیا گیا ہے۔ اس ننھے ہول کو دیکھ کر دل میں بھی ہول اٹھنے لگے۔۔۔کچھ تھا عجیب ۔۔۔غیر معمولی جو اسے پریشان کرنے لگا۔۔۔

اس کا بیڈ چونکہ دروازے کے سامنے تھا جب وہ لیٹتی تو بے پردگی کا احتمال رہتا تھا اس لیے وہ دروازہ بند کر دیا کرتی تھی۔۔۔وسوسوں کو جھٹکتی۔۔ سوراخ کو فی الحال اندر سے اس نے کالی ٹیپ سے اچھی طرح رفو کر دیا۔۔دوسری صبح اس وقت حیران ہوئی جب دیکھا باہر سے کسی چیز کے ذریعے ٹیپ ہٹا دی گئی ہے۔۔۔انتہا یہ کہ وہ جیسے باتھ روم میں بیٹھی اسے ادھر بھی دروازے میں کچھ نئے چھید نظر آئے۔۔ابھی سمجھنے کی کوشش میں تھی کہ چھید سے آتی روشنی پر یوں لگا جیسے پردہ پڑ گیا ہو،کالا پردہ جو ٹھہر گیا تھا۔۔وہ ہڑبڑا کر اٹھ گئی پردہ بھی فوری ہٹ گیا۔۔۔دل نے کہا یہ آنکھ ہے۔۔کوئی خبیث آنکھ۔۔۔اس سے زیادہ خوفناک اور توہین آمیز کوئی بات نہیں تھی۔۔وہ غصے سے کانپنے لگی۔ اب چور کو پکڑنا ضروری تھا۔ دل سوکھے پتے کی طرح کانپ رہا تھا وہ ہمت کر کے کمرے میں آئی اور اس سوراخ کو بغیر کور کیے دروازہ بند کر کے بیڈ پر لیٹ گئی منہ پر باریک دوپٹہ ڈال لیا۔۔۔

 

توقع کے عین مطابق پندرہ بیس منٹ کے بعد ہی سوراخ سے باہر کی روشنی غائب ہو گئی اور ایک انکھ سوراخ پر ثبت ہو گئی۔۔۔کمرے کے گھپ اندھیرے میں وہ غلیظ آنکھ کسی بھوکے درندے کی طرح چمک رہی تھی۔ اس کا صبر جواب دے گیا وہ بیٹھے ہوئے زور سے چلائی۔۔”کون حرامی ہے۔۔”آنکھ ہٹی تھی۔۔وہ دروازہ کھولنے کو لپکی۔۔۔کوئی تیزی سے سیڑھیاں اترنے لگا تھا ،اس نے اوپر سے جھانکا،جھلک دیکھ لی۔۔۔ایک لمحے کو دماغ نے ڈرایا۔۔مت جاؤ پیچھے۔۔کہیں وہ اکیلا ہو۔۔تمہیں دبوچ لے کیا کرو گی۔۔لیکن توہیں کا احساس اور اس آنکھ کا اپنے جسم پہ پیوست ہونے کا احساس ایسا شرمناک اور توہین آمیز تھا کہ بے اختیار چھوٹے سے چاکو کو اس نے چھپالیا اور بھاگی نیچے۔۔۔کدھر ہے نکل ۔۔۔۔۔۔۔وہ اسٹور میں چھپ گیا تھا وہ خود انجام سے بے پرواہ ہوئی اسے للکار رہی تھی۔۔۔اسٹور کا دروازہ نہیں تھا۔۔۔گریبان سے پکڑا۔۔۔۔جو جسم کسی نے نہیں دیکھا اسے ان آنکھوں نے دیکھ لیا۔۔۔۔کیسے کیسے۔۔۔ایک ہیجان۔۔۔ایک کرب۔۔۔اس کے بے ربط جملے وہ اس دھان پان سی لڑکی کا غصہ دیکھ کر صفائیاں دینے لگا تھا۔۔۔واویلا بہانے۔۔۔بہتان کا شور۔۔۔چاکو والا ہاتھ اٹھا تھا آنکھ میں پیوست ہوگیا تھا۔۔۔۔وہ تکلیف سے دہرا ہوکر پیچھے کی جانب الٹ گیا تھا اور بے شرم آنکھ کے فنا ہو جانے کا اطمینان لیے وہ چپ چاپ گھر سے نکل گئی تھی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More