وقت کا الٹا پہیہ … اہل کوہسار کے لیے لمحہ فکریہ
تحریر : ڈاکٹر شکیل کاسیروی
خطہ کوہسار کی صورت حال جس تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہے اسے بیان کرنا اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک اس کے تانے بانے ماضی سے نہ جوڑے جائیں۔ 1849 میں جب انگریز نے پنجاب پر قبضہ کیا تو مری بھی اس کی راجدھانی میں آ گئی۔ اس کے بعد انگریز نے مری میں ترقیاتی کام کرانا شروع کر دیے، جس کی وجہ سے ہندو اور سکھ کاروباری لوگ یہاں آئے اور انہوں نے اپنے پیر جمانا شروع کر دیے.
اس وقت مری کے دیہات اور مضافات کے زیادہ تر لوگ کاشتکاری سے وابستہ تھے۔ یہ لوگ اپنی کھیتی باڑی کرتے تھے کیونکہ ہر گھر کے ساتھ ان کے اپنے کھیت ہوتے تھے نیز مویشی پالنا بھی ان کے لیے ناگزیر تھا۔ مری میں انگریزوں کی آمد کے ساتھ لوگوں کو نوکریاں ملنا شروع ہوئیں ،گو کہ وہ نوکریاں چھوٹی سطح کی تھیں لیکن اس سے علاقے میں تھوڑی بہت تبدیلی آنا شروع ہو گئی.
اس وقت آبادی کم تھی اور جنگل گھنے ہوتے تھے۔ البتہ جہاں پر مکانات اور کھیت تھے ان میں درختوں کی بہتات نہیں تھی۔ جنگلی جانور جیسے شیر، چیتا اور سور کہیں نظر نہیں آتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بزرگ رات کے تین بجے اٹھ کر کاروبار اور نوکریوں کے سلسلے میں گھر سے نکلا کرتے تھے. روشنی کے لیے دینی/دیلی کا مسادا استعمال ہوا کرتا تھا، پھر لالٹین کا دور آیا اور پھر بیٹری والی ٹارچ لے کر جنگل میں سے گذر کر گھڑیال ،جھیکا گلی اور مری جایا کرتے تھے . خاص طور پر جو لوگ ملٹری ڈیری فارم جھیکا گلی میں کام کرتے تھے وہ دو اور تین کے گروپ میں رات کو جایا کرتے تھے اور دن کو لوگ دودھ، سبزی یا فروٹ وغیرہ دینے کے لیے جنگل سے گزر کر جاتے تھے کہ اس وقت ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی اور سکول کے وہ بچے جو بڑی کلاس میں پڑھتے تھے، مری میں ایک ہی سکول ہوا کرتا تھا، جہاں پر وہ 13، 13 کلومیٹر پیدل چل کر جاتے تھے اور کبھی کسی شخص نے شکایت نہیں کی کہ مجھ پر شیر نے حملہ کر دیا یا میں نے سانپوں کی بہتات دیکھی یا کسی جنگلی جانور نے مجھے تنگ کیا۔ جب سینما کا رواج ہوا تو فلمیں بھی دیکھ کر رات گئے ہیدل چل کر لوگ واپس آتے تھے ۔
70 کی دہائی کا میں خود عینی شاہد ہوں کہ ہمارے ہاں ایک عزیز کی شادی ہوئی اور راتوں کو خواتین دولہا کو لے کے سڑک پہ چلی جاتی تھیں۔ ہمارے گھر کے قریب کیری کی نکر ہے، وہاں تک اپنی پہاڑی زبان میں شادی بیاہ کے گیت (گالیں) گاتی اور اس کو گھماتی اور واپس تین چار بجے لے کر آتی تھیں۔ کسی قسم کا کوئی خوف، کوئی ڈر نہیں ہوتا تھا. 80 کی دہائی کے بعد میں خود جب میڈیکل پریکٹس کر رہا تھا اور گاؤں میں میرا کلینک تھا تو میں کئی بار رات کے 10، 12 حتی کہ دو بجے بھی اکیلا ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں آتا تھا اور بیچ میں جنگل ہوتا تھا۔ خوف صرف بلاؤں کا یا جنوں کا یا چڑیلوں کا ہوتا تھا، جو بچپن سے لاشعور میں بٹھایا گیا تھا۔ جانوروں کا کبھی ذہن میں کوئی خوف تھا اور نہ ہی کبھی کسی جانور نے تنگ کیا اور نہ ہی حملہ کیا۔ اس لیے ہم بلا خوف و خطر گھوما کرتے تھے.
پھر آہستہ آہستہ درخت بڑھنا شروع ہو گئے۔ لوگ ہجرت کر کے شہروں کی طرف جانے لگے۔ 80 کے بعد نوکری اور کاروبار کے سلسلے میں پہلے کراچی، لاہور اور پھر بیرون ملک جانا شروع ہوگئے۔ لیکن گاؤں میں سن دو ہزار تک کوئی ایسا واقعہ سننے میں نہیں آیا، البتہ سن دو ہزار کے بعد ایک بار پتہ چلا کہ ہمارے گھر سے اوپر جو علاقہ ہے وہاں پر ایک لڑکے پر شیر نے حملہ کیا تھا اور بڑی مشکلوں سے اس نے اپنی جان بچائی تھی. اس کے علاوہ کوئی ایسا واقعہ سننے میں نہ کبھی آیا اور نہ دیکھا.
پہلے پہل گھروں میں پتھر کی بنی آٹے کی چکی ہوتی تھی۔ جس میں لوگ دانے پیس کر مکئی کا آٹا کھانے کے لیے حاصل کرتے تھے (چکی کے پاٹوں کی باقیات میرے چچا کے گھر میں آج بھی موجود ہیں)۔ اسی طرح جو نشیبی علاقے میں نالے (کس) تھے، ان پر جندر ہوا کرتے تھے. یہاں سے لوگ مکئی کا آٹا پسوا کر لاتے تھے اور پوری پوری رات وہاں رہتے، باری کا انتظار کرتے تھے اور کئی کئی میل پیدل چل کر جاتے تھے۔ معاوضے میں کرنسی نہیں بلکہ پسے آٹے کی ایک خاص مقدار ہہ طور معاوضہ دیتے تھے اور آتے جاتے اپنے عزیزوں کے پھلدار درختوں سے بھوک کی صورت میں پھل توڑ کر کھا لیتے تھے یا کھانا ساتھ لے جاتے تھے۔ راقم کو بہ ذات خود بھی ستر کی دہائی میں یہ تجربہ ہوا جب میں اپنے پھوپھی زاد کے ساتھ تھیلوں میں مکئی اٹھا کر جندر پر گیا اور آٹا پسوا کر لایا تھا۔ وہی لوگوں کا من بھاتا کھاجا ہوتا تھا۔ کھیتوں میں اگنے والا اناج، سبزیاں اور پھل ہی دیہات میں رہنے والوں کے کھانے پینے کا سامان تھا. اس کے علاوہ لوگ اپنے جانور پالتے تھے۔ اس لیے ہر گھر میں گھی، مکھن، لسی اور دودھ موجود ہوتا تھا۔ پھر اپنی مرغیاں پالتے تھے جن سے انڈوں اور گوشت کی ضروریات پوری ہوا کرتی تھیں۔
بعد میں جب لوگوں نے نوکریاں شروع کیں تو پھر باہر سے سامان آنا شروع ہو گیا. آہستہ آہستہ اس طریقے سے علاقے میں "ترقی” ہونا شروع ہوئی کہ زمینیں بنجر ہو گئیں، جانور پالنا ترک کر دیا گیا اور پھر ہر ضرورت کا مداوا بازار میں ڈھونڈنے کی بیماری عام ہو گئی۔ پھر شادی بیاہ پر جو پہلے رسم و رواج تھے، جیسے برتن، چارپائیاں اور کرسیاں اکٹھی کرنا، بستر جمع کرنا، ان پر نام لکھنا تاکہ چیزیں لوٹانے میں آسانی رہے متروک ہو گئے اور شادی ہال نے ہر مسئلے کا حل پیش کر دیا۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ 70 کی دہائی میں ایک بار کچھ بیرونی مہمان ایک شادی میں تشریف لائے۔ پورے گاؤں میں صرف ہمارے گھر میں صوفہ موجود تھا، جس کو شادی والے گھر لے جایا گیا تاکہ مہمانوں کو اس پر بٹھایا جا سکے. (آج بھی یہ نصف صدی پرانا صوفہ قابل استعمال حالت میں ہمارے گھر میں موجود ہے)۔ پھر وقت بدلتا گیا اور لوگ آگے بڑھتے گئے۔ لیکن جس بات کی میں نشان دہی کرنا چاہتا ہوں وہ یہ تھی کہ عہد حاضر میں یہ سب سے عجیب بات ہوئی کہ گاؤں میں جنگلی جانوروں (جیسے سور) کی بہتات ہے اور اب چیتا اور شیر بھی آنا شروع ہو گئے ہیں. یہ جانور اور درندے رہائشی علاقوں میں داخل ہو گئے، جن کی زد میں جانور تو آتے ہی تھے لیکن اب انہوں نے انسانوں پر بھی حملے شروع کر دیے ہیں اور ایسے واقعات تواتر کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں۔ درخت بہت زیادہ ہو گئے ہیں اور جھاڑ جھنکار بڑھ گیا ہے۔ کیونکہ لوگ گاؤں سے ہجرت کر گئے ہیں، کھیتی باڑی چھوڑ دی ہے اس لیے اب ہر طرف جنگلی درختوں اور جھاڑیوں کی بہتات ہے۔ جنگلی جانوروں نے انہی درختوں اور جھاڑیوں میں ڈیرے ڈالنا شروع کر دیے ہیں، جو آبادی کے لیے انتہائی تشویش ناک ہے.
وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ سڑک کے قریب جو علاقے ہیں وہاں عمارتیں اور پلازے بننا شروع ہو گئے۔ لوگوں نے اپنی زمینیں بیچنا شروع کر دیں اور خود یہاں سے ہجرت کر کے شہروں میں گھر بنا لیے۔ جواز یہ رکھا گیا کہ بچوں کی تعلیم کا مسئلہ ہے، کاروبار کا مسئلہ ہے نیز یہ بھی کہ نوکریاں وہاں پر ہیں اور علاج معالجے کی سہولیات میسر ہیں۔ بہرحال جو پیچھے رہ گئیے ہیں وہ مختلف قسم کے مسائل کا شکار ہوتے جا رہے ہیں. مقامی طور پہ مختلف علاقوں میں منشیات کی لعنت بھی بچوں کو تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ اس کے علاوہ تعلیمی لحاظ سے سکولوں کا معیار گرتا جا رہا ہے. کالج جن کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہیے تھا ان کی تعداد کم ہو رہی ہے. لوگ سرکاری سکولوں پر پرائیویٹ اداروں کو ترجیح دے رہے ہیں.
مادیت پرستی عام ہو گئی ہے اور ہر شخص اس دوڑ میں شامل ہو گیا ہے۔ ہمارے علاقے کی روایات اور اقدار تیزی سے دم توڑ رہی ہیں۔ بدقسمتی سے ہم لوگ بری طرح ہندوانہ رسومات اور مغربی ممالک کی نقالی میں بہت آگے بڑھ چکے ہیں۔ کمائی کے ذرائع کم ہوتے جا رہے ہیں جبکہ اخراجات کے ذرائع ہم نے رسومات، تصنع، تکلف اور بناوٹ کی وجہ سے بہت بڑھا لیے ہیں۔ لوگوں کی توجہ نہ دینے سے جنگلی جانوروں کی جو بہتات ہے اس کی وجہ سے خطرات وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں.
مندرجہ بالا مسائل کی وجہ سے گاؤں میں رہنا اب بہت مشکل ہو گیا ہے۔ پانی کی کمی بھی ایک گھمبیر مسئلہ ہے۔ قدرتی چشموں کے خشک ہونے کے بعد مزید ذرائع تلاش نہیں کیے گئے۔ ارباب اختیار نے صحت، تعلیم، مقامی روزگار، بنیادی سہولیات کی فراہمی جیسے اہم امور پر کوئی توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے لوگ بڑے شہروں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ جو لوگ گاؤں میں رہ گئے ہیں ان میں سے اکثر نہ تو پڑھے لکھے ہیں اور نہ ہی مالی طور پر آسودہ حال۔ اس لیے وہ خاموشی سے حالات کے جبر میں زندگی گزار رہے ہیں. ارباب اختیار ، سیاسی نمائندے اور سیاسی عمائدین بہ وقت ضرورت عوام کو لالی پاپ دے دیتے ہیں، وعدے کرتے ہیں لیکن علاقے کی ترقی کے لیے کوئی عملی کام نہیں کرتے. دیہات کے لوگ جنگلی جانوروں کے خوف کی وجہ سے نماز مغرب کے بعد گھروں میں مقید ہو کر رہ جاتے ہیں۔ مقامی آبادی خطرات اور مسائل میں گھری ہوئی ہے لیکن ارباب اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ وائلڈ لائف اور دوسرے سرکاری ادارے، جن کا کام قوانین کا نفاذ ہے، وہ اپنے فرائض کی ادائیگی سے مکمل غفلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے دیہات کے لوگ خطرناک حد تک مشکلات کا شکار ہو رہے ہیں۔ خدا نخواستہ اگر یہی صورت حال رہی تو جو باقی لوگ ہیں وہ بھی گاؤں کو چھوڑ کے یا اپنی زمینوں کو بیچ کر کنالوں سے مرلوں پر آ جائیں گے اور اسی میں ہی اپنے عافیت سمجھیں گے کیونکہ ہر ایک کو جان عزیز ہوتی ہے .
یہ میرے ذاتی مشاہدات تھے۔ میں نے جو محسوس کیا، سوچا آپ سب تک بھی پہنچا دوں۔ آپ سے بھی دست بستہ گزارش ہے کہ اگر آپ کے علاقوں میں بھی ایسے مسائل ہیں تو خدارا مل کر ان مسائل کے حل کے لیے آواز اٹھائیے تاکہ ان کے حل کی کوئی سبیل سامنے آئے۔ اگر ہم نے اب بھی خاموشی اختیار کیے رکھی تو ہم اپنے آبائی علاقوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔