kohsar adart

نویں سویل ناں شاعر

صاحب تحریر 

نیلسن مینڈیلا نے کہا تھا کہ اگر آپ کسی آدمی سے ایسی زبان میں بات کریں جو وہ سمجھتا ہے، تو وہ اس کے ذہن تک پہنچتی ہے، لیکن اگر آپ اس سے اس کی اپنی زبان میں بات کریں، تو وہ اس کے دل تک پہنچتی ہے۔ علاقائی زبانوں کو تدریسی عمل کا حصہ بنانے کی افادیت کے پیچھے بھی ایسے ہی کئی دلائل موجود ہیں ۔ ان دلائل کے حق اور مخالفت میں ماہرینِ تعلیم کے درمیان بحث ایک طرف لیکن علاقائی زبانوں کی حفاظت اور ان کی ترویج کی اہمیت سے کسی باشعور انسان کو کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا۔یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ (UN) کا مقامی زبانوں کو محفوظ رکھنے کا ایجنڈا 2022 سے 2032 تک نافذ العمل قرار دیا گیا ہے۔ جہاں اس ایجنڈے کے ذریعے مقامی زبانوں کی حفاظت اور ترویج پر کام ہو رہا ہے وہیں اس کے ذریعے اقوام متحدہ تمام دنیا کے مقامی باشندوں کے اس حق کی بھی حمایت کرتا ہے کہ وہ اپنی زبانیں استعمال کریں اور انہیں آنے والی نسلوں تک منتقل کریں۔ مقامی زبانوں کی حفاظت کے لیے اب تک سب سے بہترین اور موثر طریقہ اہلِ دانش نے یہی بتایا ہے کہ اپنی زبان کونئی نسل کے ساتھ زیادہ سے زیادہ بولا جائے، اسے بولنے میں فخر محسوس کیا جائے اور اس میں زیادہ سے زیادہ لکھا جائے۔ ہم پہاڑی زبان بولنے والے بالخصوص خطہ کوہسار مری اس حوالے سے کہاں کھڑے ہیں؟ یہ خود ہم سےزیادہ بہتر کوئی نہیں جانتا۔ اپنی نئی نسل سے پہاڑی زبان میں بات کرنا ہمیں اس لیے پسند نہیں کہ اس سے ہمارے بچوں کا مذاق اڑایا جائے گا حالانکہ مذاق اڑانے والے بھی ہم خود ہی ہیں۔ ہمیں اپنی زبان بولنے میں فخر نہیں ذلت محسوس ہوتی ہے۔ جہاں تک پہاڑی زبان کو لکھنے کا تعلق ہے تو ہمارے پڑھے لکھے اور با شعور کہلانے والے طبقے کو بھی اب تک یہ کام غیر ضروری اور فضول لگتا رہا ہے۔ یہ ماحول دو چار دنوں میں نہیں بنا بلکہ اس کے پیچھے کئی سالوں سے موجود ہمارا یہی رویہ ہے ۔ ہم گزشتہ تین دہائیوں سےمسلسل قریبی شہروں کا رخ کر رہے تھے، یہاں تک کہ ہم نے نئے شہر تک بسا دیے لیکن اپنی زبان کو اگلی نسلوں سے یوں چھپاتے پھر رہے تھے جیسے پہاڑی زبان میں بات کرنا ناقابلِ معافی گناہ ہے۔ یوں ہم اپنی زبان کو خود اپنے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتار رہے تھے ۔ ایسے میں خطہ کوہسار مری میں ایک اشفاق کلیم عباسی نام کا آدمی پہاڑی زبان کا علم بلند کیے نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک کاروان کی صورت اختیار کر گیا ۔ اس شخص نے لوگوں کو بتایا کہ اپنی زمین، اپنی رویات اور اپنی زبان سے پیار زندہ لوگوں کی نشانی ہوتی ہے۔ بے شمار دیگر خوبیوں کے ساتھ اس شخص کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے نہ صرف ٹھہرے پانی میں پتھر پھینک کر ارتعاش پیدا کیا بلکہ کئی نو آموز لکھاریوں کو مجبو رکیا کہ اپنی زبان میں پڑھنے لکھنے کا آغاز کریں۔ اب یہ عالم ہے کہ کوئی نجی محفل ہو یا عظیم الشان جلسہ ، کسی گاو ں میں بیٹھک ہو یا کسی اعلیٰ افسر کے دفتر کا ماحول اشفاق کلیم پہاڑی زبان کا بول بالا کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ کوہسار کی تاریخ ، اس کی علمی و فکری روایات، یہاں کے مزاحمت کاروں کے کارنامے اور یہاں کی زبان کی بلاغت الغرض ہر اس حوالے پر اشفاق کلیم گزشتہ کئی سالوں سے بولتے دکھائی دیتے ہیں جن پر اہل کوہسار فخر کر سکتےہیں۔ آپ چونکہ اردو کے پروفیسر ہیں اور اکثر لوگوں کو حوصلہ دیتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ "اوے میں اردو ناں پروفیسر ہوئی، اس ناں رزق کمائی تے آخناں یاں کہ پہاڑی زبان نال جڑو، اس آستے کم کرو، تے تساں نی کے مجبوری ” (اگر میں اردو کا پروفیسر ہو کے اور اس کے ذریعے اپنا رزق کمانے کے باوجود کہتا ہوں کہ پہاڑی زبان سے جڑیں ، اس کے لیے کام کریں تو آپ کس مصلحت کا شکار ہیں)۔ پہاڑی زبان کے حوالے سے اشفاق صاحب کے کام اور کارناموں کی فہرست بہت طویل ہے۔ میں آج ان کی پہاڑی شاعری پر بحوالہ "نویں سویل” کچھ لکھنے بیٹھا تھا لیکن نہ جانے بات کہاں سے کہاں چلی گئی۔بہرحال یہ کسی حد تک ضروری بھی ہے کہ شاعر کی ایک مختلف زبان میں شاعری پر بات کرنے سے قبل اُس زبان سے اُس کے تعلق کا بھی ذکر کیا جائے۔

میرے ہاتھ میں اشفاق کلیم صاحب کا پہلا پہاڑی شعری مجموعہ "نویں سویل” ہے۔ یہ فروری 2022 میں شائع ہوا ۔ اس مختصر مجموعے میں غزلیں، نظمیں اور کچھ معروف اشعار کے منظوم تراجم شامل ہیں۔ پہاڑی زبان میں شاعری کی چونکہ کوئی مضبوط روایت موجود نہیں اس لیے اس کتاب کو پہاڑی ادب میں بہت اہمیت حاصل ہو چکی ہے۔ اس سے پہلے بھی پہاڑی زبان میں کچھ تخلیقی کام ہو چکا ہے لیکن پروفیسر اشفاق کلیم چونکہ پہاڑی زبان و ادب کے حوالے سے ایک قابل اعتبار نام ہے اور انہیں پہاڑی زبان پر مکمل دسترس حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کو پہاڑی شاعری میں سند ماننے میں اہلِ علم و اہلِ زبان متفق دکھائی دیتے ہیں۔ نویں سویل کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس نے پہاڑی شاعری کے لیے عروض پر نئے لکھنے والوں کی راہنمائی کی ۔

نویں سویل کی شاعری میں جا بجا خطہ کوہسار مری اور اس کے مضافاتی علاقوں کی روایات کی جھلک ہے ۔ یہاں کے رہنے والوں کے باہمی تعلقات، ان کے معاملات، خطے کا قدرتی حسن اور مخصوص جغرافیہ نے یہاں کی زبان پر جو اثرات مرتب کیے ان کا اظہار اشفاق کلیم کی شاعری کو ممتاز کرتا ہے۔ ذیل میں اس حوالے سےچند اشعار دیکھیے؛

ایدکی ناخ زیادہ پھلّے
موسم فر طوفانی ہوسی
(ناشپاتی کے درختوں پر پھولوں کی فراوانی بتا رہی ہے کہ اس سال موسم شدید یا طوفانی ہو گا)

اساں پندھیاں نے وچ جنوں کھولے
کوئی ڈولی کدے نیئی ٹیہن دتّی
(ہم نے مشکل راستوں میں اپنے گھٹنے زخمی کیے لیکن کبھی کسی دلہن کی ڈولی گرنے نہیں دی)

انج تے غرور پئی کرو ماضی نیاں شاناں اپر
مٹی وی باہنے رہیا کرو کچے مکاناں اپر
(اپنے عظیم ماضی پر غرور کیجیے لیکن اپنے کچے مکانوں پر مٹی بھی ڈالتے رہا کیجیے)

کھلا چہغڑے وچ
بڑیاں ناں نِک یت
(جھگڑے کے دوران بڑوں کا چھوٹا پن ظاہر ہوا)

کڑیاں پر نہ کڈھن
مرد اپنا جنے یت
(مرد اپنی مردانگی کا اظہار خواتین پر تشدد سے نہ کریں)

مزاحمت اشفاق صاحب کی شاعری کا سب سے مضبوط حوالہ ہے۔ ان کے ہاں مزاحمت کی رو موجود ہی سے کشید نہیں ہوتی بلکہ مزاحمت کے ان تاریخی پہلووْں سے بھی جڑی ہے جن کا تعلق بالعموم پوری دنیا اور بالخصوص خطہ کوہسار ہے۔ ان کے قریبی احباب جانتے ہیں کہ کس طرح وہ سردار باز خان اور ان کے رفقاء کی مزاحمتی تحریک کا ذکر کرتے ہوئے ایک عجیب کیفیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ انگریزوں کے خلاف برصغیر میں ہونے والی مزاحمت پر گہری نظر ان کی شاعری میں مزاحمت کا ایک نیا انداز لے کر آتی ہے:

اساں گاٹے کپائے ، نیئے نوائے
سِرے نی پَگ کدے نیئی لیہن دتّی
(ہم نے گردنیں کٹوائی ہیں جھکائی نہیں ہیں۔ ہم نے سر کی پگڑی کبھی اترنے نہیں دی)

کج توپاں نیں اگیں بدّھے ، کج شوڑے نیں ٹنگی
ناں ٹہونڈاں ناں سُنی تے فر وی ، کمبنے رئے فرنگی
(کچھ کو توپوں کے آگے باندھا گیا اور کچھ کو پھانسی دے دی گئی لیکن پھر بھی فرنگی ٹہونڈ مزاحمت کاروں کے ذکر سے کانپتے رہے)

یوں تو اشفاق کلیم صاحب کے ہاں معاشرتی نا ہمواریوں ، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور طبقاتی نظام کے خلاف مزاحمت نمایاں ہے لیکن ہر شاعر کی طرح اپنی ذات کے متعلق خود کلامی بھی خوب کرتے ہیں۔ ایک عام آدمی کی طرح حساسیت ان کےہاں موجود تو ہے لیکن وہ اس کا عامیانہ اظہار نہیں کرتے بلکہ یہاں بھی اپنی شخصیت کا رچاوْ برقرار رکھتے ہوئے بات کرتے ہیں:

آ کلیم ہُن اندرے جلیے
سن فدری تھیں ساہنی ہوسی
(آ کلیم اب اپنے گھر چلتے ہیں۔ یقینا شام صبح سے زیادہ سہانی ہو گی)

میں تے مہاڑا عشق
چہلیاں ناں چہل یت
(میں اور میرا عشق دنوں ایسی ہیں جیسے بھولے لوگوں کا بھولا پن )

ویلا آیا شام ناں ،،،ٹاکے پر آ دینہہ
لگنا دینہہ نے نال یے،،،ڈبّی گیساں میں
(شام کا وقت ہے اور سورج غروب ہونے کو ہے۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے اس ڈوبتے سورج کے ساتھ میں بھی ڈوب جاوْں گا )

خطہ کوہسار اور گرد و نواح کے تابناک ماضی اوربے مثال روایات کی پامالی اور دور جدید میں ماضی کے بہت سے خوبصورت حوالوں کے معدوم ہونے کا دکھ ہر پرانے آدمی کو ہے لیکن اشفاق کلیم صاحب اس دکھ کو بیان کرتے ہوئے جمالیات کی جس سطح کو چھوتے ہیں وہ ہر شاعر کا خواب ہوتا ہے۔ یقینا اس کے لیے ماضی کی روایات اور سماج کا عمیق مطالعہ درکار ہوتا ہے یا دوسری صورت یہی ہو سکتی ہے کہ انسان خود ان روایات کا پوری طرح حصہ رہا ہو۔ اشفاق صاحب کو دونوں صورتیں میسر رہیں اور انہوں نے قدیمی روایات اور طور طریقوں کی معدومی کا نوحہ بھی خوب لکھا ہے:

کھٹاں نے ہٹھ نہ چُوکاں وچ باقی وی جاء کُرے
ہُن اوخا ویلا اچھی غا چہبلاں ، بداناں پر
(چارپائیوں کے نیچے اور گھر کے کونوں میں اب ان کے لیے جگہ باقی نہیں لہذا محنت مزدوری کے لیے استعمال ہونے والے آلات پر اب برا وقت آ گیا ہے)

سرگی تھیں پہلیاں جندراں پر گچھی اپنی آں چُہنگاں لانے سے
کُہٹ صَبَر نے کوڑے پہرنیں سے، تاں مٹھیاں رُٹیاں کھانے سے
(آٹے کے حصول کےلیے صبح فجر سے پہلے لوگ جندر پر جا کے اپنی چہونگیں لگاتے تھے ۔ وہ لوگ صبر کا کڑوا گھونٹ پیتے تھے تو میٹھی روٹیاں کھاتے تھے)

اساں غیرت کدے نیئی سَین دتّی
لہو دتّا، زمی نیئی رہن دتی
(ہم نے اپنی غیرت کو کبھی سونے نہیں دیا تھا۔ جان دے دی لیکن کبھی اپنی ز مینیں فروخت نہیں کی تھیں)

پروفیسر اشفاق کلیم صاحب کی شاعری پر کئی حوالوں سے بات ہو سکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان جیسے استاد شاعر کے بارے میں کچھ کہنا ہی میرے لیے اعزاز ہے۔ درحقیقت "نویں سویل ” نے پہاڑی زبان کی آبرو میں اضافہ کیا ہے۔ اشفاق صاحب کی شاعری نے پہاڑی بولنے والے ہر خاص و عام کو اپنی زبان پر فخر کرنا سکھایا ہے اور نئے لکھنے والوں کی خود اعتمادی میں اضافہ کیا ہے۔ میں دعا گو ہوں ان کا سایہ ہم پر تا دیر قائم رہے اور ہم ان کے قلم سے مزید فیض یاب ہوتے رہیں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More