نوجوان نسل کی تربیت ایک اجتماعی ذمہ داری
تحریر : راشد عباسی
نوجوان نسل کی تربیت ایک اجتماعی ذمہ داری
"اقبال نیں شاہین” اساتذہ، والدین، معاشرے کے عام افراد اور نوجوانوں کے لیے لکھے گئے مضامین پر مشتمل کتاب ہے۔ اس میں جہاں تعلیم و تربیت کے حوالے سے کئی اہم سوال اٹھائے گئے وہیں کئی ایسے امور کی بھی نشان دہی کی گئی ہے جن کے حوالے سے ہمارا انداز فکر ہی صریحا غلط ہے۔
ذیل میں ٹینس کی دو سٹار کھلاڑیوں کی زندگی کے بارے میں مختصر معلومات پیش خدمت ہیں۔ اگر ہم بھی رچرڈ ولیمز کی طرح اپنے بچوں کو حقیقی کامیاب مسلمان ، بڑا انسان اور اپنے شعبہ زندگی کا مثالی انسان بنانے کے لیے عملی جدوجہد کا فیصلہ کر لیں تو فطرت ہمارے قدم سے قدم ملا کر چلنا شروع کر دے گی۔
رچرڈ ولیمز
فیمیل ٹینس سٹار سرینا ولیمز اور وینس ولیمز کے والد رچرڈ ولیمز نے اپنی بیٹیوں کو ٹینس سٹار بنانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔
یہ اسی (80) کی دھائی کی بات ہے کہ کامپٹن، کیلیفورنیا میں رہنے والے رچرڈ ولیمز نے ایک بار ٹیلی ویژن پر خبر دیکھی کہ فلاں ٹورنامنٹ جیتنے والی ٹینس کی کھلاڑی کو اتنے ہزار ڈالر ملے۔ وہ ایک عزم کے ساتھ اٹھا اور اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی بیٹیوں کو ٹینس سٹار بنائے گا۔ لیکن اس علاقے کو غنڈوں اور مافیا کا علاقہ گردانا جاتا تھا اور نسلی تعصب بھی عروج پر تھا۔ اور پھر ٹینس کو تو گوروں کا کھیل سمجھا جاتا تھا۔ مختلف کنٹری کلب اور ٹینس کورٹ گوروں کے لیے ہی مختص تھے اور ان تک رچرڈ ولیمز جیسے افریقی امریکی اور اس کے خاندان کی رسائی تقریبا نا ممکن تھی۔ نسلی تعصب کی بنا پر یہ خیال عام تھا کہ کالے لوگ جسمانی ساخت کی وجہ سے اتھلیٹ تو اچھے ہو سکتے ہیں لیکن ان میں اتنی ذہانت اور قابلیت نہیں ہوتی کہ وہ ٹینس جیسا تکنیکی اور مشکل کھیل کھیل سکیں۔ اگر کوئی کالا اپنی محنت اور قابلیت سے کسی ٹورنامنٹ کا حصہ بن جاتا تو اس کے ساتھ افسران کی طرف سے امتیازی سلوک کیا جاتا اور اسے حریفوں اور تماشائیوں کے ہتک آمیز جملے سننے کو ملتے۔ نیز افریقی امریکی کھلاڑیوں کے لیے ایک اور گھمبیر مسئلہ معاشی مسئلہ تھا۔ کیونکہ ٹینس مہنگا کھیل ہے اور نسلی امتیاز کی وجہ سے انھیں سپانسر نہیں ملتے تھے۔ میڈیا بھی نسلی امتیاز میں کسی سے پیچھے نہ تھا۔
حیرت اور افسوس کی بات یہ تھی خود کو اعلی تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ کہنے والے ملک کے امپائروں کی طرف سے بھی کئی بار نسلی امتیاز کی وجہ سے غلط فیصلے کیے گئے اور سرینا ولیمز اور وینس ولیمز کے ساتھ بھی کئی بار ایسا ہوا۔ کئی بار تماشائیوں کی طرف سے بھی میچ کے دوران نسلی امتیاز کا مظاہرہ کیا گیا۔ لیکن ولیمز خاندان کی عظمت یہ تھی کہ انھوں نے ہمیشہ نسلی امتیاز اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کی۔
وینس ولیمز کو چار سال اور سرینا ولیمز کو تین سال کی عمر میں ان کے والد رچرڈ ولیمز نے ٹینس سکھانی شروع کی۔ حال آنکہ اس نے ٹینس کے بارے میں آگاہی فقط پانچ چھ سال پہلے ہی حاصل کی تھی۔ لیکن اس نے مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ اس کی بیٹیاں ٹینس سٹار بنیں گی۔ اس لیے اس کا یہ جنون اس کے لیے راہیں ہموار کرنے کا باعث بنتا گیا۔
کیونکہ ٹینس کورٹ میں اس کی بیٹیوں کو کھیلنے کی اجازت نہیں تھی اس لیے رچرڈ ولیمز نے اپنے گھر کے پچھلے صحن کو ٹینس کورٹ بنایا، کہیں سے ایک پرانا نیٹ لا کر اسے کسی نہ کسی طرح صحن میں لگا دیا۔ یوں اس نے گھر پر اپنی بیٹیوں کی تربیت شروع کر دی۔ اس نے پرانے ریکٹ بھی کسی طرح حاصل کر لیے اور مختلف تربیتی ویڈیوز کی مدد سے اپنی بیٹیوں کو فٹ ورک، ہاتھوں اور آنکھوں کی ہم آہنگی اور ریکٹ کو کنٹرول کرنے کی مہارت سکھانے میں دن رات ایک کرنے شروع کر دیے۔ وہ روزانہ انھیں ایک ایک پہلو کی گھنٹوں مشق کرواتا۔ وہ انھیں سمجھاتا کہ کسی بھی کھیل میں جسمانی کے ساتھ ساتھ ذہنی اور نفسیاتی طور پر مضبوط ہونا ضروری ہے۔ صورت حال کچھ بھی ہو آخری دم تک لڑنے کا حوصلہ رکھنے والے ہاری ہوئی بازی بھی جیت جاتے ہیں۔ فطرت ہمیشہ بہادروں کا ساتھ دیتی ہے۔
رچرڈ ولیمز نے انھیں باقاعدہ گولز دیے کہ انھوں نے کس رفتار سے، کس سمت میں اور کس کس منزل کو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہے اور اسی تناسب سے محنت اور مشق کرنی ہے۔ اس سے انھیں ارتکاز کا موقع ملا اور انھوں نے اپنے اہداف کو سامنے رکھتے ہوئے انتھک کوشش شروع کر دی۔
رچرڈ ولیمز ایک جہاندیدہ شخص تھا۔ اس نے کوشش کر کے اپنی بیٹیوں کو ان سے عمر میں بڑے، تجربہ کار اور جسمانی طور پر زیادہ طاقت ور کھلاڑیوں کے مقابل بھی کھیلنے کے مواقع فراہم کیے تا کہ وہ مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوں۔ اس نے پورے خاندان کو ایک مقصد کے ساتھ جوڑ دیا۔ اب پورے خاندان کا متفقہ اور مشترکہ مقصد دونوں بچیوں کو ٹینس سٹار بننے میں ان کی مدد کرنا تھا۔ وہ انھیں مستقبل کے بارے میں ہمیشہ پر امید بناتے۔ کل جب تم فلاں ٹورنامنٹ جیت کر ٹرافی اٹھاؤ گی تو ہم تالیاں بجائیں گے، نعرے لگائیں گے اور وہ میڈیا جو آج نسلی امتیاز کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہماری تصویر نہیں چھاپتا اس پورے میڈیا پر ہمارے خاندان کی کوریج ہو گی۔ صحافی انٹرویوز کے لیے تمھارے پیچھے بھاگتے پھریں گے۔ وہ لوگ جو آج آپ سے دعا سلام نہیں کرتے یہ فخر سے لوگوں کو بتائیں گے کہ وہ ان عظیم ٹینس سٹار کے پڑوسی رہے ہیں۔ اور آج یہی حقیقت ہے۔
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں ہمارے لیے بچوں کی تعلیم و تربیت ایک چیلنج تو ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں رچرڈ ولیمز کے مقابلے میں بہت زیادہ آسانیاں بھی میسر ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے بچوں کی صلاحیتوں اور رجحانات کا کھوج لگا کر ہر خاندان انھیں ایک اچھا انسان اور مسلمان بناتے ہوئے اس شعبے کا کامیاب ترین انسان بنانے کے لیے مخلصانہ جدوجہد شروع کر دے۔ میرا ایقان ہے کہ اگر ہم اسے اپنی اجتماعی ترجیح اور مشن بنا لیں تو چند برسوں میں ہماری ساری نوجوان نسل ہمیں محرومیوں اور مایوسیوں سے نکال کر باعزت قوموں کی صف میں لا کھڑا کرے گی۔
راشد عباسی