top header add
kohsar adart

ناول ’’سیتا زینب‘‘… سندھی سے پہاڑی تک

’’سیتازینب‘‘… سندھی سے پہاڑی تک

کہانی اور انسان ہمزاد ہیں اور ہمراز بھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا سفر ایک ساتھ اور ایک ہی سمت میں ازل سے چل رہا ہے اور یقینا ایسا ابد تک ہوتا رہے گا۔ ایسا یقینا اس لیے ہے کہ انسان بلکہ ہر انسان ایک کہانی ہے اور ہر کہانی کو اگر ’’تجسیم‘‘ کیا جائے تو ایک انسان کی صورت ظاہر ہو گی۔ کہانی نے جہاں لوک کہانی سے داستان اور داستان سے ناول تک کا سفر کیا ہے، ایسے ہی انسان قدامت سے جدت کی طرف آیا ہے لیکن جیسے کہانی اپنے ’’مزاج‘‘ کے باعث زندہ ہے ایسے ہی انسان اپنی ’فطرت‘ کی وجہ سے باقی ہے۔ بہرحال کہانی اور انسان کے تعلق طویل، گنجلک اور ہمہ پہلو موضوع کو یہاں ہی چھوڑتے ہوئے ہم زیبؔ سندھی کی کہانی ’’سیتا زینب‘‘ کی طرف آتے ہیں کہ قطرے میں دجلہ نہ سہی جزو میں کل دیکھنا دکھانا ایک اچھے کہانی کار کی خاصیت ہوتی ہے۔ زیب سندھی ایک ’’دیدہ زیب‘‘ یعنی خوبصورت کہانی کار ہیں جو ’’نصف صدی‘‘ سے اس میدان میں آبلہ پائی کے باوجود مسلسل محو سفر ہیں۔ یوں تو وہ دو درجن سے زائد تصانیف کو تخلیق کی بھٹی سے گزار کر ’’کندن‘‘ کر چکے ہیں لیکن ’’سیتا زینب‘‘ زیب سندھی کی وہ کہانی ہے جسے کمال مقبولیت میسر آئی۔ زیب سندھی کے اس ناول کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ اوّلاً اسے 2014ء میں شاہد حنائی نے اُردو کا جامہ پہنایا۔ اس کے کئی ایڈیشن یہاں وہاں سے شائع ہوئے۔ نیز ’’عربی‘‘ کا پیرہن دیا گیا ہے اور ’’بنگالی‘‘ روپ سروپ بھی عطا ہوا ہے۔ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ یہ کہانی ’مہران‘ سے ہوتی ’پہاڑ‘ اور پہاڑیوں تک آئی جہاں راشد عباسیؔ نے اسے ’’پہاڑی‘‘ پہناوا اس مہارت سے اوڑھایا کہ یوں لگتا ہے کہ ’اصل‘ تو یہی ہے…
راشد عباسیؔ ایک ’’کاریگر‘‘ بندہ ہے، ایک ایسا ’کاریگر‘ جس کے ہاتھ بہت سے ’ہنر‘ یوں لگے ہیں کہ وہ جس کا بھی ’اظہار‘ کرے وہی کمال دکھتا ہے۔ میری دانست میں راشد عباسی بنیادی طور پر ایک شاعر ہے۔ ایک ایسا شاعر جو ’شعر‘ کے ہن گن جانتا سمجھتا ہے۔ لیکن اس کی خاصیت یہ ہے کہ وہ کبھی بھی ’ٹھک‘ نہیں کر سکتا لہٰذا وہ ایک کے بعد دوسرا اوکھا انوکھا کام کرنے چل پڑتا ہے۔ وہ چونکہ ’پکا ٹھکا‘ پہاڑیا ہے سو ’اونچی نیچی راہوں‘ پر چلنا اس کی ’عادت ثانیہ‘ ہے۔ اسی لیے اپنے ’پکے ساہ‘ کے ساتھ وہ ’اوکھے راہ‘ چلتا چڑھتا ہے اور اکثر چوٹی پر پہنچ کر دم لیتا ہے۔ میرے اس ’دعوے‘ کا ثبوت ’سیتا زینب‘‘ کا پہاڑی پہناوا ہے۔

راشد عباسی نے زیب سندھی کی کہانی کو اتنی مہارت اور خوبصورتی سے اپنی ماں بولی ’’پہاڑی‘‘ میں ڈھالا ہے کہ پڑھتے ہوئے پہاڑی جھرنے کا جلترنگ، قدرتی حسن اور شادابی کا معطر پن اور کھلی فضا کا حسن اپنے سحر میں جھکڑ لیتا ہے۔
’’سیتازینب‘‘ کی کہانی محبت کی کہانی ہے۔  یہ کہانی یونیورسٹی سے شروع ہوتی ہے جہاں سیتا اور سلمان، جو دو مختلف مذاہب کے پیروکار ہیں، ’محبت‘ کے رشتے میں یوں جڑ جاتے ہیں کہ ہر نوع کی دوری ختم کر کے بہم ہونے کی قسم کا بیٹھتے ہیں۔ سیتا ایک باوقار، با عزت ہندو گھرانے کی بیٹی ہے۔ اس کا خاندان متمول بھی ہے اور اچھی شہرت کا حامل بھی۔ وہ دو بہنیں اور ایک بھائی ہیں۔ اس کے والد فوت ہو چکے ہیں۔ اس کا بھائی تلخ مزاج کا شدت پسند نوجوان ہے۔ سیتا کی چھوٹی بہن نے جب ایک نسبتاً کم ذات کے ہندو سے شادی کی تو اس کے بھائی (شنکر) نے اسے بلکہ ان دونوں کو اگلے جہاں پہنچانے کا اہتمام کر لیا۔ سیتا کی ماں جانکی بائی ایک سمجھدار اور اپنے دھرم کی سچی پیروکار ہے۔ جب اسے معلوم ہوا کہ سیتا کسی مسلمان لڑکے کو من مندر میں بسائے بیٹھی ہے تو وہ سیتا کے روّیے اور شنکر کے غصے سے بہت خوفزدہ ہوئی۔ اس نے سیتا کو سمجھانے بہلانے کی بہت کوشش کی لیکن سیتا سلمان کے لیے اپنا گھر بلکہ مذہب تک چھوڑنے کا فیصلہ کر چکی تھی۔ پھر ایک رات سیتا اپنی حویلی سے نکلی اور اپنے قصبے کے چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن پر آن پہنچی۔ سلمان نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ رات کی ریل گاڑی سے یہاں آ جائے گا اور یوں وہ ایک نئی زندگی اور سفر کا آغاز کریں گے۔ سیتا حسب وعدہ ریلوے سٹیشن آ گئی تھی لیکن سلمان نہ آیا اور نہ اس سے رابطہ ممکن ہوا۔ ان حالات میں عابد علی، سٹیشن ماسٹر، اس کا سہارا بنا۔ عابد علی اور اس کے ہم کار عبداللہ نے سیتا کو سنبھالا۔ وہ کئی دن تک عابد علی کے گھر پر رہی۔ وہاں ہی پہلی رات وہ مسلمان ہوئی اور سیتا سے زینب بنی۔ زینب عبداللہ کی بیٹی تھی، جو رخصتی کے وقت اسی اسٹیشن پر حادثے کے باعث موت کی وادی میں اتر گئی تھی۔ اسی کا نام زینبؔ کو ملا۔ عابد علی کی بیوی خدیجہ نے زینب کو نماز سکھائی اور اس کا ہر طرح کا خیال رکھا۔ دوسری طرف شنکر کرائے کے قاتلوں کے ساتھ سیتا کو ڈھونڈتا پھر رہا ہے۔ جانکی بائی نے پولیس سے رابطہ کیا۔  پولیس بھی اسے تلاش کر رہی ہے۔ سلمان نے سیتا کو بیچ بھنور چھوڑ دیا تھا۔ اس کا نمبر بند ملتا تھا۔ ایک بار عابد علی سے اس کی بات ہوئی تو اس نے باپ کی وفات کا کہہ کر سیتا کو اپنانے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ شنکر کے قہر سے بھی خوفزدہ تھا۔ سیتا بہت مشکل میں تھی، اگرچہ عابد علی نے اسے اپنے گھر میں پناہ دے رکھی تھی، مگر شنکر کی صورت میں موت اور سلمان کی بے وفائی نے اسے ہر لحظہ پریشان کیے رکھا تھا۔ اسی دوران ایک غلط فہمی جو سیتا کی وجہ سے پیدا ہوئی عابد علی اور خدیجہ میں طلاق ہو گئی۔ جب یہ حادثہ ہوا تو سیتا وہ گھر چھوڑ کر کہیں نکل گئی۔ عابد علی نے بساط بھر ڈھونڈا مگر لاحاصل۔ سیتا وہاں سے نکلی تو کراچی جا پہنچی۔ وہاں وہ اپنی دوست اور کلاس فیلو الماس کے گھر تھی۔ الماس اور رفیق نے اسے بہت سہارا دیا۔ شنکر اسے ڈھونڈتا وہاں بھی جا پہنچا۔ مگر الماس نے زینب کو بچائے رکھا۔ زینبؔ نے الماس سے شیلٹر ہوم جانے کی ضد کی اور پھر خودکشی کی کوشش بھی کی۔ وہ کئی دن ہسپتال میں رہی، یہاں ہی الماس نے سلمان سے دوبارہ رابطہ کیا۔ زینب کی جان بچی تو سلمان اسے لینے جا پہنچا۔ دوسری طرف طلاق کے بعد خدیجہ اسی گھر میں رہی کہ اس کے پاس کوئی اور ٹھکانہ نہ تھا۔ عابد علی نے اسے ’عدت‘ وہاں گزارنے پر قائل کیا۔ اب وہ ایک دوسرے سے الگ اور لاتعلق تھے۔ عابدعلی طلاق کے فیصلے پر نادم تھا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ خدیجہ کا کوئی اور ٹھکانہ نہیں ہے۔ لہٰذا اس نے خود کوشش کر کے خدیجہ کو دوسرے نکاح پر راضی کیا اور اسے عبدالرحیم سے بیاہ دیا۔ وہ جب خدیجہ کو سٹیشن سے الوداع کر رہا تھا تو عین اسی وقت زینب گاڑی سے اتری، اس کے ساتھ سلمان بھی تھا۔ وہ اس سے ملی اور گاڑی پر جا سوار ہوئی۔ اب زینب اور سلمان ایک تھے اور دوسری جانب خدیجہ عبدالرحیم کے گھر چلی گئی۔ جبکہ عابد علی ایک چھوٹے پرانے ریلوے سٹیشن پر کھڑے واحد برگد کی طرح تنہا تھا۔
’’سیتا زیب‘‘ کی کہانی سیدھے سبھاؤ آگے بڑھتی ہے۔ اس کا پلاٹ مرتب، مختصر مگر موثر ہے۔ یہ کہانی محبت کے جذبے کی فتح کا قصہ ہے، لیکن اس میں بے رحمی، بے وفائی اور غلط فہمی کی کارستانی بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔

راشد عباسی نے زیب سندھی کے ناول کو اتنی خوب صورتی سے پہاڑی میں ڈھالا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ ترجمہ نہیں اصل تخلیق ہے۔ ترجمہ ایک مشکل عمل اور فن ہے، جس میں تخلیق کو ہو بہو یا اپنے اصل کے قریب رکھنا کوئی کارِ سہل نہیں ہوتا۔ راشد نے یہ مشکل مرحلہ سلیقے سے طے کیا اور سندھی کہانی کو پہاڑی روپ یوں بخشا جیسے پہاڑوں کی شفاف صبح کی چمک ہو۔

راشد عباسی نے ’’سیتا زیب‘‘ کا پہاڑی ترجمہ کر کے جہاں پہاڑی کے قاری کو سندھی ناول کے ذائقے و طریق سے شناسا کیا وہاں ’’پہاڑی زبان‘‘ کی استعداد، لوچ اور ثروت مندی کا بھی کمال اظہار کیا ہے۔ ’’سیتا زینب‘‘ کا پہاڑی ترجمہ پہاڑی ادب اور زبان کے لیے خاصے کی چیز ہے، جس کے لیے ہمیں راشد عباسیؔ کا شکر گزار ہونا پڑے گا کہ بلاشبہ اس نے سجوڑپنے سے ایک بہترین ادبی کام کیا ہے جو ’’پہاڑی‘‘ کے لیے حوالہ کہلائے گا۔ اسی طرح "منتظم” راشد نے بہترین "مترجم” ہونے کا ثبوت یوں دیا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کی تخلیقی شخصیت کا اصل روپ یہی ہے لیکن اصل میں وہ واقعی ہمہ جہت ہے اور اس کی ہر جہت خوبصورت ہے۔

ڈاکٹر محمد صغیر خان ۔۔۔۔  راولاکوٹ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More