نئےسیاسی ٹرائیکا کی کامیابی کا امکان کیا ہے؟

کوہسار نیوز رپورٹ
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور دو سابق وفاقی وزراء مصطفی نواز کھوکھر اور مفتاح اسماعیل اب بھی نئی سیاسی جماعت بنانے کے خیال سے "چھیڑ چھاڑ” کر رہے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ اب وہ پہلے کے مقابلے میں اس حوالے سے زیادہ یکسو دکھائی دیتے ہیں۔
یہ تینوں صاحبان اب بھی اپنے ‘Reimagining Pakistan’ سیمینار منعقد کرنے کے لیے ملک کے طول و عرض کے دورے کر رہے ہیں، جن کا مقصد بظاہر ملک کو درپیش چیلنجوں کی نشاندہی اور ان کے حل پر بحث کرنا ہے۔ تاہم، زیادہ تر سیاسی مبصر اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ سیمینار، کم از کم، یہ اندازہ لگانے کی کوشش ہیں کہ آیا کسی اور نئی پارٹی کی گنجائش اور اس حوالے سے کوئی عوامی دلچسپی موجود ہے۔
یہ بات بھی سیاسی مبصرین کیلئے قابل فہم ہے کہ ابتدائی طور پر یہ تینوں کہتے رہے کہ پارٹی بنانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، لیکن حالیہ واقعات اور میڈیا کی بات چیت نےمصطفٰی نواز کھوکھر اور مفتاح اسماعیل کے لہجے میں تبدیلی دیکھی گئی ہے جو کھل کر یہ کہتے ہیں کہ نئی جماعت کی جگہ موجود ہے اور صرف شاہد خاقان عباسی قدرے تردد کا شکار تھے تاہم حالیہ دنوں میں وہ بھی دو سے زائد مرتبہ نئی جماعت کی اہمیت اجاگر کر چکے ہیں۔
ایک انگریزی اخبار نے اپنے اداریے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ مصطفٰی کھوکھر "تبدیلی” کے لیے اپنی جیب پر زیادہ دباؤ ڈالنے کیلئے تیار نہیں ہیں،تاہم شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل ملک کے امیر ترین سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں، اور ان کی دولت کے ذرائع مکمل طور پر دستاویزی شکل میں ہیں یعنی وہ اس حوالے سے کچھ چھپا نہیں رہے۔اس لحاظ سے وہ نئی پارٹی بنانے کے لیے مضبوط پوزیشن میں ہیں۔
یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ مذکورہ تین میں سے دو رہنما اپنا کوئی باقاعدہ حلقہ انتخاب نہیں رکھتے ، یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ الیکشن کو مسئلے کا حل کیوں نہیں سمجھتے۔کراچی سے تعلق رکھنے والے مفتاح اسماعیل تو کبھی منتخب عہدہ پر فائز نہیں رہے اور مصطفٰی کھوکھر بھی 2018 میں پی پی پی کی جانب سے سینیٹ کے لیے منتخب ہونے سے قبل قومی اسمبلی کے انتخاب میں ہمیشہ ہارتے رہے، حالانکہ ان کے والد حاجی نواز کھوکھر مرحوم اسلام آباد سے رکن قومی اسمبلی اور ڈپٹیاسپیکر رہے ہیں ۔
جہاں تک شاہد خاقان عباسی کا تعلق ہے تو وہ اپنے مری کہوٹہ کے آبائی حلقے کے مضبوط ترین امیدواروں میں سے ایک ہونے کے باوجود، 2018 میں پی ٹی آئی کے صداقت عباسی سے ہار گئے ،جس کے بعد پارٹی قائد میاں نواز شریف نے انہیں لاہور سے ایم این اے منتخب کرایا۔حلقے سے باہر ان کا کوئی خاص اثر و رسوخ نہیں سمجھا جاتا۔
اس بنیاد پر جائزہ لیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ ان تینوں کی مجوزہ پارٹی الیکٹ ایبلز پر کم اور ٹیکنو کریٹس پر زیادہ انحصار کرے گی۔ الیکشن کو مسائل کا حل نہ سمجھنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے۔ فی الوقت ان تینوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ نہیں چاہیں گے کہ پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کے لیے ربڑ سٹیمپ کے ایک اور سیٹ کے طور پر دیکھا جائے۔
ایک حالیہ انٹرویو میں مصطفٰی نواز کھوکھر نے کہا ہے کہ پارٹی کا اعلان اگلے مہینے میں کیا جا سکتا ہے، انہوں نے کہا کہ پارٹی کو اگلے انتخابات میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں، اس پر اب بھی تقسیم موجود ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ‘پارٹی سربراہان’ غالباً طویل مدتی منصوبے پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔
تاہم یہ سوال سیاسی مبصرین کیلئے قابل غور ہے کہ شاہد خاقان عباسی کی سربراہی میں نئے سیاسی ٹرائیکا کی کامیابی کا امکان کیا ہو گا، بالخصوص ایسی صورت حال میں جب تمام تر کشیدگی،دباؤ اور مخدوش سیاسی مستقبل کے باوجود تحریک انصاف کی مقبولیت سے پی پی اور نواز لیگ سمیت دیگر بڑی جماعتیں خائف ہیں، اور خود تحریک انصاف کی کوکھ سے جنم لینے والی دو جماعتیں جہانگیر ترین کی استحکام پاکستان پارٹی اور پرویز خٹک کی پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین اپنے ہونے اور نہ ہونے کے حوالے سے ڈھلمل یقین کا شکار ہیں۔
What is the probability of success of the new political troika?,نئےسیاسی ٹرائیکا کی کامیابی کا امکان کیا ہے؟