top header add
kohsar adart

میری پہلی نمائش

 

اس وقت میں اپنی عمر کے بارہویں سال میں داخل ہو چکا تھا، میری ایک خاص عادت تھی کہ میں اپنی ٹیکسٹ بکس پر تصویریں بناتا رہتا تھا یعنی معاشرتی علوم کی کتاب پہ مضمون کے ساتھ یا اس کے اگے پیچھے جو جگہ بچتی تھی، وہاں سبجیکٹ کے مطابق تصویر بنا دیتا تھا.

میرے کلاس فیلوز کو یہ اچھا لگتا تھا اور بہت سارے استاد بھی اس چیز کا برا نہیں مناتے تھے کیونکہ میں سبجیکٹو رہتا تھا. ایک دوپہر میں اسی طرح اپنی ایک ٹیکسٹ بک پہ تصویریں بنا رہا تھا تو وہاں سے ایک ایسے شخص کا گزر ہوا جو کہ خاندان میں ایک ناپسندیدہ شخصیت سمجھا جاتا تھا اور وہ اپنے موڈ کے مطابق بچوں کو اور خاص طور پر جوان لڑکیوں کو ڈانٹتارہتا تھا اور بعض اوقات تھپڑ بھی رسید کر دیتا تھا. جب اس نے دیکھا کہ میں اپنی ٹیکسٹ بک پہ تصویریں بنا رہا ہوں تو اس کو بہت برا لگا اس نے حسب عادت مجھے بھی ایک عدد تھپڑ رسید کر دیا.

اس وقت مجھے بہت برا لگا اور اس شخص کے جانے کے بعد میری آانکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور میں نے اس کو بہت کوسا، ہمارے گھر کے صحن میں  شیشم کا ایک بہت بڑا درخت تھا،میں اس پہ چڑھ گیا اور اس تھپڑ کے درد کو کم کرنے کے لیے ادھر ادھر جھانکنا شروع کر دیا. مجھے نیچے مٹی کے چولہے میں بہت سارے کوئلے نظر آئے. میں فورا درخت سے نیچے اترا اور ان کوئلوں سے میں نے اپنے گھر کی پچھلے والے دروازے کے بالکل سامنے دیوار پہ ان کوئلوں سے اس شخص کی تصویر بنانی شروع کر دی اور اپنے تخیل کو استعمال کرتے ہوئے اس کریکٹر کا” کریکیچر” بنانا شروع کر دیا.

اس کی بیسک ڈرائنگ کر کے میں نے اس کے اوپر ایک بالٹی پانی پھینکا تو وہ کوئلہ اس سیمنٹڈ وال میں جذب ہو گیا، پھر اس کے بعد سفید چاک سے اس کے بڑے بڑے دانت بنائے جو واقعی میں ضرورت سے زیادہ بڑے تھے. اس کے سر کے بال نہیں تھے یعنی گنجا تھا جس کی وجہ سے وہ ہر وقت اپنے سر پہ سفید پگڑی باندھ کے رکھتا تھا اور ہر وقت کلف والے کپڑے پہنے رکھتا تھا جیسے اس گھر کا وہ چوہدری ہے. اس طرح کے "چوہدری”جوائنٹ فیملی سسٹم میں عام طور پہ اس زمانے میں پائے جاتے تھے جو کہ زیادہ تر خاندان کے بچوں اور جوان لڑکیوں پہ خواہ مخواہ اپنی چودھراہٹ جمانے کے لیے ان کو ڈانٹنا تھپڑ مارنا اور ہر وقت غصے میں رہنا ان کی عادات میں شامل تھا. ایسے لوگوں کے بارے میں عام طور پہ کہا جاتا ہے "کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے”خیر ڈرائنگ کو فائنل کرنے کے لیے میں نے کوئلے کا اور استعمال کیا اور جہاں جہاں سفید چاک کی ضرورت تھی اس کو استعمال کیا.

اس کی انکھوں اور دانتوں پہ سفید چاک کا استعمال کیا… تو جناب یہ تھی میری پہلی کیریکٹر ڈرائنگ جس کا سائز کم از کم دو بائی ڈیڑھ فٹ تھا چونکہ ڈرائنگ بناتے وقت میں نے اس کے اوپر پانی پھینک کے دوبارہ کام کیا تھا تو وہ کوئلہ اور چاک اس سیمنٹڈ وال کے اندر جذب ہو گئے ان دنوں ہمارے گھر کا صحن بہت بڑا تھا شام کو محلے کے بچے وہاں کھیلا کرتے تھے اور عام طور پہ ہم سب بچے مل کر کرکٹ کھیلتے تھے اور کم از کم 10، 15 بچے تو ضرور ہوا کرتے تھے. جیسے ہی شام ہوئی ہمارے گھر کا پچھلا دروازہ کھل گیا اور بچوں نے انا شروع کر دیا سب بچے کرکٹ بھول گئے. سب سے پہلے انہوں نے اس ظالم شخص کا کیری کیچر دیکھا اور اس کے بعد سب بچے باری باریآ کے اس ڈرائنگ کے سامنے کھڑے ہوتے گئے. اس ڈرائنگ نے پورے محلے میں دھوم مچا دی اور بچے دیگر بچوں کو بھی دعوت دینے لگے کہ اپ بھی آؤ اور دیکھو کہ بلو بھائی نے اس ظالم شخص کا کارٹون بنایا ہے.

یہ خبر پورے محلے میں پھیل گئی اور جس نے نہیں بھی انا تھا وہ بچے اور بوڑھے جوان سب پہنچنا شروع ہو گئے کہ دیکھتے ہیں کہ اج کسی ارٹسٹ نے اس دیوار پر کیا شاندار کارٹون بنایا ہے اور اس کارٹون میں بہت ظالم شخص پہچانا بھی جا رہا تھا، اتنے میں وہ شخص بھی پہنچ گیا اور اپنا کارٹون دیکھ کر آگ بگولا ہو گیا.اس نے اپنے نوکر کو ساتھ لاکر کے اس کارٹون کو مٹانے کے لیے کہا لیکن وہاں پہ 20 25 بچے جمع ہو چکے تھے سب بچے اس کے نوکر کے پیچھے پڑ گئے اور اس کو وہاں سے بھگا دیا اور وہ ظالم شخص بھی بچوں کا شور سن کے وہاں سے بھاگ نکلا. اتنے میں کچھ اور بڑے بھی اس ڈرائنگ کے سامنے اگئے اور وجہ پوچھی کہ یہ بلو بھائی نے اس کا کارٹون کیوں بنایا ہے اور وہ خود کہاں ہے میں چونکہ درخت پہ چڑھا ہوا تھا اور میں نے وہیں سے آواز لگا کے کہا کہ اس ظالم انسان نے مجھے تھپڑ مارا ہے، جس کی وجہ سے میں نے اس کا کارٹون بنایا ہے تاکہ اس کو سبق سکھایا جا سکے.

دیکھتے ہی دیکھتے بے شمار لوگوں کا ہجوم جمع ہو گیا اور بہت سارے لوگ اس واردات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرنے لگے اور بزرگوں میں کچھ ایسے بزرگ بھی تھے جنہوں نے اس ظالم شخص کے خلاف فیصلہ سنایا کہ اس نے بلو بھائی کو تھپڑ کیوں مارا اور پھر مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ اب یہ آپ کو نہیں مارے گا، آپ نیچے اتر ائیں، لیکن میں نے وہاں سے چیخ و پکار کرتے ہوئے کہا کہ اس ظالم شخص کو پہلے یہاں بلائیں اور اس کو قسم دیں کہ یہ شخص دوبارہ ایسی گندی حرکت نہیں کرے گا. کچھ خاندان کے بڑے بوڑھے اس ظالم شخص کو ڈھونڈ کر لائے اور اس درخت کے نیچے لا کر اس کو بٹھا کر منع کیا گیا کہ وہ ائندہ کسی بچے کو یا کسی لڑکی کو یا کسی کو بھی کسی قسم کی کوئی تھپڑ بازی نہیں کرے گا نہ ہی کوئی بدتمیزی کرے گا تو وہاں پر موجود ہر بچے نے تالیاں بجا کے بڑے بوڑھے بزرگوں کے فیصلے کا خیر مقدم کیا اس پروٹیسٹ کے بعد اس شخص نے پھر کبھی بھی کسی پہ ہاتھ نہیں اٹھایا۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More