kohsar adart

میاں للن کاش تم ایسے نہ ہوتے 

میاں للن کاش تم ایسے نہ ہوتے
میاں للن! امروہے کی گلیوں میں کوئلے سے ہاتھ کالے کرنے سے قسمت نہیں بدلے گی۔ قسمت بدلنی ہے تو پاکستان جاؤ۔ نیا ملک ہے۔ ماڈرن بھی ہے۔ قدر کرنے والے لوگ ہیں۔ دیکھو صادقین بھی چلے گئے۔ بھائی رئیس کا خاندان بھی وہیں جا بسا۔ یہاں کچھ نہیں دھرا۔
اندر کی آواز تھی یا قسمت کی پکار ۔ یہ لڑکا جس کا نام اقبال تھا ، دن رات کوئلے سے درو دیوار پر نقاشی کیا کرتا تھا، نئے ملک بھاگ جانے کے خواب دیکھا کرتا تھا مگر عمر کم تھی اور وسائل نہ ہونے کے برابر۔ مگر خواب بڑے ہوں تو پنکھ آگ ہی آتے ہیں۔ اسے بھی اڑنے سے کوئی روک نہ سکا۔
کراچی آنے کے کچھ ہی عرصے بعد للن میاں اقبال مہدی کے نام سے مشہور ہو گئے اور چار اور ان کا طوطی بولنے لگا۔ برسوں تک شکیل عادل زادہ کے سب رنگ میں وہ نقش گری کی کہ اس کی کھینچی لکیروں کا توڑ برس ہا برس گزرنے کے بعد بھی کوئی نہ نکال سکا۔ آرٹ کے آسمان پر یہ شخص تن تنہا چمکتا رہا۔ لوگوں نے اس کی چمک ماند کرنے کے لئے بڑے پاپڑ بیلے مگر ناکام رہے۔ ایسے میں ایک ہی شخص تھا جو اسے نیچے گرا سکتا تھا اور وہ تھا خود اقبال مہدی۔۔۔۔۔۔۔
نارتھ ناظم آباد بلاک آئی کا مکان تھا۔ گراؤنڈ فلور پر اسٹوڈیو اور پہلی منزل پر رہائش۔ صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک یہاں خوب رونق ہوا کرتی تھی۔ پین اینڈ انک والے کمرے میں بیک وقت تین سے چار شاگرد کام کر رہے ہوتے تھے ۔ لاؤنج اور ڈرائنگ ڈائینگ کمروں کی دیواریں ختم کر کے بڑے ہال میں تبدیل کر دیا گیا تھا جہاں آئل پینٹنگ کے کئی ایزل دھرے ہوتے تھے اور اقبال بھائی سمیت ہم سب کام میں مگن ہوتے۔ یہ کراچی کا واحد انسٹیٹیوٹ تھا جہاں پینٹنگ سیکھنے کے پیسے ملتے تھے۔ اقبال مہدی پر الزام تھا کہ وہ شاگردوں سے کام کرواتے ہیں۔ درست تھا۔ مگر پاکستان میں اور کون مصور ایسا تھا جو الف سے لے کر یے تک سب کچھ سکھا دے۔ کینوس کی تیاری سے لے کر ، انک بنانے کے مرحلے، پینٹنگ کی لئرز اور پھر فنشنگ۔ اتنا ہی نہیں یہاں گفتگو کا ہنر بھی سکھایا جاتا تھا۔ یہاں آنے والے بڑے بڑے لوگوں سے بھی ملوایا جاتا تھا۔ کتابیں بھی فراہم کی جاتی تھیں۔ پبلک ریلیشننگ بھی سکھائی جاتی تھی ۔ یعنی درخت پر چڑھنا سکھا دیا جاتا تھا۔ اب یہ سیکھنے والے کی استطاعت کہ کتنا سمیٹ لے۔
آج جب میں دنیا کے کنٹمپریری مصوروں کو دیکھتی ہوں جو اپنے کئی منزلہ اسٹوڈیو میں لوگوں سے کام کرواتے ہیں اور پھر بڑی بڑی نمائشوں میں وہ سارا کام اپنے نام سے ڈسپلے کرتے ہیں تو مجھے ناظم آباد کا وہ گھر یاد آتا ہے۔ اگر یقین نہیں آتا تو جاپانی مصور تاکاشی مورا کامی کو گوگل کریں یا پھر دور نہ جائیں۔ پڑوس کے سبود گپتا کے انٹرویوز یو ٹیوب پر دیکھ لیں۔
خیر یہ تو جملہء معترضہ تھا۔ اقبال مہدی نے کبھی کسی ادارے سے تربیت حاصل نہیں کی ۔ مگر یورپین آرٹ پر ان کی گہری نظر تھی۔ ان کا میدان پورٹریٹ اور رئل اسٹک فگریتو پینٹنگ تھا۔ پورٹریٹ میں انہیں ریمبراں بہت متاثر کرتا تھا اور وہ اسے اسٹڈی کیا کرتے تھے۔
اس دور میں پاکستان میں شاکر علی اور علی امام ماڈرن آرٹ کو پروموٹ کر رہے تھے۔ کلاسیکل آرٹ کو آرٹ ہی نہیں مانا جاتا تھا اور ماڈرن آرٹ کی ہوا سی چل پڑی تھی۔ ایسے میں ایک ہی شخص تھا جو رئل اسٹک پورٹریٹ کر رہا تھا اور بغیر کسی سہارے اور سپورٹ کے اپنی جگہ بنا رہا تھا۔ ملک میں آرٹ گیلریز نہیں تھیں مگر اقبال مہدی کے پاس کام کا اتنا رش ہوتا تھا کہ اسے سر کھجانے کی فرصت بھی نہ ملتی تھی۔ فوجی ، سفارت کار، ادیب، فنکار کون تھا جو اس اسٹوڈیو میں اپنے پورٹریٹ کی خواہش لئے نہ آیا ہو۔ لوگ منہ مانگے دام دینے کے لئے تیار ہوتے تھے۔
اقبال بھائی آپنی پینٹنگز کے لئے فوٹو گرافی خود کیا کرتے تھے۔ وہ بے تحاشا تصویریں کھینچا کرتے تھے۔ ایک دن کہنے لگے کہ میں اپنی مونا لیزا کی تلاش میں ہوں۔ مگر افسوس کہ ان کی تلاش ادھورہ رہ گئی۔ وہ اتنے بہت سارے معاملات ساتھ لے کر چل رہے تھے کہ سنبھال نہیں پائے۔ انہی معاملات میں سے ایک ان کی ذیابیطس کی بیماری تھی جس نے بہت تیزی سے ان کی صحت برباد کی۔ شاگردوں کے ساتھ ان کی دیانت داری کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے مگرخود ان کے ساتھ وہ رویہ نہیں برتا گیا۔ ان کے جانے کے بعد اقبال مہدی کے نام سے اتنا کام مارکیٹ میں آیا کہ اصل اور نقل کا فرق ہی مٹ گیا اور کیوں نہ مٹتا کہ انہوں نے تو درخت پر چڑھنا سکھا دیا تھا۔ کاش وہ ایسا نہ کرتے۔
لکھنے کو بہت کچھ ہے مگر ابھی بس اس بات پر ختم کرتی ہوں کہ اقبال مہدی ایک شخص نہیں تھا۔ وہ ایک ادارہ تھا اور اس ادارے سے نکلے ہوئے مصور آج بھی پاکستان آرٹ ویو میں نمایا ترین ہیں۔ آج بھی کوئی ایک شخص ایسا نہیں جو اقبال مہدی کے نام کو ٹکر دے سکے۔
۱۹ مئی
تاریخ وفات اقبال مہدی
تحریر : شائستہ مومن

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More