top header add
kohsar adart

مہنگائی اور بجلی کے بلوں کے ظالمانہ نظام کے خلاف عوام سراپا احتجاج

یکم جولائی کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان

آئی ایم ایف کی بھیک اور منصوبوں پر چلتے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ گیس اور بجلی کے بلوں کے ذریعے ظلم، استحصال اور لوٹ کھسوٹ کا وہ نظام وضع کیا گیا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے

200 یونٹ اور 201 یونٹ کا فرق 5000 روپیہ۔۔ اور پھر اگلے 6 مہینے تک صارف کو اس جرم کی سزا ملے گی کہ اس نے 200 سے زاید یونٹس کیوں استعمال کیے تھے، چاہے وہ اگلے چھ مہینوں میں سو یونٹس ہی کیوں نہ استعمال کرے۔

عوام کو اس ظلم و استحصال سے نجات دلانا عدالت عالیہ کی ذمہ داری ہے لیکن جج صاحبان کی ترجیح اپنی مراعات کو بہ ہر صورت برقرار رکھوانا ہے۔ اس لیے چھوٹے چھوٹے غیر اہم مسئلوں پر سوموٹو لینے والے جج صاحبان نے کبھی اس ظلم و استحصال کے نظام کے خلاف سوموٹو لینا تو دور کی بات ہے ایک جملہ کہنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی۔

انتخابات سے پہلے عوام کو سبز باغ دکھائے گئے کہ دو سو اور کہیں تین سو یونٹ تک بجلی مفت فراہم کی جائے گی لیکن جب حکومت (سٹیٹس کو کو برقرار رکھنے کے لیے) انتخابات میں اکثریت نہ حاصل کرنے کے باوجود دے دی گئی تو عوام کو ریلیف دینے کے بجائے ان کے منہ سے نوالہ تک چھین لیا گیا اور بلوں کے ظالمانہ نظام کو حرام خوری کا ذریعہ بنا دیا گیا۔

عوام ظلم، استحصال اور مہنگائی کی چکی میں پس کر رہ گئے ہیں۔  جب کہ اشرافیہ اپنی مراعات میں دن بہ دن اضافہ کر رہی ہے اور آئی ایم ایف کے سہولت کار ہونے کی وجہ سے آئی ایم ایف اس ظلم و بربریت پر اعتراض بھی نہیں کرتی جب کہ عوام کو ملنے والی ہر سبسڈی کو حکومت نے آئی ایم ایف کے دباؤ پر ختم کر دیا ہے۔ عوام سب کچھ لٹا کر اب ہوش میں آ رہے ہیں

 

عوام دیر سے سہی لیکن جاگ رہی ہے۔ احتجاج زور پکڑتا جا رہا ہے۔  حکومت وقت کو چاہیے کہ موقع کی نزاکت کو ملحوظ خاطر رکھے اور بلوں کے ظالمانہ نظام کی اصلاح کرے۔ یکم جولائی کو عوام نے ملک گیر ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے۔ جب لیڈرشپ نہ ہو ہجوم کو پرامن اور منظم رکھنا دشوار ہوتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر اصلاح احوال کے لیے کوشش کرے۔

راشد عباسی 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More