kohsar adart

مِسکین پہاجی ۔۔۔۔۔۔ جمیل الرحمن عباسی

پہاجی پہ پہاجی اٹھتے جا رہے ہیں اور یہ ’’پاجی‘‘ جنازہ کھاٹ کو کندھا دینے زندہ ہے۔ نسیم پہاجی کا ’’چالیہ‘‘(چہلم) بھی نہیں گزرا کہ کل یعنی 2 مارچ ۳۲۹۱ ء کو ہمارے بڑے تایا زاد مِسکین پہاجی گزر گئے۔ اِن کے انتقال سے موت کا پلڑا بھاری ہو گیا۔ شام کو ہمارے بچے بتا رہے تھے کہ آپ تئیس (23) دادے پوتوں (فرسٹ کزنز) میں سے 12 اگلے جہان سدھار چکے اور اس دنیا میں 11 باقی بچے ہیں۔ باقی بچنے والے یہ سن کر قدرے مطمئن ہوئے کہ ان کا شمار باقیوں میں ہوتا ہے حالاں کہ پتا بھی ہے کہ یہاں الباقی کے سوا کوئی باقی رہنے والا نہیں ہے:
جو زندہ ہے موت کا درد سہے گا
جب احمد ِمرسل نہ رہے کون رہے گا
نام ان کا مِسکین تھا لیکن سب لوگ انھیں مُسکین کہا کرتے تھے تو دونوں ناموں کے ساتھ وہ اسم بامسمٰی تھے۔ یعنی ایک تو عجز و انکسار کا پیکر تھے اور اوپر سے اکثر مُسکان بکھیر ا کرتے تھے۔پیشے کے لحاظ سے ڈرائیور تھے اور عرصہ دراز سے اپنا لوڈنگ ٹرک چلا رہے تھے۔ پوری زندگی محنت و مشقت میں گزاری۔ البتہ ان کے چھوٹے صاحبزادے عزیزم احسن مسکین نے ڈرائیور بن کر اپنے والد کو ٹرک کے بوجھ سے چھٹکارا دلایا اور پورا کام خود سنبھال لیا۔مِسکین بھائی کبھی کبھار بیٹے کو چھٹی دینے کے لیے ٹرک پہ چلے جاتے ورنہ چند سالوں سے زیادہ تر گھر پہ رہا کرتے تھے۔
سفر در سفر کے سبب یہ سمجھا جاتا ہے کہ ڈرائیور حضرات سے نماز روزے کی پابندی کرنا مشکل ہے۔ اگرچہ تبلیغی جماعت کی محنت کی وجہ سے اس صورت حال میں بھی بہت کچھ تبدیلی آ چکی ہے لیکن مسکین بھائی شروع ہی سے نماز روزے کے پابند تھے۔ سنہ 1995 یا اس کے آس پاس مجھے کچھ عرصہ ان کی کنڈکٹری کرنے کا موقع ملا تو نہ صرف یہ کہ وہ خود نماز روزے کی پابندی کرتے بلکہ اس بندہ گناہ گار کو بھی اس پر ’’مجبور ‘‘ کرتے۔مسکین بھائی کی ایک خوبی جو آج کے دور میں نایاب ہے وہ صلہ رحمی اور تعلق کو نبھانا تھی۔ خاندانی رقابتوں میں اکثر اوقات نیوٹرل رہتے۔ کبھی کسی سے ناراض نہ ہوتے اور اگر کبھی کچھ اونچ نیچ ہو بھی جاتی تو صلح میں پہل کرنے والے تھے۔ اس لحاظ سے وہ واقعی مِسکین تھے۔
میری جوانی کا دور ’’لسی مکئی ساگ‘‘والا تھا اور ہمارے اور مسکین بھائی کے گھروں میں ان’’متبرک اشیا‘‘ کا تبادلہ جاری رہتا تھا۔ کبھی ہم ان کے گھر لسی پہنچانے جاتے اور کبھی ان کے بچے اسد اور احسن، لسی کی گڑوی اور ساگ کا کٹورا لیے وارد ہوتے۔ جب تک ٹیلی فون نہیں تھا تو ’’ آلہ ‘‘ مار کر (یعنی زور سے پکار کر ) ہم ایک دوسرے سے یہ چیزیں مانگ لیا کرتے تھے۔ بعد میں پی ٹی سی ایل کی لینڈ لائن لگ گئی تو فون کال پر یہ مطالبہ سامان جاری رہا اور پھر موبائل فون آ گیا اب رابطہ اور بھی آسان ہوا لیکن اس کم بخت موبائل نے ہمیں لسی چٹنی مکھن مَک (لسی چٹنی اور مکھن کے ساتھ مکئی کی روٹی) سے محروم اور رشتے داروں سے دور کر دیا۔ اب ملتے ہیں تو کبھی کبھی اور ایک دوسرے کے گھر جائیں بھی ’’لسی چٹنی مکھن مَک‘‘کے بجائے مکرونی اور پیپسی سے لطف اندوز ہوتے ہیں اگرچہ اس میں لطف نام کو نہیں ہوتا۔مسکین پہاجی کافی عرصے سے عارضہ قلب میں مبتلا تھے لیکن اس کے باوجود چڑھائی اترائی کے رستوں سے گھبرایا نہیں کرتے تھے۔ ہمارے ان کے گھر کے درمیان ایک بڑا نالہ ’’ کَس‘‘ واقع ہے جبکہ راستہ بھی مشکل اور جھاڑی دار ہے اور جنگلی جانوروں کا خطرہ بھی رہتا ہے لیکن کبھی کبھار ہمارے محلے میں آتے تو مغرب کے وقت یا اس کے بعد ہاتھ میں ’’چھوئی‘‘ یعنی لمبی دستی والی چھوٹی کلہاڑی پکڑے بے خوف و خطر روانہ ہو جاتے۔کھیتی باڑی اور پھلدار پودے لگانے کا شوق ہم دونوں میں مشترک تھا۔لیکن وہ محنتی زیادہ تھے۔ اس حوالے سے اکثر ہم میں تبادلہ خیال ہوتا رہتا۔ کچھ دن پہلے جب میں پھلدار پودے خریدنے ترناب نرسری فارم گیا تو ان سے فون پر بات ہوئی کہنے لگے کہ میں گاڑی پر آیا ہوں واپس آؤں گا تو پھر پودے لگاؤں گا اور اپنے کالے املوک کے پودوں پر تم سے جاپانی پھل کی پیوند بھی لگواؤں گا۔ بقول ان کے صاحبزادے کے انتقال سے ایک دن پہلے بھی جاپانی پھل کی قلموں کا ذکر کر رہے تھے۔آپ معرف معنوں میں ’’تبلیغی‘‘ نہیں بلکہ ’’ختم خیرات‘‘ والے تھے لیکن دینی جذبہ ان کا سچا تھا۔ زندگی کے آخری دنوں میں اپنے چھوٹے بیٹے احسن کو تبلیغی جماعت کے ساتھ چلّے پر روانہ کیا اور خود ٹرک کے ساتھ روانہ ہو گئے۔احسن کا کہنا ہے کہ اس دوران جب فون پر ہماری بات ہوتی اور میں کارو بار یا ان کی صحت کے بارے میں کوئی بات کرتا تو مجھے چپ کر ا دیتے اور کہتے ’’تم جس مقصد کے لیے نکلے ہو اس پر توجہ دو کاروبار اور میری صحت کی پروا مت کرو‘‘عزیزم احسن کے چلّہ ختم ہونے کے دو دن بعد جب مسکین بھائی لاہور میں تھے تو انھیں دل کے تیسرے دورے نے آ لیا۔ ساتھی ڈرائیور سے گولی نکلوا کر کھائی، بہ آواز بلند کلمہ طیبہ پڑھا جس کے ساتھ روح پرواز کر گئی۔ مرحوم کے دو بیٹے اور د و بیٹیاں ہیں اور چاروں شادی شدہ ہیں۔آپ کے دونوں بیٹے، اسد مسکین اور احسن مسکین، خوش مزاج اور ہنس مکھ و زندہ دل جوان ہیں۔ خاص طور پر جب میں نے احسن مسکین سے گفت و شنید کی تو اس کی دینی سوچ اور جذبے سے بہت متاثر ہوا اور یہاں بھی مسکین بھائی کی حکمت کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکا کہ بیٹے کو دین کی راہ پر لگا کر نہ صرف اپنی نسلیں بلکہ آخرت بھی سنوار گئے۔ ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی غلطیوں کوتاہیوں سے درگزر فرمائے اور ان کی حسنات کو اعلی درجے میں قبول فرما کر
انھیں غریق رحمت کرے اور اس زُمرہ مساکین میں شامل فرمائے جس کے ساتھ حشر کی دعا نبی کریم ﷺ بھی مانگا کرتے تھے۔

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More