من تو شدم ۔۔۔ افسانہ۔۔ حنا عنبریں

سندری کمرے میں اندھیرا کیے صبح سے پڑی تھی ، شام کے ساۓ گہرے ہورہے تھے سیٹھ کنہیا لال کے آنے کا وقت ہو رہا تھا پر اسے کوئی پروا نہیں تھی ۔

سندری کے حسن کی چکا چوند کے آگے وہ بڑی توند والا لمبی مونچھوں والا ماند پڑ جاتا تھا ،

ہر وقت خوابوں کی دنیا میں رہنے والی نازک سی سندری کو جب پِتا جی نے بڑے قرض کے عوض کنہیا لال کو فروخت کردیا تو اس کے اشکوں کے بند ٹوٹ گئے ! اس نے بڑی یونیورسٹی کی مادام مس لیلی وتی کی ساڑھی کی تہوں کے سلیقے سے جماۓ ہوۓ بل تک گن کر یاد کر رکھے تھے اور ان کی عینک سےجھانکتی سرخی مائل آنکھیں ، بالوں کا پن سے کور کیا ہوا سائیڈ پف ، لیلی وتی کی چال اور بے نیازانہ انداز اس کے دل میں بسے تھے۔ اس نے تو بڑی ہو کے ان جیسا بننا تھا لمبی موٹر کار پر شہر پڑھنے جانا تھا ، دو دن تو اس نے چپکے چپکے رو کر خاموش احتجاج کیا پر تیسرے دن بے حسی کی چادر اوڑھ کر کنہیا لال کے ہمراہ سفید بگھی میں لال حویلی کی طرف روانہ ہوگئ ۔

کنہیا لال اس سے لیے دیے رہتا ۔ اسے کچھ بھی چاہیے ہوتا جھٹ پٹ میں لا دیتا ۔ ہر وقت کتابوں میں گھسا رہتا ، اس کی آرام کرسی جس کی چیں چیں کی آواز ماحول کو اور بھی وحشت ناک بناۓ رکھتی ، کتاب سینے پہ الٹی پڑی ہوتی, بازو کرسی سے نیچے جھول جاتا اور وہ نجانے کب سو جاتا ، بیٹھک میں جرگہ کا سر پنچ ہونے کے ناطے فیصلے کے منتظر لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ، سفید کرتا تہبند اور سر پر سفید کپڑے کی بل والی ٹوپی پہنتا ،

اپنے حکم کی ایک بھی خلاف ورزی ہونے پر ایسا دھاڑتا کہ حویلی کے درودیوار لرزنے لگتے ، حویلی کے چاروں دروازوں پر بڑے بڑے تالے نصب تھے۔ دروازوں پر باوردی نگہبان مقرر تھے ، کنہیا کی اجازت کے بغیر وہاں چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی تھی ، "بڑی بے چینی ہے سْرگی ! وہ رسوئی میں مصالحے پیستی دبلی پتلی سُرگی سے کہتی ، اور سُرگی دکھ بھری نگاہوں سے اسے یوں دیکھتی کہ اس کی آنکھوں کے سیاہ حلقے اور بھی نمایاں ہو جاتے ، یہ سچ تھا کہ بیاہ کے وقت اس کی عمر سفید گھوڑے پہ پہاڑوں کے سبزہ زار سے آنے والے شہزادے کے خواب دیکھنے کی نہیں تھی ۔

نہ جانے اس دن اسے یہ خیال کیوں آیا کہ اگر اسے محبت ہوتی توکس طرح کے شخص سے ہوتی ، اچانک اس کے دماغ میں کوندا لپکا ، وہ بالکل برجو جیسا ہوتا برجو لمبے قد کا بھرے بھرے ہاتھوں والا بڑا مہذب نوجوان تھا جو اکثر اسے دیکھ کر ٹھٹھک کر رہ جایا کرتا تھا پتلون شرٹ پہنتا اور گلے میں مفلر تہہ کر کے لگاتا ، شام ملگجی ہو چکی تھی وہ دھندلائی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی کہ کنہیا لال آیا ہے پر اچانک اس نے برجو کی شکل اختیار کرلی ہے وہ اٹھ کر بیٹھ گئ اور مسکرا کر اسے دیکھنے لگی” تم کب آئے؟ وہ اچک اچک کنہیا کے کندھے کے عقب سے جھانکتا اور چھپتا جاتا تھا اور وہ مسکراۓ چلی جارہی تھی ، پھر تو یہ سلسلہ ہی چل نکلا

رسوئی میں سالن پکاتے ہوئے ، نہا کے بال سکھاتے ہوئے ، گہرے بادلوں کے دن ، چاندنی راتوں میں ، بہار میں باغیچے میں کِھلتی چنبیلی کی خوشبو میں ، ہر چہرے میں ، صبح میں شام میں ، ہر شے میں اسے برجو کا عکس نظر آتا ، کنہیا اس کے بدلتے رویے کو دیکھ کر ششدر رہ جاتا ، اس دن اس نے نہا کر مس لیلی وتی جیسی ہلکے سرمئ بادلوں جیسے بلاؤز کے ساتھ نیل رنگی ساڑھی پہنی۔ لمبے بال کھلے چھوڑ کر ماتھے پہ چندن کی چٹکی دھری ، گل ِ یاسمین کی خوشبو لگائی جو کنہیا سے اس نےخاص فرمائش کرکے بِہار سے منگوائی تھی جس نے اس کے تن من کو مہکا دیا ، اسے لگا اس کے پیچھے برجو کھڑا اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں سراہ رہا ہے ، اس کی سوچ کو تو جیسے پر لگ گۓ ،

کیسریا بالماں ۔۔۔۔ پدھارو مارے دیس رے !!!!!! ،،،،،،،،، ساجن ہم تم ایک ہیں بس کہنن سنن کو دو ، ساجن پھول گلاب رو ، سونگھوں گھڑی گھڑی ، جھومتی جاتی تھی، ناچتی جاتی تھی برجو اس کے سنگ گھومتا جاتا تھا ، لہکتی جاتی تھی مہکتی جاتی تھی ، بر آمدے سے چھن چھن کر آتی بارش کی بوندیں، سوندی مٹی کی مہک نے اسے اور بھی خوابیدہ بنادیا تھا ۔ کنہیا لال نے برجو کا ” پرتو ” اختیار کرلیا تھا ، نہ اسے اس کی دھاڑ سنائی دے رہی تھی نہ کتابوں میں گھسے رہنا وحشت میں مبتلا کررہا تھا ، نہ حویلی کی تنہائی کاٹ کھانے کو دوڑ رہی تھی ، نہ آرام کرسی پر دھنسا کنہیا کا وجود ہولا رہا تھا نہ کرسی پر جھولتا اس کا تنومند بازو دکھائی دے رہا تھا نہ کرسی کی چیں چیں سنائی دے رہی تھی ! کنہیا تو کہیں تھا ہی نہیں ، ہر طرف برجو ہی برجو تھا ۔

ایک تبصرہ چھوڑ دو