ممتاز غزنیؔ کی نئی پہاڑی کتاب ’’تہخنے آڑے‘‘
ممتاز غزنیؔ کے ’’تہخنے آڑے‘‘
ایک دفعہ ملا نصرالدین اپنے گاؤں میں قاضی مقرر ہوئے تو کچھ دن بعد ایک آدمی ہانپتا کانپتا آن عدالت پہنچا اور دہائی دینے لگا ’’ملا میں فلاں علاقے کا باسی ہوں، میں سفر پر تھا کہ آپ کے گاؤں کے باہر مجھے لوٹ لیا گیا۔ ڈاکو میرا سب کچھ لے گئے ہیں‘‘۔
ملا نے اس کی پوری بات سنی اور پھر اس کا معائنہ کیا۔ ملا نے پوچھا ’’ڈاکو کتنے تھے‘‘؟ اس نے کہا ’’ایک ہی شخص تھا جو مسلح تھا اس نے گن پوائنٹ پر میرا سب کچھ لے لیا‘‘۔ ’’کیا اس نے تمہاری بنیان نہیں اتاری‘‘؟ ملا نے پوچھا۔ سائل بولا ’’نہیں‘‘… اب ملا نے پورے یقین سے کہا ’’وہ ڈاکو ہمارے گاؤں کا نہیں ہو سکتا، کیونکہ ہمارے ہاں ادھورے کام نہیں کیے جاتے‘‘۔
صاحبو! اگرچہ کہتے ہوئے کہ وہ ہمارے علاقے کا ہی ہے لیکن جب سے میں نے اسے دیکھا، اس کی وضع قطع، جول ٹور، اس کا اخلاق، اس کا علم حلم اور پھر اس کا ’’قلم‘‘ دیکھ کر جانے کیوں مجھے پکا یقین ہے کہ وہ ہمارے علاقے کا ہے ہی نہیں۔ اس کی مٹی اگر کاہنڈی کی ہوئی تو اس میں تلخی سختی و ترشی ہوتی۔ وہ راکٹ لانچر نہ سہی، کلاشنکوف یا سیون ایم ایم اٹھائے پھرتا، لیکن وہ نرم خو شخص ہاتھ میں ڈالر بلکہ اس سے بھی سستا قلم اٹھائے دن رات تلخی عمل میں جتا رہتا ہے، جبکہ اس کے اکثر گرائیں جیبوں میں ڈالر بھرے ’’تفتیشی‘‘ کاموں میں جتے ہوئے ہیں۔ اس کے ہمہ جہت تخلیقی کاموں کو دیکھتا ہوں تو مجھے ’’راولاکوٹی ماسیر‘‘ یاد آ جاتے ہیں۔ میں راولاکوٹی ماسیروں کا قتیل ہوں اور قائل و گھائل بھی لیکن باوجود شدید کوشش و خواہش ان کے سانچے ڈھانچے میں مکمل ڈھل نہیں سکا۔ شاید وہ نئے زمانے کے پراڈکٹ ہیں اور میں گئے وقتوں کی از کار رفتہ چیز، سو پرانی ڈاج، فارچون کیسے بن سکتی ہے۔ راولاکوٹی ماسیروں کی بات آتی ہے تو ان کی مخصوص ’’زبان‘‘ بھی میری سماعتوں سے ٹکرانے لگی۔ ماسیروں کی زبان بڑی اوکھی انوکھی، سوادلی رسیلی ہوتی ہے۔ وہ دیگر کئی چیزوں کی طرح زبان، لسان کے معاملے میں بھی مہان بلکہ مسان ہیں۔ خوبصورت اصطلاحات، ٹھہرا ہوا لہجہ، وکھرا اسٹائل اور پھر یہ سب مل کر جو مزے کی ریسپی بنتی ہے نہ پوچھئے اس کا رنگ ڈھنگ…
راولاکوٹی ماسیر ایک لفظ عموماً برتتے ہیں… ’’لم کھڈنا‘‘ ان کے یہ الفاظ تمبر کے سوٹے‘‘ کی طرح کچھ عرصہ پہلے بہت مشہور ہوئے۔ میں ان کی زبان میں ممتاز غزنی کے مسلسل اور قنوع تخلیقی کام کو دیکھوں تو بے ساختہ کہنے کو جی کرتا ہے کہ ممتاز غزنی تخلیقی ’’لم کھڈی‘‘ گئے۔
ممتاز غزنی کی تخلیقی محنت کی سرعت کو دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ اس کا دن بہت لمبا ہوتا ہے۔ یہاں مجھے یاد آیا کہ ایک شخص جو شراب کا عادی تھا ڈاکٹر کے پاس گیا، اپنی کیفیت بتائی اور کہا کہ مجھے خوف ہے کہ میں جلد مر جاؤں گا؟ ڈاکٹر نے اسے حوصلہ دیا اور کہا ’’اگر تم شراب پینا چھوڑ دو تو تمہاری صحت بھی ٹھیک ہو گی اور عمر بھی لمبی ہو جائے گی‘‘۔ اس پر وہ شخص بولا ’’ڈاکٹر صاحب آپ شاید ٹھیک کہہ رہے ہیں، میں نے ایک دن شراب نہیں پی تھی، اس دن جیسا لمبا دن میں نے اپنی پوری زندگی میں نہیں گزارا‘‘۔
ہاں تو بات ممتاز غزنی کی ہو رہی تھی۔ ممتاز غزنی نے اپنا تخلیقی سفر ’’ماں تجھے سلام‘‘ سے شروع کیا۔ پھر وہ ’’بچپن لوٹا دو‘‘ کہتا پکارتا ’’بکھیاں دوہریاں‘‘ کرتا ’’سکھاں‘‘ دیتا ’’چروکنی گل‘‘ سناتا ’’پہوچھن‘‘ اوڑھتا ’’تہخنے آڑے‘‘ لیے سامنے آن کھڑا ہے۔ اس دوران اس نے سرمستی سے ’’دھرتی کا عظیم مزاحمت کار‘‘ کا آوازہ بھی لگایا اور جلد ہی وہ ’’کڑکا کہٹ‘‘پیتا ’’اُچے لوک‘‘ دکھاتا ’’کتابوں سے باتیں‘‘ کرتا ’’بھیل باجیاں‘‘ الاپتا اپنی ماں ’’سرور جان‘‘ کی یادیں سامنے لے آئے گا… اور یقین جانیے یہ سب کل ہونے والی باتیں ہیں بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ آج ہی ہو چکی ہیں۔
’’تہخنے آڑے‘‘ ممتاز غزنی کے پہاڑی افسانوں کا مجموعہ ہے۔ پہاڑی میں ہمارے ہاں افسانوی ادب کی روایت کچھ زیادہ مستحکم اور گہری نہیں ہے، ایسے میں ممتاز غزنی کی یہ کاوش بہت بروقت اور برمحل ہے جو پہاڑی ادب کی روایت کو تابدار کرنے کا وسیلہ ہو گا۔ ’’تہخنے آڑے‘‘ کو اُنہوں نے اپنے بڑے بھائی راجہ محمد انور کے نام کیا ہے۔ ابتدائیہ ’’منڈھلی گل‘‘ کے سرنامے تلے لکھتے ہوئے اُنہوں نے کمال بات لکھ دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’انسان نی حیثیت یا تہ تہخنے آڑیاں نی طرح دی جہیڑے تہخنیاں تہخنیاں سڑی سجی بنی اینے یا اس تارے نیاں طرح دی جہیڑا آسمانے اپر چمکنا ہونا فیر ہیک دم تروٹی زمیاں اپر ٹئی تہ سجی بنی اینا‘‘۔ اس کے بعد جناب علی احمد کیانی ایڈووکیٹ نے اس کی افسانہ نگاری کے متعلق مختصر مگر بامعنی تجزیہ کیا ہے، اس تصنیف میں 24 افسانے ہیں، جن میں سے کئی ’’افسانچے‘‘ ہرگز نہیں ہیں مگر ’’مختصر افسانے‘‘ بہرحال ہیں۔ یہ تمام افسانے جو ’’کہانی‘‘ سے زیادہ قریب ہیں۔ اپنی مٹی، تہذیب اور ماحول سے کشید کیے گئے ہیں۔ ان کا پہلا افسانہ ’’ہلسانی زبان‘‘ ہے، یہ ایک طرح کی علامتی کہانی ہے جو اختصار سے، سلیقے سے بیان کی گئی ہے اور معاشرے میں ظلم کی روایت کا وہ اظہاریہ جو گہری تاثیر رکھتا ہے۔ ’’بے بج‘‘ بھی ایک معنی خیز کہانی ہے جس میں باقی کہانیوں سے زیادہ طوالت بھی ہے اور ’’فکشن‘‘ کے لوازمے بھی۔ ’’نکی عید‘‘ گم ہوتے ماضی کا نوحہ ہے تو ’’دیوا‘‘ نیکی کی تاثیر کا گیٹ۔ ’’جان ہاری تہ بندوق پہاری‘‘ معاشرے کے ایک رخ کی تصویر ہے تو ’’پہوکھ‘‘ ایک اور المیہ کی جانکاری، اس کے بعد ’’دین‘‘، ’’مقصد‘‘ اور پھر ’’مٹھے‘‘ ہے جو فنی لحاظ سے پوری چابکدستی سے بنا گیا ہے۔ ’’عینک‘‘، ’’کرونا‘‘، ’’آسیس‘‘، ’’پردیسی‘‘ جیسی سبھی کہانیاں ہماری معاشرت اور اسی زمین میں اُگی ہیں اور ان میں بیان کتھا ہماری زندگیوں کے مختلف پہلوؤں کی تعبیر و تشریح ہے۔ ’’غریوی‘‘، ’’ڈھلیا اکھیں‘‘، ’’ضمیرفروش‘‘ اور ’’بختاور‘‘ بھی پہلے جیسی کہانیوں کی ساری خاصیتیں اپنے اندر سموئی ہوئی ہیں۔ ’’تہخنے آڑے‘‘ وہ افسانہ ہے جس سے اس تخلیق کا نام کشید ہوا ہے۔ یہ مختصر افسانہ پلاٹ اور کرافٹ میں بہترین ہے۔
’’وارث‘‘، ’’اگ‘‘، ’’کہلم کہلا‘‘ اور ’’دردچھوائی جینا پینا‘‘ کے بعد آخری دو کہانیاں ’’آخری آرام گاہ‘‘ اور ’’چادر‘‘ بہت اثر انگیز ہیں۔ یہ اگرچہ سیدھے سبھاؤ بنی کہی داستانیں ہیں لیکن اختصار کے باوجود بہت بلیغ ہیں۔
ممتاز غزنی کے افسانوں کا تجزیہ کیا جائے تو ان میں موضوعاتی تنوع بھی ہے اور یکسانیت بھی۔ ان کی تقریباً سبھی کہانیاں ’’مختصر‘‘ یا اختصار آمیز ہیں جو آج کے مشینی دور میں جب وقت تیزی سے کم ہو رہا ہے اور کتاب بینی کا عمل معدوم ہوتا جا رہا ہے، کے لحاظ سے بہت ’’سمجھداری کی بات‘‘ کہلا سکتی ہے۔ ان کے افسانوں کا پلاٹ عموماً سیدھا اور سادھا ہے۔ لیکن ان کی منظر نگاری اور جذبات نگاری بہترین ہے۔ وہ کہانی کو بتدریج پورے ہنر اور سمجھداری سے درجہ بدرجہ آگے بڑھاتے ہیں اور اس کا ارتقاء اور اختتام بہترین ہوتا ہے۔ ممتاز غزنی کی زبان سادہ اور عام فہم ہے تو تحریر رواں اور دلچسپ ہے۔ سادہ اور عام فہم زبان میں اختصار بھری کہانی کو افسانے کا روپ دینا یقینا ایک فنی صلاحیت کا مظہر ہے جو ممتاز غزنی کی افسانہ نگاری کو کل مزید بلندیوں پر لے جانے کا باعث ہو گی۔
اپنی مٹی، اپنی تہذیب، اپنے لوگوں اور اپنی کہانیوں کو اپنی ماں بولی میں ہنروری اور فنی چابکدستی سے بیان کرنا ممتاز غزنی کا ایک ایسا کارنامہ ہے جو اسے پہاڑی ادبی تاریخ میں مستقل باب بنا دے گا۔ ممتاز غزنی کے ’’تہخنے آڑے‘‘ دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ بہت جلد اس نے تخلیق کاری کے ’’مَچ‘‘ پہخائے ہوں گے۔ اونچے اونچے ’’لنمبے‘‘ دور سے اٹھتے نظر آ رہے ہوں گے جو اس کے ہونے کا ثبوت دیں گے۔ دُعا ہے کہ اس کی تخلیق کی آگ کبھی سرد نہ پڑے اور اس کے ’’تہخنے آڑے‘‘ کبھی نہ بجھیں کہ ہم سرد روّیوں والے سرد علاقوں کے ’’ٹھڈے ٹھکور‘‘ باسیوں کو جلتے ’’الاؤ‘‘ کی ضرورت ہے کہ حدت ہی زندگی کی علامت ہے، ورنہ ہم جلد ’’ٹھنڈے ٹھار‘‘ ہو جائیں گے اور پھر یوں حیات کی رفتار رک مُک جائے گی… سو ہمیں ممتاز کے اسی انداز کے ’’غزنی پنے‘‘ کی ضرورت و خواہش بھی ہے اور اس سے امید بھی اور یقین ہے کہ وہ ہمیں ’’امید‘‘ سے رکھے گا کہ وہ تخلیقی طور پر بہت ’’پربہار‘‘ ہے۔ یوں وہ ہمارا وقار ہے اور دلدار ہے۔
ڈاکٹر محمد صغیر خان (راولاکوٹ)