معمار حرم

اور یاد کرو وہ وقت جب حضرت ابرہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام خانہ کعبہ کی دیواریں اٹھارہے تھے۔ان کی زبانوں پر اپنی کسی خدمت یا قربانی کا تزکرہ نہیں تھا۔وہ اپنے کسی کارنامے پر فخر و مباہات کا اظہار بھی نہیں کر رہے تھے ۔اور نہ ان کے کلمات میں ذاتی تکبر یا قومی تفاخر کی کوئی جھلک نہ تھی۔وہ سراپہ تشکر بنے اپنے خالق و مالک کے حضور دست بدعا تھے "اے ہمارے رب ! ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے۔تو سب کی سننے اور جاننے والا ہے۔”
حضرت ابراہیم علیہ السلام کوئی معمولی انسان یا دنیا دار رہنما نہیں تھے۔تاریخ اسلام میں ان کا مقام ابو الانبیاء یعنی نبیوں کے جد امجد اور خلیل اللہ یعنی اللہ کے دوست کی حیثیت سے متعین ہے جو رہتی دنیا تک قائم و دائم رہے گا۔اور یہ خانہ کعبہ جس کی دیواریں خلیل اللہ اپنے بیٹے ذبیح اللہ کی مدد سے تعمیر کر رہے تھے محض اینٹ پتھر یا گارے مٹی کی عمارت نہ تھی بلکہ بیت اللہ تھی۔ نور و تقدس اور تقوی و پاکیزگی کا گھر جو آج بھی مرجع خلائق ہے اور ابدالاباد تک اسے مرکز کائنات کا مرتبہ و مقام حاصل رہے گا۔
اور دیکھو یہ شہر جس میں اللہ کا یہ گھر تعمیر ہو رہا تھا،یہ دیکھو ہم مار دیں گے اس کا نام بکہ بھی ہے اور مکہ بھی۔لیکن اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اسے کل عالم انسانیت کے لیے بلکہ عالم جنات کے لیے بھی، امن کا گہوارہ قرار دیا گیا ہے۔
کیوں؟اس لیے کہ اللہ کے محبوب بندے اور دوست نے دعا فرمائی تھی۔
"اے میرے رب !اسے امن کا شہر بنا دے”اور "ہاں” اس کے باشندوں میں سے جو اللہ اور آخرت کو مانے انہیں ہر قسم کے پھلوں کا رزق دے”۔
یہ دعا کسی فانی ہستی یا دینوی روزی رساں سے نہیں،رب کائنات سے مانگی گئی تھی۔چنانچہ خانہ کعبہ اور شہر امین مکہ مکرمہ کو امن کا گہوارہ بنانے کا مطالبہ تو بینہ پورا ہو گیا لیکن جہاں تک رزق کا معاملہ تھا رب العالمین نے فرمایا اور جو نہ مانے گا دنیا کی چند روزہ زندگی کا سامان تو میں اسے بھی دوں گا مگر ( اس کے کفر و شرک کے باعث) آخر کار اسے عذاب جہنم کی جانب گھسیٹوں گا اور وہ بدترین ٹھکانہ ہے۔
ایک بہترین ٹھکانہ بیت اللہ ہے جو امن و سکون کا مرکز ہے، قلبی و ذہنی اطمینان کی جگہ اور خوشی و خوشحالی کا گہوارہ ہے،جہاں دینوی و اخروی راحت اور آسائشیں ہیں۔اور وہ دوسرا بدترین ٹھکانہ جہنم ہے جہاں انتہائی مکروہ اور بد کردار جن و انس ہر نوع کی سفلی خواہشیں اور گھٹیا آلائشیں ہوں گی۔
یہ شہر امن و ہدایت تو بلاشبہ ان کے لیے ہے جو اللہ اور آخرت کو مانیں لیکن رہا رزق،تو اللہ نے اسے تمام انسانوں کے لیے عام کر دیا ہے۔ دنیائے فانی میں ہر ایک کو اس کی ضرورت اور قسمت کے مطابق رزق حاصل ہوتا رہے گا۔لہذا کسی کے وسائل رزق اور آسائشات زندگی پر اس کے مسلم یا کافر و مومن یا مشرک ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔مومن و مسلم کے لیے ابدی راحت و فرحت کا مقام جنت اور کافر و مشرک کے لیے بدترین ٹھکانہ جہنم کی آگ ہے۔
اہل ایمان کے لیے یہ تمام صدقہ وطفیل ہے ان آزمائشوں اور ان قربانیوں کا جن سے ابراہیم علیہ السلام اور آل ابراہیم علیہ السلام گزر کر سرخرو ہوئے۔ اس دنیا میں بھی ان کا نام ہمہ وقت ورد زبان رہتا ہے۔اور اس دنیا میں بھی بارگاہ الہٰی میں نہایت اعلی مرتبے پر ہوں گے۔اللہ نے انہیں از اول تا آخر رشد و ہدایت سے نوازا ہے۔ بیت اللہ کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام نے پہلی مرتبہ نہیں کی تھی۔اس کا مقام کرہ ارض کی تخلیق کے ساتھ ہی مختص و متعین اور بلند و ارفع کیا جا چکا تھا۔حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر اتارنے کے بعد مقام کعبہ کی نشاندہی کر کے انہیں اور اولاد آدم علیہ السلام کو اس کے طواف کا حکم دیا گیا۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مدد سے اسے باقاعدہ تعمیر کیا تو وہ اس کے بانی اور معمار اول قرار دیے گئے۔انہوں نے حق کی خاطر سب سے پہلے اپنے باپ آزر سے ٹکر لی۔پھر نمرود سے معرکہ ارائی ہوئی جس نے آپ علیہ السلام کو آگ میں ڈال دیا ۔لیکن اللہ نے بھڑکتے شعلوں کو اپنے خلیل کی خاطر گل و گلزار میں تبدیل کر دیا۔ازمائش و ابتلا کے مختلف مراحل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بیوی بچے کو بے آب و گیاہ و صحرہ میں چھوڑا تو وہاں زمزم کا چشمہ جاری ہو گیا جس کا صحت بخش پانی چار ہزار سال سے اکناف عالم کے مسلمانوں کو سیراب کر رہا ہے۔پیاس سے معصوم اسماعیل کو تڑپتا دیکھ کر والدہ ماجدہ نے عالم بے چینی میں صفا و مروہ کے گرد سات چکر لگائے تو وہ حج و عمرہ کا اہم رکن قرار پائے۔اسماعیل ذبیح اللہ کی قربانی قیامت تک یادگار بنا کر صاحب استطاعت مسلمانوں کے لیے لازم قرار دے دی گئی۔ اور بیت اللہ کی تعمیر کے بعد اس کا طواف سنت ابراہیمی اور ان کی یادگار قرار پایا۔تعمیر بیت اللہ اور تعمیر اخلاق و سیرت کے دوران نہایت پاکیزہ مرحلہ وہ بھی تھا جب خانہ کعبہ کے معمار اول نے یوں دعا فرمائی تھی۔”اے ہمارے پروردگار اس جماعت کے اندر انہی میں سے ایک ایسا رسول بھی مقرر فرمائیے جو انہیں آپ کی آیات سنائے کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے
۔الحمدللہ ہم دعائے خلیل کے مستحق و تکمیل کے لیے تشریف لانے والے اسی نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیروکار ہونے کا شرف و دعوی رکھتے ہیں۔لیکن کیا ہم اس توقع پر پورا اترنے کی معمولی صلاحیت بھی رکھتے ہیں کہ معمار حرم باز و تعمیر جہاں خیز”۔ اے حرم کے معماروں! دنیا کی تعمیر نو کے لیے اٹھ کھڑے ہو۔