مری کی یادیں ۔۔۔ نامور شاعر اور ادیب شعیب بن عزیز کے قلم سے

اب اداس پھرتے ہو،سردیوں کی شاموں میں

اس طرح تو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں

آپ نے یہ شہرہ آفاق شعر تو ضرور سن رکھا ہو گا، جو زبان زدعام بھی ہے۔۔ آج ہم اس شعر کے خالق اور اردو کے نامور شاعر اور ادیب شعیب بن عزیز کی ملکہ کوہسار مری سے وابستہ یادوں پر مبنی ایک تحریر آپ کی بصارتقوں کی نذر کرتے ہیں جو انہوں نے اپنے فیس بک پیج پر لکھی اور کوہسار نیوز ان کے شکریے کے ساتھ شائع کر رہا ہے۔

 

برس گئے گارڈن کالج کے زمانے کے ایک دوست سے پوچھا کہ راجہ وحید کا کیا حال ہے۔ معلوم ہوا کہ اسے تو انتقال کئے کئی سال ہو گئے۔ رنج کے لمحات کچھ مدھم ہوئے تو ذہن ماضی کی وادیوں میں کھو گیا۔

راجہ وحید کو ہم سب “راجہ کبا “کے نام سے پکارتے اور جانتے تھے۔ یہ بات راجہ کو نا پسند ہوتی تو ہم ایسا کیوں کرتے ۔ راجہ ان لوگوں سے تھا جو اپنی شخصی خوبیوں سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں اور ان خوبیوں ہی کو اپنی پہچان گردانتے ہیں ۔ جسمانی معذوریاں انکے اعتماد اور عزائم کی راہ میں دیوار نہیں بن پاتیں۔ راجہ مری کا رہنے والا تھا۔ گارڈن کالج کا شاید ہی کوئی ساتھی ہو جو مری گیا ہو اوراس نے راجہ کی مہمان نوازی سے لطف نہ اٹھایا ہو۔

پچھلی بار مری جانا ہوا تو یوں لگا کہ راجہ صاحب اور کچھ دوسرے ساتھیوں کے چلے جانے سےمری کی مال ویران ہو گئی ہے ۔رنگ اور خوشبو کی اس گزرگاہ پر اب گارڈن کالج سے وابستہ ایک ہی یار قدیم موجود ہے۔ ماہر کارٹونسٹ اور معروف صحافی امتیاز الحق ۔ مل جائیں تو ہمیشہ چائے پانی کا پوچھتا ہے مگر اب تک تو بقول یگانہ چنگیزی “ کان مجرم ہیں مگر آنکھ گنہگار نہیں “ کا سا عالم چلا آرہا ہے ۔ ۔

سلیم شوالوی، گارڈن کالج سے نہ تھے، مگر شاعر اور شاعروں کے رسیا ضرور تھے۔ لنٹاٹ کے بعد اسی ہاتھ پہ ایک گلی کے کونے پہ انکی کتابوں کی دوکان تھی۔ ایک کاؤنٹر مال پہ دوسرا گلی کے اندر۔ یہ مری جانے والے شاعروں ادیبوں کا گویا میٹنگ پوائنٹ تھا۔ شعر و ادب سے تعلق رکھنے والے بہت سے دل پھینک نوجوانوں اور بزرگوں کے لئے یہ نکڑ ایک محفوظ انتظار گاہ کا کام بھی دیتی تھی۔

FB IMG 1685507036206 1 231x300 1 jpg

مدتوں پہلے یہاں ایک بزرگ ادبی شخصیت کو ، اس عالم میں دیکھا کہ شوالی صاحب کی منگوائی ہوئی چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے ، شاعر ی کا ایک مجموعہ ہاتھ میں تھام رکھا ہے ، مگر الٹا ، گردو پیش سے یکسر بے نیاز پوسٹ آفس کی جانب سڑک پہ نظریں جمائے جانے کب سے کھڑے ہیں۔ میں نے بے خبری میں کاندھے پہ ہاتھ رکھا تو چونکے، اس دوران کتاب کے الٹے ہونے کا احساس بھی ہوچکا تھا، پکڑے جانے کے خوف میں جلدی سے اسے سیدھا کرنے کی کوشش کی تو ہاتھ کسی چیز میں الجھ گیا اور کتاب چائے کے کپ کو ، اپنے جلو میں لیتی ہوئی ، ان کے قدموں میں آ رہی۔

میں نے انہیں سنبھلنے اور ٹوٹی ہوئی پیالی کے ٹکڑے اٹھانے میں میں مدد دی ۔ شکر گزار ہوئے ، ممنو نیت کا اظہار بھی کیا۔ میری رگ ظرافت پھڑکی، کہا کہ انتظار کی کلفتیں بجا مگر آج تو یہ آپ کے حق میں رحمت ثابت ہوا ۔ گرم چائے جسم کے کسی حصے پہ گر جائے تو اس کی جلن مدتوں نہیں جاتی .. یہ اوچھا وار ان کے لئے قطعا” غیر متوقع تھا۔ مناسب رد عمل کی تلاش میں تھے کہ مجھے پھر شرارت سوجھی ، عرض کیا کہ حضور ضروری نہیں کہ جو مسافر پنڈی پوائنٹ سے پوسٹ آفس کی طرف گئے ہیں ، وہ اسی راستے سے واپس بھی آئیں۔مری بنگال تو نہیں کہ آنے کے سو اور نکلنے کا ایک راستہ ہو۔

سخت بد مزہ ہوئے۔ چہرہ خشونت کی تصویر بن گیا۔ میں نے سٹکنے میں عافیت سمجھی۔ فٹ پاتھ پہ قدم رکھ رہا تھا کہ سلیم شوالوی کے مہمان کی زور دار آواز میرے کانوں سے ٹکرائی ۔ وہ کہہ رہے تھے کہ “ اے خبیث جیہڑا ہونڑی بار گیا اے۔ کونڑ سی”۔ مجھے شک گزرا کہ شاید وہ کچھ میرے بارے میں کہہ رہے تھے ۔ و اللہ اعلم بالصواب

643ee2ff 1ab2 4a0e 92cf f34d29fcddd0 1

مال روڈ مری کا ایک دلکش منظر

اور آخر میں شعیب بن عزیز کی شہرہ آفاق غزل

اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں

اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں

اب تو اس کی آنکھوں کے مے کدے میسر ہیں

پھر سکون ڈھونڈوگے ساغروں میں جاموں میں

دوستی کا دعویٰ کیا عاشقی سے کیا مطلب

میں ترے فقیروں میں میں ترے غلاموں میں

زندگی بکھرتی ہے شاعری نکھرتی ہے

دلبروں کی گلیوں میں دل لگی کے کاموں میں

جس طرح شعیبؔ اس کا نام چن لیا تم نے

اس نے بھی ہے چن رکھا ایک نام ناموں میں

ایک تبصرہ چھوڑ دو