top header add
kohsar adart

مری کا علمی ادبی چہرہ ۔۔۔ محمد آصف مرزا

 

جناب امجد بٹ کا بھیجا گیا کوریئر کھولا تو ایک ساتھ چار کتابوں کی مہک نے روح کو سرشار کر دیا۔ ہم پہلے تفصیلی ذکر کر چکے ہیں کہ مری کی علمی و ادبی شناخت کو نکھارنے میں ہمہ وقت مصروف امجد بٹ کا تعلق بٹوں کے "فرقہ کڑاہی” سے نہیں بلکہ "فرقہ پڑھائی” سے ہے، چنانچہ وہ معدے کے بجائے براہ راست آپ کے دل اور روح پر اثر انداز ہوتے ہیں، مگر کمال عجز و انکسار کے ساتھ۔  وہ خود بحر علم کے شناور ہیں، مگر اندرونی تلاطم کے باوجود سطح پر مکمل سکوت رہتا ہے۔ وہ اپنی ذات کے معاملے میں مارکیٹنگ اور تشہیر سے گریزاں ہیں مگر اپنے ارد گرد موجود صاحبان علم و فن کی پذیرائی اور تعارف کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ کورئیر کے ذریعے ملنے والا بٹ صاحب کا یہ تحفہ بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی اور یہ کوئی اور نہیں بلکہ بٹ صاحب کے علمی و ادبی رہبر اور ایک لحاظ سے ان کے "پیر بھائی” آصف مرزا صاحب کی تصنیفات تھیں. پیر بھائی اس لیے کہ یہ دونوں حضرات مری کی علمی شناخت پروفیسر علامہ مضطر عباسی کے علمی ورثے کے امین ہیں۔

آصف مرزا صاحب کو پہلی مرتبہ ہم نے برادرم راشد عباسی کے پہاڑی شعری مجموعے "عشق اڈاری” کی تقریب رونمائی میں سنا تو اپنی کم علمی پر ایک بار پھر ندامت ہوئی کہ خطہ کوہسار مری میں ایسی نابغہ روزگار علمی و ادبی شخصیات بھی موجود ہیں جن کے کام کو قومی سطح کے بڑے ادیبوں کے مقابل فخر سے رکھا جا سکتا ہے اور ہم میڈیا میں ہونے کے باوجود ان کے کام اور خدمات کے حوالے سے لاعلم رہے۔ اس کا بنیادی سبب جہاں تین عشروں سے زائد عرصے تک کراچی میں قیام رہا، وہاں مری والے بھائیوں کا "حد درجہ انکسار” بھی آڑے آیا، چنانچہ لے دے کر ہماری یادداشت میں نور الہی عباسی کی "تاریخ مری” ہی محفوظ رہ گئی، جس کے بارے میں بچپن سے سنتے آئے تھے۔ اس کے علاوہ شاید ہی کسی اور کتاب یا ادیب کا ذکر ہوا ہو، مری کے حوالے سے البتہ کبھی کبھار کسی معمولی ناخوشگوار واقعے کی بنیاد پر "بائیکاٹ مری” کا طوفان سوشل میڈیا پر ضرور اٹھتا رہا. اب جس شہر اور علاقے میں علامہ مضطر عباسی، پروفیسر کرم حیدری، حمید کاشمیری، سلیم شوالوی، ڈاکٹر اکرام اعظم اور ان جیسے درجنوں دیوقامت شاعر ، ادیب اور ماہرین تعلیم گزرے ہوں اور ان کی علمی وراثت کو آگے بڑھانے اور پھیلانے میں محمد آصف مرزا، پروفیسر اشفاق کلیم عباسی، مسعود آکاش، راشد عباسی، قیصر مسعود اور امجد بٹ جیسے درجنوں صاحبان علم و فن ہمہ وقت مصروف ہوں، اس شہر کی شناخت تو سیاحت سے بھی زیادہ علم و ادب کو بننا چاہیے۔۔ خیر یہ الگ اور تفصیل طلب موضوع ہے، مگر اس کا بیان اس شکوے سے منسلک ہے کہ ملکہ کوہسار کو علمی شناخت دینے والی ان شخصیات کو وہ پذیرائی اور تحسین نہیں مل سکی جس کے وہ حقدار تھے۔ اگر اتنے سارے ادیب اور شاعر کسی اور شہر سے متعلق ہوتے تو وہاں ہفتہ وار بنیادوں پر "عالمی” مشاعرے، کانفرنسیں اور سیمینار ہو رہے ہوتے۔ وہ تو بھلا ہو سوشل میڈیا کا جس نے ہم جیسے کم علم لوگوں کو ان نابغہ روزگار شخصیات سے متعارف کرایا۔

اب آصف مرزا صاحب کو ہی لے لیں، وہ 2006 سے مسلسل ایک ادبی جریدہ "دستک” شائع کر رہے ہیں۔ آج کے دور میں جب پرنٹ میڈیا زوال پذیر ہے اور بڑے بڑے ادبی جرائد اور میگزین بند کر دیے گئے ہیں، یہاں تک کہ نیوز ویک اور ٹائم جیسے عالمی جریدے ڈیجیٹل ایڈیشن پر چلے گئے، تو ان حالات میں تواتر اور استقامت کے ساتھ ایک ادبی جریدہ شائع کرنا اور اس کے مواد پر سمجھوتا نہ کرنا ادب کی کتنی بڑی خدمت ہے۔ ایسے لوگوں کو تو حکومتی سطح پر ادبی ایوارڈ سے نوازا جانا چاہیے۔ پھر آصف مرزا صاحب کے جریدے دستک کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے پروفیسر اشفاق کلیم جیسے کئی ادبی ہیروں کو عوام میں متعارف کرایا۔۔
لیجیے ہم آصف مرزا صاحب کی چار کتابوں کا تعارف اور ان پر تبصرہ لکھنے بیٹھے تھے کہ بات کہیں سے کہیں نکل گئی۔ شاید اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہم خود کو ایسے بڑے صاحب علم اور استاد شاعر و نثر نگار کی کتب پر تبصرے کے لائق نہیں سمجھتے، سو شعوری یا لاشعوری طور پر جملہ ہائے معترضہ اور "غیر نصابی” مواد کے ذریعے مضمون کا پیٹ بھرنے کا سامان کر لیا. مگر پھر بھی رسم دنیا کے تحت کچھ نہ کچھ تو کہنا ہی ہے۔

محترم امجد بٹ کے توسط سے مرزا صاحب کی جو چار کتب موصول ہوئیں، ان میں "صدا پانی کی"( شاعری) "کھلا ہے باب سخن"( تنقیدی مضامین) "منظر پاکستان کے"( سیاحت) اور "مری کے رنگ ہزار"( مری پر تحقیقی مضامین) شامل ہیں، جبکہ ان کا پہلا شعری مجموعہ "ستارہ ہے خاک پر ” ہم نے کچھ عرصہ پہلے ایک ادبی تقریب کے بعد ہدیہ دے کر حاصل کیا تھا۔

آصف مرزا کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے نامور شاعر امجد اسلام امجد روزنامہ ایکسپریس میں رقم طراز ہیں ۔۔”میں نے اس شاعر کو اس سے پہلے کبھی سنا یا پڑھا نہیں ہے لیکن ٹائٹل کی غزل نے ہی اس طرح چونکا دیا کہ ساری کتاب کی ورق گردانی کرنا پڑی اور بہت خوشگوار حیرت ہوئی کہ کیسے کیسے عمدہ شاعر ہمارے آس پاس موجود ہیں، لیکن ان کے تخلیقی جوہر کو اظہار اور رسائی کے وہ وسائل میسر نہیں جو ان کا حق اور کسی مہذب معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ ان کے بعض اشعار میں تصوف ،فلسفے ،تبحر اور سپردگی کے ایسے رنگ نظر آتے ہیں جو شاعر کے صاحب دل، اہل نظر اور صاحب ایمان ہونے کے ترجمان تھے۔” اب ظاہر ہے امجد اسلام امجد مرحوم جیسے سکہ بند شاعر کی جانب سے یہ توصیف کسی سند سے کم نہیں۔

"صدا پانی کی” میں شامل ایک غزل کے شعر ملاحظہ ہوں

یوں تصور سے تیرے سلسلہ جنبانی کی
زخم کو یاد رکھا، درد کی مہمانی کی

اپنے ہاتھوں سے کیا خانہ خود کو مسمار
داد تو دے کوئی اس بے سروسامانی کی

بہہ رہا ہے کوئی دریا میرے اندر شاید
یا کہیں دور سے آتی ہے صدا پانی کی

آصف مرزا کی شاعری میں اساتذہ کا رنگ جھلکتا ہے تو ان کی نثر مطالعے کی وسعت اور عمیق مشاہدے کا پتہ دیتی ہے۔ وہ اپنے قاری کو بوجھل الفاظ اور مشکل تراکیب میں الجھانے کے بجائے سلیس اور دلکش انداز میں گویا انگلی پکڑ کر ساتھ ساتھ لیے پھرتے ہیں، مگر اس سادگی میں گہرائی و گیرائی کے عناصر پوری طرح موجود ہیں۔ مرزا صاحب کی شاعری میں کہیں صوفیانہ رنگ دکھائی دیتا ہے تو کہیں میر کے حزنیہ لہجے کی جھلک ملتی ہے اور گاہے حسن و عشق کے رنگ جلوہ گر دکھائی دیتے ہیں۔ مگر شاعری میں ان کا رنگ اور آہنگ جداگانہ ہے، جسے تقلید کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ البتہ اقبال کو مرشد مانتے ہی نہیں، ان کے کلام سے خوب خوب روشنی کشید کرتے ہیں۔

ایک اور خاص بات یہ ہے کہ مری سے مرزا صاحب کا عشق غیر مشروط اور اٹل ہے۔ ان کی کتاب "مری کے رنگ ہزار” تو اس کا بین ثبوت ہے ہی، مگر یہاں کی سڑکوں، گلیوں، بازاروں، پہاڑوں، درختوں اور برفانی رنگوں کے ساتھ ساتھ وہ یہاں کے اہل علم کے عشق میں بھی سرتاپا ڈوبے ہوئے ہیں اور کئی شخصیات کے حوالے سے ان کی طویل نظموں میں اس کا اظہار ملتا ہے۔

آصف مرزا صاحب کی شاعری اور شخصیت کو چند جملوں میں بیان کرتے ہوئے امجد بٹ لکھتے ہیں ۔۔

"عمیق مطالعے اور روحانی ریاضت نے نہ صرف انہیں درویشی اور انکسار عطا کیا ہے، بلکہ ان کی تمام ذہنی اور مالی صلاحیتیں خاموش اور بے لوث عوامی فلاح و بہبود کے لیے وقف ہو چکی ہیں۔ ان کی ذاتی خوبیوں کو تو زمانہ بھلا سکتا ہے، مگر اس علاقے کی ادبی تاریخ میں ان کا نام ایک مستند شاعر کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ایک ایسا شاعر جو قادرالکلام ہونے کے ساتھ صاحب دیوان بھی ہے اور اپنا کلام طبع کرانے کے بجائے درویشانہ کسر نفسی سے کام لے کر یہی سوچتا رہے۔۔

ہم سے خوش فہم اسی شوق میں گمنام ہوئے
اک غزل اور جو ہو جائے تو دیوان کریں

یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ آصف مرزا کی شاعری پر ایک ایم فل اسکالر محترمہ شازیہ شاہین مقالہ بھی لکھ چکی ہیں، جو اہل کوہسار کے لیے اعزاز سے کم نہیں۔ عام طور پر لوگ اس قسم کے اعزازات پر پھولے نہیں سماتے اور "بندہ ناچیز، حقیر و پر تقصیر” کے سابقوں کے ساتھ خوب تشہیر کرتے ہیں مگر مرزا صاحب کے انکسار کا یہ عالم ہے کہ کسی ادبی نشست میں ان کی شاعری اور شخصیت پر گفتگو ہو رہی ہو تو وہ زیر لب تبسم کے ساتھ یوں طفلانہ معصومیت سے دیکھ رہے ہوتے ہیں گویا کسی اور کی بات ہو رہی ہے اور وہ خود سامعین میں شامل ہیں۔ منیر نیازی مرحوم کی طرح خود ان کے اشعار یاد دلا کر انہیں سنانے پر اکسایا جاتا ہے۔۔

آخر میں چند اشعار ملاحظہ کریں اور مرزا صاحب کی ادبی قامت کا اندازہ لگائیں۔

لب دریا ہوں کھڑا، اور یہی سوچتا ہوں
وقت گزرا کہ مرے پاس سے گزرا پانی
ڈوب جاتے ہیں سبھی اہل ستم آخر کار
لشکر خیر کو دے دیتا ہے رستہ  پانی
…………………….

میں آ کے جا بھی چکا ہوں، جہاں کو کیا معلوم
مکاں میں کون مکیں تھا، مکاں کو کیا معلوم
میں ان کے ساتھ ہوں، پھر بھی بہت اکیلا ہوں
مگر یہ بات، مرے ہم رہاں کو کیا معلوم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ جینے دے، نہ مرنے دے کسی کو
عجب ہے عشق کا آزار ، پاگل
کوئی بھی قول کا پکا نہ نکلا
وہی بس ایک میرا یار، پاگل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ردائے مہر کو اوڑھے، فلک کی گلیوں میں
نہیں ہے چاند، پھرے ہے کوئی دیوانہ شب

سو یوں ہوا ہے کہ پھر نیند آ گئی شاید
سمجھ میں آنے لگا جب مجھے ترانہ شب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سجاد عباسی۔۔۔۔۔۔۔ بیروٹ

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More