محنت بھی کبھی مرتی ہے ؟

تحریر: جمیل الرحمٰن عباسی

 

88416889 102506851361273 6521885075649331200 nصاحب تحریر

 

اسکول جانے کے لیے جب ہم ،، لُنڈی کاکَڑ ،، سے گزرتے تو ،،مال تروڑ ،، ،،سنگ توڑ ہتھوڑا ،،یعنی بادان چلنے کی ٹھکا ٹھک ہمارا دل دہلا دیتی ۔ یہ پیشہ فرہاد سے تعلق رکھنے والے ،، مال تروڑی ،، یعنی کوہ کنی کرنے والا ایک گروہ تھا ۔ جس کے سرخیل ،،والدار ،، تھے۔
جب کبھی یہ لوگ بارود کا استعمال کر کے چٹانیں پھاڑتے یعنی ،،سرخ یا سرنگ ،، لگاتے تو ان کی ،،خوبڑ دار ،، کان پھوڑ دیتی ہم پیچھے دیکھتے ،اگے بھاگتے جاتے یہاں تک کہ دھماکے کی ٹھا ،، ہمارا ،،تراہ نکال دیتی ۔ ہوا میں دور دور تک بکھرنے والے کنکروں اور چڑیوں کا شور جب بیٹھ جاتا تو ہم جائے واردات کی طرف دوڑ کر جاتے اور والدار صاحب سے پوچھتے ،، پجی غا ،، ،،کیا بڑا پتھر ٹوٹ گیا تو سر ہلا کر اور ہنکارا بھر کر ہمیں جواب دیتے اور پھر کہتے ،، چلو سکول گچھو ،، ،،چلو سکول جاؤ ۔ اور ہم سکول روانہ ہو جاتے ۔

بہت بعد میں ہمیں پتا چلا کہ والدار صاحب ،، حوالدار ریٹائرڈ ہیں جنھوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد تیشے کو اپنا رفیق اور محنت کو اپنا شعار بنایا۔
شاید وہ جانتے تھے کہ :

بے محنتِ پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا
روشن شررِ تیشہ سے ہے خانہَ فرہاد ،،

خیر اسکول کے بعد تو وہ بے توفیق دور چلا کہ وقت کی باگ ہاتھ سے نکل گئی اور ہمہ وقت و ہمہ وجوہ بھاگ دوڑ میں لگے شہر و دشت کی خاک چھانتے چھانتے ہم ادھیڑ اور حوالدار صاحب بوڑھے ہو گئے ۔ پھر پتا چلا کہ وہ صاحب فراش ہو چکے ہیں تو ایک آدھ بار کی ان کی زیارت و عیادت کا موقع ملا ۔
چند روز پہلے آپ خالق حقیقی سے ملاقات کو روانہ ہو گئے۔ ان کی موت کی خبر سن کر مجھے یوں لگا کہ محنت مر گئی ۔ جب میں نماز جنازہ کے بعد ان کی چارپائی کے پاس کھڑا تھا تو ان کے پرسکون چہرے کے آئینے میں ایام گزشتہ کا ایک عکس جھلک رہا تھا میرے کانوں میں آپ کی خبردار ہوشیار کی صدا آ رہی کہ ،،گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی ،،
اور آپ کے لبوں پہ دبی دبی مسکراہٹ کہہ تھی کہ محنت کبھی نہیں مرتی ۔

آپ کا نام حوالدار محمد گل فراز تھا ۔ جس طرح
بعض پھول ،،زیادہ پھول ،، ہوتے ہیں اور کچھ کم ، حوالدار صاحب بھی کچھ ایسے ہی گل فراز ،، تھے کہ ان کے پھولوں میں چنپا چنبیلی کی شوخی کی جگہ ،،کنیرے ،، کی سادگی اور وقار نمایاں تھا ۔

شگفتہ سادہ مزاج ڈھیر ساری گھمبیرتا لیے ہوا تھا ۔ ہم انھیں اپنے بچپن اور ان کے بڑھاپے سے دیکھتے آ رہے ہیں ۔ آپ کی ایک خوبی جو ہمیں بہت متاثر کرتی تھی وہ یہ کہ اپنی تمام تر سنجیدگی کے باوجود اس دور کے عام رواج کے مطابق ،،ہم بچوں ،، کو نہ صرف یہ کہ ڈانٹتے نہیں تھے بلکہ ،، تُساں ،، کہہ کر بلایا کرتے تھے ۔

ایک خوبی جو مرحوم میں بہت ہی خوب تھی وہ محنت تھی ۔ آپ حوالدار ریٹائرڈ ہوئے تھے ظاہر ہے کچھ پنشن وغیرہ بھی ہوئی ہو گی لیکن آپ نے محنت کو شعار بنایا اور محنتی بن کر حدیث کے مطابق اللہ کے دوستوں میں شامل ہو گئے ۔ شاید ہماری نئی نسل واقف نہ ہو لیکن "مال تروڑی "ہمارے گاؤں کا معزز پیشہ ہوا کرتا تھا اور ہمارے خاندان کے کئی بزرگ اس پیشے سے منسلک رہے ہیں اور انھوں نے اس محنت طلب کام میں کبھی عار نہیں محسوس کی ۔

ایک روایت ان کے بارے میں یوں بیان کی جاتی ہے کہ اوائل عمر میں بہ تلاش روزگار کراچی کی جانب عازم سفر ہوئے ۔ جیب کرائے سے خالی تھی لیکن کسی طرح ٹرین میں سوار ہو گئے ۔ ٹکٹ چیکر جس سے آپ کا سامنا ہوا بہت ہی ،،فرض شناس ،، واقع ہوا جس نے قانون کی اندھی لاٹھی سے آپ کو سندھ کے کسی اسٹیشن پر اتار دیا ۔ اسٹیشن ماسٹر کوئی نیک دل آدمی تھا ۔اس نے ایک چھوٹے سے بچے کو یوں لاوارث پایا تو ترس کھا کر اپنے گھر لے گیا ۔ بیوی سے غالبا ،،اکرمی مثواہ ،، اس کے رہنے سہنے کا خیال کرنا ،، کہا ہو گا ۔ کچھ عرصہ وہاں رہے ۔ اتنی میں فوج کی بھرتیاں شروع ہوئیں تو فوج میں بھرتی ہوئے اور ترقی پا کر حوالدار کے منصب تک پہنچ کر ریٹائرڈ ہوئے ۔ آپ 1965 کی جنگ کے غازی مجاہد بھی تھے ۔ کہتے تھے ہم نے سری نگر پچاس ( یا کچھ کم زیادہ ) کلومیٹر کا بورڈ اپنی آنکھوں سے دیکھا پھر ہمیں پیچھے آنے کا حکم دیا گیا ۔

حوالدار محمد گل فراز صاحب نے پانچ بیٹوں اور ایک بیٹی سمیت کئی پوتے نواسے سوگوار چھوڑے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ پس ماندگان کو صبر اور مرحوم کو مغفرت عطا فرمائے

ایک تبصرہ چھوڑ دو