محبت کی کہانی
دوسری جنگ عظیم زوروں پر تھی ۔یہ 1944 کا سال تھا۔
دوسری جنگ عظیم زوروں پر تھی ۔یہ 1944 کا سال تھا۔
وہ برما فرنٹ پر جاپانیوں کے مدمقابل انڈو برٹش افواج کا حصہ تھا۔
برما ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور سے برطانوی ہند کا حصہ تھا ۔برما کی کی مقامی آزادی فوج جسے جاپانیوں نے تربیت دی تھی وہ جاپانیوں کے شانہ بشانہ اتحادی افواج سے لڑ رہی تھی۔وہ فرنٹ پر لڑ رہا تھا
اتحادی افواج کی طرف سے فوجی زیادہ تر برطانوی ہندوستان سے آئے تھے ان میں وہ بھی شامل تھا ۔اس کا نام مظفر خان تھا ۔اس کی عمر صرف 20 سال تھی۔
اس کا تعلق موجودہ پاکستان کے ضلع چکوال سے تھا۔
اسے برما میں جنگ کے دوران ایک برمی لڑکی سے محبت ہو گئی۔
نوجوان مظفر کو 1940 کی دہائی کے وسط میں برٹش انڈین آرمی کے آرڈیننس کور میں ایک سپاہی کے طور پر بھرتی کیا گیا تھا اور اسے فیلڈ مارشل ولیم سلم
( Field Marshal William Slim)
کے ماتحت جاپانی افواج کا مقابلہ کرنے کے لیے دوسرے فوجیوں کے ساتھ ایک مشن پر برما بھیجا گیا تھا۔
جس برمی لڑکی سے اسے پیار ہوا وہ بعد میں مسلمان ہوئی اور اس کی بیوی بنی۔ جنگ ختم ہوئی ۔پاکستان کا قیام عمل میں آیا ۔وہ اپنے گاوں لوٹ آئے
دونوں میاں بیوی صوبہ پنجاب کے ضلع چکوال میں میں مندرہ چکوال روڈ پر گرینڈ ٹرنک روڈ سے 43 کلومیٹر جنوب میں واقع قصبے ڈھڈیال کے ایک چھوٹے سے محلے میں رہنے لگے۔
2015 میں ڈان نیوز کے ایک رپورٹر نے ان کا کھوج لگایا اور انکی محبت کی داستان اخبار کی زینت بنی۔
ان کی محبت کی کہانی اور وہ کیسے ڈھڈیال آئے؟ یہ ساری داستان محلے کے گرد گھومتی تھی جس کو ان کے رشتہ داروں، دوستوں اور خود اس جوڑے نے بیان کیا۔
92 سالہ مظفر کو اب اپنے محلے میں چاچا کالو کے نام سے جانا جاتا تھا جبکہ عائشہ بی بی جو اس وقت 84 سال کی تھیں کو ماشو کہا جاتا تھا۔
1940 کی دہائی کے وسط کی یاد وقت کے ساتھ دھندلی ہو گئی تھی ۔ دونوں کی زندہ رہنے والی واحد سچائی یہ تھی کہ محبت کے بعد ان کی شادی ہوئی اور ان کی کوئی اولاد نہیں تھی
ماشو نے اپنی پوری زندگی برما میں چھوڑ کر پہلے برطانوی مقبوضہ ہندوستان اور بعد پاکستان میں سکونت اختیار کی۔
چاچا کالو کے بھانجوں نے وہ کہانی سنائی جو انہوں نے اپنے بڑوں سے سنی تھی۔
"چاچا کالو جوان، خوبصورت تھے اور برما کی ایک بیرک میں تعینات تھے جہاں ایک نوجوان برمی لڑکی، جس کے لمبے بال اور نیلی آنکھیں تھیں، فوجیوں کو روزانہ کھانا فراہم کرتی تھیں۔ انہیں اس سے پیار ہو گیا۔”
چاچا کالو نے اپنی یادیں تازہ کرتے بتایا "ماشو نے جنگ میں اپنے خاندان کے تمام افراد کو کھو دیا تھا ایسے میں میں اس سے شادی کرکے اپنے ساتھ لے آیا "اس کے بعد ہماری زندگی کا ہر لمحہ ایک ہی کتاب پر ثبت ہے۔
چاچا کالو کو عمر بڑھنے کی وجہ سے سننے میں اور ماشو کو بصارت کی خرابی کی وجہ سے دکھنے میں دشواری ہورہی تھی۔ چاچا کو بات کرنے کے لیے اونچی آواز میں بولنا پڑتا تھا جبکہ ماشو خاصی عمر بڑھنے کے باوجود اس کے لئیے چائے بنایا کرتی تھی۔
ماشو ماضی کی یادوں میں گم ہوکر اپنا حال یوں بیان کرتی
"میرا اپنا کچن ہے اور اسے صرف وہی چائے پسند ہے جو میں اس کے لیے بناتی ہوں،”
"اس نے میری محبت کے بدلے مجھے ایک گھر اور خاندان دیا خوبصورت رشتے دئیے۔میری اپنی اولاد نہیں مگر یہ پورا محلہ میری اولاد ہے میرا خاندان ہے،”
ماشو کو یاد تھا کہ وہ برما (میانمار) کے وسط میں واقع میکتیلا نامی شہر میں پلی بڑھی تھی۔
"میں بدھ مت کی پیروکار تھی اور اپنی ماں کے ساتھ عبادت کرنے کے لیے بدھ مندر جایا کرتی تھی،” وہ چھت کی طرف اپنی کمزور نظر والی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے یاد کرتی جیسے اس کی آنکھوں کے سامنے ماضی کی تصویریں چمک رہی ہوں۔
ماشو کو محبت ہونے کے بعد ایک نئی شناخت ملی، وہ برمی بدھسٹ سے لے کر برطانوی مقبوضہ ہندوستان میں ایک پنجابی مسلم اور پھر تقسیم کے بعد ایک پاکستانی کے طور پر لیکن انکی اصل شناخت محبت تھی جس کی خاطر انہوں نے سب کچھ چھوڑ دیا اور اپنی شناخت مظفر بنالی۔
چاچا کالو نے حج کرلیا تھا اور ماشو کے دل میں بھی حج کی شدید خواہش تھی لیکن ان کی گزر بسر صرف اس پنشن فنڈ سے ہوتی تھی جو مظفر کو برطانوی فوج کے ایک سابق فوجی کے طور پر کامن ویلتھ ایکس سروسز ایسوسی ایشن آف پاکستان سے ملتا تھا۔
2015 میں یہ کہانی شائع ہونے کے کچھ عرصہ بعد چاچا کالو کا انتقال ہوگیا۔انکی محبت کے پیچھے اپنا سب کچھ بھلا دینے والی ماشو اکیلی رہ گئی۔
( ڈان نیوز کے انگریزی آرٹیکل سے ماخوز)