خواجہ آصف بھی بیگ اُٹھاکر لندن چلے گئے ہیں۔ شہبازشریف نے وزارتِ عظمیٰ چھوڑنے کے چند روز بعد لندن کے لیے اُڑان بھرلی تھی۔ حمزہ شہباز بھی ملک سے باہر ہیں۔ اسحاق ڈار لندن میں وقت گزارکر غالباً واپس آگئے ہیں۔ مریم نواز ایک بار پھر خاموشی کی چادر اوڑھے ہیں۔ مریم کا یہ دورانیہ ہر چند ماہ بعد آتا ہے۔ لہٰذا یہ انوکھی بات نہیں۔
حکومت ختم ہوئی تو بلاول بھٹو بھی ”سائلنٹ“ موڈ پر چلے گئے۔ اب چند دنوں سے پھر کچھ کچھ بولنے لگ گئے ہیں۔
حضرت مولانا بھی کبھی ہوا بدلنے کو ملک سے باہر تشریف لے جاتے ہیں۔ بہار سے انہیں کوئی سروکار نہیں، لہٰذا زیادہ تر خاموش رہنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ لہٰذا انہیں بھی معذور سمجھ لیجیے۔
آصف علی زرداری گھاگ سیاست دان ہیں۔ تب بولتے ہیں جب کبھی زیادہ ضرورت محسوس کرتے ہیں۔
ان سب کے مقابلے میں عمران خان ہیں۔ حکومت سے نکلے تو خیال یہی تھا کہ کچھ عرصے کے لیے خاموش بیٹھ جائیں گے۔ لیکن ایک لمحے کو سکون سے نہیں بیٹھے۔ للکارا اور خوب للکارا۔ قاتلانہ حملے میں زخمی ہوئے تو تب بھی یہی سوچا گیا کہ اب سکون سے بیٹھ جائے گا، لیکن تب بھی کوئی میڈیم ایسا نہیں تھا جسے استعمال نہ کیا ہو۔ انٹرویوز دیتے رہے۔ ٹویٹر اسپیس کرتے رہے۔ روز اپنے کارکنان کے ساتھ رابطے میں رہے۔ زمان پارک میں ملک بھر سے کارکنان آتے رہے۔ محفلیں جمتی رہیں۔ روز ملاقاتیں کرتے رہے۔
تین بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت پر نظر ڈالیں۔ ان کی ترجیحات کا اندازہ لگائیں اور ان کے مقابلے میں ایک عمران خان کو دیکھیں کون کہاں اور کس طرح کھڑا ہے؟
بھئی بات یہ ہے کہ عمران خان کا مقابلہ کرنا آپ لوگوں کا کام نہیں۔ شخص سے آج بھی اختلاف کرتا ہوں۔ اس کی سیاست سے کسی صورت اتفاق ممکن نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان تین بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت دوبارہ بھی پیدا ہو تو جیل میں پڑے قیدی نمبر 840 کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔