kohsar adart

غزہ کی پتھرائی آنکھوں کا سوال۔۔۔۔اُم عزوہ

آگیا ۔۔۔۔2023 غزہ کے لوگوں کے دلوں میں ایک بدترین سانحے کے طور پر ہمیشہ ایک تیر کی طرح پیوست رہے گا۔

جب دنیا بھر کے لوگ آتش بازیوں کے سنگ نئے سال کا جشن منا رہے تھے، تب غزہ کے لوگ کٹے پھٹے جسموں سے رستا خون، ننھے وجودوں پر لگے ان گنت گھاؤ اور اپنوں کی جدائی کا کرب سنبھالے اجتماعی قبروں پر اڑتی راکھ کو آتش بازی کے دھوئیں میں مدغم ہوتا اور 2023 کو بے بسی سے جاتا دیکھ کر دل سے عالم شدت میں گریہ کر رہے تھے کہ یا رب 2024 کا سورج ہمارے لیے آسانیاں لا دے۔۔لیکن۔۔۔اب تک کی اطلاعات کے مطابق گوروں کے کیلینڈر میں صرف سال بدلا ہے، ان مظلوموں پرجاری درندگی درندگی میں کوئی کمی آئی ہے اور نہ صیہونی ریاست کی انسانیت دشمن پالیسی میں کوئی تبدیلی دکھائی دیتی ہے ۔

غزہ کی پتھرائی آنکھوں کا سوال۔۔۔۔اُم عزوہ
غزہ کی پتھرائی آنکھوں کا سوال۔۔۔۔اُم عزوہ

اپنے کتوں سے پیار کرنے والے انسانوں کے ایسے دشمن کہ مسلسل بچوں کا خون بہا رہے ہیں۔ان کے وحشیانہ جرائم پر درجنوں مسلم ممالک کے مردہ دل لیڈر جن کے دلوں پر مہر لگ چکی ،جنہیں اپنے بھائیوں کے بہتے خون سے کہیں زیادہ اپنا مفاد عزیز ہے۔۔۔سب اندھے ،بہرے اور گونگے ہو چکے ہیں۔۔

کتوں سے پیار کرنے اور انسانی حقوق کی علمبرداری کا ڈھونگ رچانے والوں کو حلب کے بچے کی ڈائری کے سینہ شق کرنے والے اوراق نے متوجہ کیوں نہیں کیا؟۔۔۔۔کیا انہیں غزہ کے کسی سکول میں بچے کی کسی نوٹ بک میں کوئی درد رقم نہیں ملا۔۔۔۔کہ "آج ہم بھوکے ہیں۔۔۔بمباری مسلسل ہو رہی ہے۔۔۔کل گندم کہیں سے ملی تھی۔۔۔اماں روٹی پکاتے ہوئے بمباری کی زد میں آگئیں اور روٹی کے ساتھ ماں بھی جل گئی۔۔میں ہسپتال میں ہوں شدید زخمی اور بھوکا بھی ہوں۔۔”
کسی ننھی بچی کی ڈائری کا ورق نہیں ملا۔۔۔۔جس میں درج ہو کہ "کل بھائی نے ابو سے بسکٹ کھانے کی ضد کی۔۔۔ابو جی بسکٹ ڈھونڈتے رہے۔۔نہیں ملتے تھےتوڈھونڈتے ڈھونڈتے بہت دورنکل گئے۔۔۔اور جب وہ بسکٹ لے کر گھر پہنچے تو بمباری کی زد میں آ کر ماں کے ساتھ بھائی بھی اللہ کو پیارا ہو چکا تھا۔۔ابو نے بھائی کے سرد ہاتھوں میں بسکٹ پکڑانے کی کوشش کرتے ہوئے اور روتے ہوئے کہا تھا اسے بھی جنت میں ساتھ لے جاؤ۔۔”

کیا ایسی کوئی ڈائری، ایسی کوئی داستان ان تک نہیں پہنچی۔۔جن پر ایک ڈاکومنٹری کیا کئی طویل ڈاکومنٹریاں بن سکتی ہیں۔۔۔جنہیں دیکھ کر لوگوں کے سینے شق ہو جائیں۔۔

آہ۔۔۔ان کی نظروں سے وہ ویڈیو بھی نہیں گزری جس میں وہ بچی۔۔۔وہ جیتی جاگتی گڑیا اپنے باپ کے ہاتھوں میں مٹی کی گڑیا کی طرح بالکل ساکت ہے۔۔ اس کے بالوں کی دو پونیاں سلیقے سے بندھی ہوئی ہیں۔ لیکن گڑیا ساکت ہے۔۔وہ باپ جس کی جان اس گڑیا میں تھی۔۔۔زندہ لاش بنا اپنی دھی رانی کو دیکھتا ہے۔۔۔بار بار سینے سے لگاتا ہے۔۔ایک آنکھ کے پپوٹے کھول کر اپنی بیٹی کی آنکھوں میں زندگی کی رمق تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔لیکن گڑیا کو تو بھیڑیوں نے ایک لمحے میں خاک کی مورت بنا دیا ہے۔جو اب سانس نہیں لیتی۔۔جس کا نصیب اب سفید لباس ہے۔

ایسے کئی الم ناک مناظر غزہ کے طول وعرض میں بکھرے پڑے ہیں ہیں۔۔۔دلوں کو چیز دینے والے۔۔۔ہر درد کی الگ داستان ہے اور اس پر الگ سے ڈاکومنٹری بن سکتی ہے۔۔

غزہ والوں کا ہر درد ہم سے ہماری بے حسی کا سبب پوچھتا ہے۔۔۔ہر معصوم بچے کی پتھرائی ہوئی آنکھ ہماری آنکھوں میں جھانک کر پوچھتی ہے۔۔ ۔۔”مومن کے دیدوں کا پانی کیوں مر گیا”۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More