غزل
غزل
حاصل مجھے یہ مرتبہ یوں ہی نہیں ہُوا
تسخیرِ ذات کر کے میں گوشہ نشیں ہُوا
کچھ سانپ آستین میں پلتے رہے مِری
یہ انکشاف بعد میں جا کر کہیں ہُوا
دراصل اپنا بویا ہُوا کاٹتے ہیں لوگ
رُوئے زمیں کا فیصلہ زیرِ زمیں ہُوا
اب کے برس بھی آیا ہے موسم بہار کا
لیکن ترے بغیر سہانا نہیں ہُوا
کیا بُود و باش تھی دلِ خانہ بدوش کی
دن کو مکاں اُٹھا لیا، شب کو مکیں ہُوا
یہ دلکشی بصورتِ دیگر نہ نہیں نسیم
رعنائیِ خیال سے منظر حسیں ہُوا