"غزل”

پا شکستہ تھا، مجھے یار اٹھا لے آئے
اب پریشاں ہیں کہ آزار اٹھا لے آئے
وہ تو دیوار ہے، دیوار سے کیا حاصل ہے
کیا کوئی سایہِ دیوار اٹھا لے آئے ؟
کوئی مصرف ہی نہیں شہرِ ہوس میں اپنا
لانے والے ہمیں بے کار اٹھا لے آئے
ہم خریدار تھے اک زخم کے دامے، درمے
لوگ بازار کا بازار اٹھا لے آئے
ترکِ خواہش کی یہ خواہش بھی عجیب ہے فیصل
جیسے بیمار کو بیمار اٹھا لے آئے
فیصل عجمی ۔۔ شعری مجموعہ "مراسم”