غریب چور نے ضعیف سائیکل سوار کے دھڑکن چھین لی

چند روز پہلے کا ایک واقعہ۔۔۔
ایک میڈیکل سٹور کے سامنے ایک غریب بزرگ نے سائیکل کھڑی کی اور دوا لینے لگے کہ اسی دوران اچانک ایک چور ان کی سائیکل لے کر بھاگ پڑا۔۔ وہ بزرگ اس چور کے پیچھے دوڑے۔چور تیزی سے کچھ ہی دیر میں ان کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔۔بزرگ ایک دم سے سڑک پر گر پڑے۔۔ دل کا دورہ پڑا اور وہیں گر کر ختم ہو گئے۔
ایک غریب آدمی کے لیے اپنی سائیکل کا صدمہ جان لیوا ثابت ہوا۔
خبر کے مطابق کسی راہگیر نے چور بھی پکڑ لیا اور سائیکل بھی۔خبر کے مطابق آگے بھی یقینا تفصیل ہوگی۔لیکن میرے لیے خبر یہیں ٹھہر گئی۔۔۔۔ایک غریب آدمی کی صدمے سے موت۔۔۔صدمہ بھی کس کا؟سائیکل کا۔۔۔اللہ اکبر۔۔
کس طرح ایک آس بھری کیفیت میں پیچھے دوڑے ہوں گے۔۔۔۔ نحیف جسم اور کمزور ٹانگوں نے ساتھ نہ دیا ہو گا تو گھٹنوں کے بل زمین پر گر گئے ہوں گے،ناتواں ہاتھ مدد کیلئے اوپر اٹھے ہوں گے،زمین پر کوئی شنوائی نہ ہونے پر قسمت اور زندگی کی مٹتی لکیروں والی سوکھی سڑی ہتھیلیاں اوپر والے سے دعا کیلئے باہم مل گئی ہوں گی۔
ہو سکتا ہے کمزور نظر کے باوجود نگاہیں آس پاس کسی مسیحا کی تلاش میں بھی گھومی ہوں ،مگر اس قضیے کے دوران چور نظروں سے اوجھل ہوگیا ہوگا، تو بھیڑ اوردھول میں گم ہوتی سائیکل کے ساتھ امید کا دیا بھی بجھ گیا ہوگا اور دل وہیں ہار بیٹھا ہو گا۔۔۔ہائے۔۔۔دل ساکت۔۔۔جامد۔۔جس کی خاموش ہوتی دھڑکن اس ناتواں وجود کو تو سائیکل سمیت ہر حاجت سے بے نیاز کر گئی مگر اس بند ہوتی دھڑکن کی چیخ حساس دلوں کو چیرتی روح میں اترتی چلی گئی۔۔ایک دو پہیوں والی سائیکل کا صدمہ ایسا گہرا ہو سکتا ہے؟؟
ہاں غریب آدمی کے لیے۔۔یہ بہت بڑا صدمہ ہی تو ہے
جس کی متاع حیات ہی سائیکل تھی۔کیونکہ وہ موٹر سائیکل یا کار کی سکت نہیں رکھتا تھا۔وہ سنگدل چور جو یقینا کوئی اوسط درجے سے بھیکم کا چور تھا۔جس کا زور ایک بوڑھے آدمی کی سائیکل پر ہی چلا۔۔۔اس ہڈ حرام نے اپنے طبقے کے ایک خوددار اور غیرت مند شخص کی جان لے لی۔۔۔
ہمارے معاشرے میں عوام کا معیارزندگی اب ایک سائیکل کی سکت جتنا ہی رہ گیا ہے۔ بلکہ وہ بھی غریب کی پہچ سے دور ہوتی جا رہی ہے کہ پہلی ترجیح پیٹ بھرنا اور ستر چھپانا ہے۔انہیں اس قدر بے بس کر دیا گیا ہے کہ سائیکل کے کھو جانے کا خوف ان کی جان لے سکتا ہے۔کیونکہ اب ایک عام سائیکل کی قیمت بھی کوئی پانچ چھ ہزار نہیں بلکہ 20 یا 22 ہزار روپے ہے ۔۔یعنی ایک مزدور کی پوری تنخواہ جتنی سائیکل کی قیمت۔۔( بشرطیکہ وقت پر مل جائے)۔۔ظاہر ہے غریب کے لیے قیمتی ہی ہونی ہے۔
جب آٹے کا حصول بھاری پڑنے لگا ہو۔۔۔دو وقت کی روٹی کا نظام چلانے کے لیے عام آدمی دو دو نوکریوں کے دھکے کھا رہا ہو۔(جہاں سے نکالے جانے کا خوف ایک الگ انزائٹی کی وجہ ہے) وہاں بنیادی ضرورت کے علاوہ کسی چیز کی گنجائش نہیں رہتی۔۔۔نہ بیماری نہ شادی بیاہ۔۔ اور تفریح کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔
عام آدمی کی زندگی جلتے سگریٹ کی مانند سلگتے سلگتے ختم ہو جاتی ہے۔۔اور خاص آدمیوں کے عام دلوں کی دھڑکن بے ترتیب تک نہیں ہوتی اور ہم جیسوں کا دل ایسی خبروں کو سن کر سائیکل کے پہیوں میں الجھ کر خون ہوتا رہتا ہے۔
آ بادل تو بھی رو میں بھی رؤوں
تو بھی دل کے داغ دھو میں بھی دھوؤں