عید کے چاند پر تنازعہ کب شروع ہوا؟ پس منظر کیا ہے؟
نامور ادیب اور سفرنامہ نگار عبیداللہ کیہر کی تحریر
1972ء میں جب ہم سندھ کے شہر خیرپور سے کراچی منتقل ہوئے تو اس وقت میری عمر تقریباً سات سال تھی۔ اس سال رمضان کا مہینہ جولائی میں آیا تھا اور عید ہم نے اگست میں منائی تھی۔ خیرپور کے چھوٹے شہر سے نکل کر کراچی جیسے بڑے شہر میں یہ ہماری پہلی عید تھی۔ یہاں کی رونق بھی وہاں سے زیادہ تھی اور یہاں کے میلے ٹھیلے بھی خیرپور سے زیادہ پرکشش تھے۔ ہماری قسمت کہیں کہ ستر کے عشرے میں جب ہم نے زندگی میں پہلی بار روزے رکھنے شروع کئے تو رمضان شدید گرمیوں میں آئے۔ اولین روزے رکھتے وقت میں تو یہی سمجھا تھا کہ اب ہر سال رمضان اسی طرح گرمیوں میں ہی آئیں گے اور ہمیں ساری عمر اسی طرح شدید پیاس کے ساتھ ہی روزے رکھنے ہونگے۔ لیکن جیسے جیسے عمر گزرتی گئی، ویسے ویسے ادراک ہوتا گیا اورعیسوی ( گریگورین) کیلنڈر اور ہجری کیلنڈر کا فرق بھی سمجھ آتا گیا۔ یہ جان کر بھی بڑی خوشی ہوئی کہ ہماری عید کرسمس کی طرح ہر سال صرف سخت سردیوں میں نہیں آئے گی بلکہ یہ سال کے سارے موسموں میں گردش کرتی ہوئی کبھی گرمیوں میں آئے گی اور کبھی سردیوں کو رونق بخشے گی۔
لیکن عید اور رمضان کے حوالے سے صرف موسم ہی نہیں ایک اور بات بھی اہم تھی جو ہمیں ذرا بعد میں سمجھ میں آئی، اور وہ بات تھی ”چاند“ کی … یعنی رمضان کے چاند کی اور عید کے چاند کی۔ شروع میں تو ہمیں معلوم ہی نہیں تھا کہ عید کے چاند کا بھی کوئی مسئلہ ہوتا ہے۔ اسلامی کیلنڈر اور تہواروں کا رویت ہلال سے بہت گہرا تعلق ہے۔ جب تک نیا چاند نظر نہ آئے ، نہ نیا مہینہ شروع ہو سکتا ہے اور نہ ہی عید منائی جا سکتی ہے۔
ہمارے ابا حافظِ قرآن بھی تھے اور ٹیلر ماسٹر بھی ، اس لئے رمضان کا مہینہ ان کیلئے دوہری مصروفیت لے کر آتا تھا۔ رمضان کا چاند نظر آتے ہی ان کی مصروفیت عروج پر پہنچ جاتی۔ وہ دن بھر دوکان پر سلائی مشینوں میں الجھے رہتے تھےکیونکہ عید کے کپڑے سلوانے والوں کی بھرمار ہوتی تھی۔ وہ سارا دن کپڑوں کی سلائی میں مصروف رہنے کے ساتھ ساتھ رات کو تراویح میں سنانے کیلئے قرآن پاک بھی بلند آہنگ سے دہراتے جاتے۔ چنانچہ ہماری بچپن کی یادوں میں سلائی مشینوں کی کھڑکھڑاہٹ کے ساتھ آیات قرآنی کی تلاوت بھی گونجتی ہے۔ رمضان میں کام زیادہ ہونے کی وجہ سے اماں، بہنیں اور بھائی سب ابا کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ جوں جوں عید قریب آتی جاتی، ہم سب کی مصروفیت بڑھتی جاتی۔ ابا گاہکوں کا ناپ لیتے اور کپڑوں کی کٹائی کرتے، امی سلائی میں ان کا ہاتھ بٹاتیں اور ہم بہن بھائی کاج بٹن میں ان کی مدد کرتے جاتے۔حتیٰ کہ انتیسویں یا تیسویں رمضان کو چاند کا اعلان ہو جاتا اور وہ رات چاند رات بن جاتی۔ خصوصاً انتیسویں کا چاند ہمارے لیے کچھ زیادہ ہی سنسنی خیز ہوتا تھا کیونکہ ہم پانچوں بہن بھائیوں کے کپڑے اکثر اس رات کو فجر کی اذان سے کچھ پہلے بمشکل تیار ہو پاتے۔ ہماری ان مصروفیات کی وجہ سے رمضان اور عید کا چاند ہمارے لئے کچھ زیادہ ہی اہمیت رکھتا تھا۔
ہمارا گھر قائدآباد کراچی میں مین نیشنل ہائی وے پر تھا۔ عید کے دن صبح ہی صبح گھر کے سامنے مین روڈ عیدگاہ میں تبدیل ہوجاتی۔ سڑک پر دور دور تک صفیں بچھا دی جاتیں۔ خطیب صاحب سب سے آگے والے مصلے پر مائک کے سامنے خطبہ ارشاد فرماتے اور پھر مقررہ وقت پر عید کی نماز ادا کی جاتی۔ نماز ختم ہوتے ہی لوگ ایک دوسرے سے والہانہ گلے ملنا شروع ہو جاتے۔ ہم نے یہاں لوگوں کو تین تین بار گلے لگ کر عید ملتے دیکھا تو حیران ہوئے کیونکہ خیرپور میں لوگ ایک ہی دفعہ گلے ملا کرتے تھے۔ کراچی میں عیدیں مناتے ہوئے چند سال میں ہی ہمیں پتہ چل گیا کہ عید کے چاند کا بھی ایک مسئلہ ہوتا ہے۔ ہم قائد آباد ہی پر تھے کہ ایک سال عید کا چاند متنازعہ ہو گیا۔ جن لوگوں نے سرکاری اعلان والے چاند کو مانا ، وہ صبح ہی صبح عید کی نماز کیلئے حکومتی حامی عیدگاہوں میں پہنچ گئے۔ لیکن ایک دن بعد والے چاند کے حامی ان کو نماز پڑھتا دیکھ کر طنزیہ مسکراہٹیں پھینکتے رہے اور انہوں نے اگلے دن عید منائی۔
ہم بچوں کیلئے تو یہ معاملہ بڑا حیران کن تھا کہ کچھ لوگ تو بھوک پیاس برداشت کرتے ہوئے روزہ رکھ کر دن گزار رہے ہیں اور کچھ لوگ ان کے سامنے ہی کھاتے پیتے عید مناتے پھر رہے ہیں۔ اس وقت تو ہم یہی سمجھے کہ یہ منظر ہم پہلی بار دیکھ رہے ہیں، لیکن پھر چلا کہ عید کے چاند کا یہ مسئلہ بڑا پرانا ہے۔عید اور رمضان کا تعلق خالصتاً چاند دیکھنے سے ہوتا ہے، لیکن چاند کے نظر آنے کا انحصار موسم کے صاف اور آسمان کے شفاف ہونے پر رہتا ہے۔ لیکن یہ ضروری تونہیں کہ چاند دیکھنے کے وقت ہر جگہ آسمان صاف شفاف ملے۔ چنانچہ اسلامی ممالک میں ہجری کیلنڈر کے مطابق نئے مہینے کی ابتداء جاننے کیلئے ملک کے ہر بڑے شہر میں رویتِ ہلال کا اہتمام کیا جاتا ہےکیونکہ جب تک عاقل و بالغ افراد کی ایک خاطر خواہ تعداد چاند دیکھنے کی گواہی نہ دے، نئے اسلامی مہینے کی شروعات نہیں ہو سکتیں۔ یہ معاملہ صرف ایک ہی دن کیلئے ہوتا ہے کیونکہ اسلامی کیلنڈر کے مطابق ایک مہینہ یا تو 29 دن کا ہوتا ہے یا 30 دن کا۔ اگر انتیسویں شام کو نیا چاند طلوع نہیں ہوا تو مہینہ تیس کا ہوگا اور اس سے اگلے دن خود بخود پہلی تاریخ ہو جائے گی۔ لیکن رمضان اور عید کا معاملہ چونکہ بہت نازک اور خصوصی ہے اس لئے اس میں ذرا سی بھی چوک آپ کے روزے اور عید دونوں کو مشکوک بنا سکتی ہے۔ یعنی اگر چاند صحیح طور پر نظر نہ آیا تو آپ روزہ چھوڑ کر عید نہیں منا سکتے اور نظر آ چکا ہے تو پھر عید چھوڑ کر روزہ جاری رکھنا بھی گناہ ہے۔ اسی لئے ہر سال رمضان کی آمد پر ملک بھر میں سرکاری سطح پر رویت ہلال کا اہتمام کیا جاتا ہے اور ملک بھر سے چاند دیکھنے کی گواہیاں جمع ہونے پر ہی رمضان کی ابتداء یا عید کا اعلان کیا جاتا ہے۔
ایک ہی ملک میں تین الگ الگ عیدیں کب منائی گئیں؟
چاند دیکھنے کے حوالے سے ویسے تو پاکستان بننے کے پہلے سال ہی سرکاری سطح پر ایک ادارہ بنا دیا گیا تھا کہ جو ملک بھر سے چاند دیکھنے سے متعلق گواہیاں جمع کر کے نئے اسلامی مہینے کی ابتداء کا اعلان کرتا تھا۔لیکن ملک کے دور دراز علاقوں میں لوگ عام طور پر اس کمیٹی کے اعلان پر انحصار کرنے کی بجائے خود ہی چاند دیکھ کر فیصلہ کرتے تھے کہ اگلے دن عید منانی ہے یا نہیں۔ خصوصاً صوبہ سرحد و بلوچستان کے بلند علاقوں اور پنجاب و سندھ کے میدانی خطوں میں عام طور سے چاند دیکھنے کی گواہیوں میں اختلافات کا امکان رہتا تھا۔ بلکہ 1961ء میں پہلی بار یہ اختلاف اس وقت کھل کر سامنے آیا جب پشاور کے رہائشیوں نے پورے ملک سے ایک دن پہلے عید منا لی۔ پھر ایوب کے دور میں 1961ء میں یہ غضب بھی ہوا کہ پشاور والوں نے 17 مارچ کو عید منائی، سرکاری سطح پر 18 مارچ کی عید کا اعلان کیا گیا جبکہ کراچی کے لوگوں نے مولانا احتشام الحق تھانوی کی قیادت میں 19 مارچ کو عید منانے کا فیصلہ کیا۔ یعنی ایک ہی ملک میں تین الگ الگ عیدیں ہو گئیں۔
2001ء میں جب میں کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا تو یہاں رمضان اور عید کے حوالے سے ایک عجیب مشاہدہ سامنے آیا۔ اسلام آباد کے بارے میں جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے تمام خطوں سے آنے والے تعلیم یافتہ افراد کا شہر ہے۔ پاکستان کے صوبائی دارالحکومتوں کراچی، کوئٹہ اور لاہور کے مقابلے میں پشاور اسلام آباد سے سب سے زیادہ قریب ہے۔ صرف دو ڈھائی گھنٹے کا بائی روڈ سفر کر کے ہی اسلام آباد سے پشاور پہنچا جا سکتا ہے۔چنانچہ اسلام آباد میں حصول روزگار کیلئے صوبہ خیبر پختونخواہ کے دارلحکومت پشاور سے خصوصاً اور صوبے کے دیگر شہروں سے عموماً ایک بڑی تعداد روزگار کے سلسلے میں اسلام آباد آتی ہے۔ چونکہ رویتِ ہلال کے موقعے پر سب سے زیادہ اختلاف عام طور سے پشاورکی طرف سے آتا ہے، چنانچہ اکثر یہ ہوتا ہے کہ دریائے سندھ کے کنارے اٹک کے مقام پر پنجاب کی حدود میں تو ابھی رمضان کے روزے چل رہے ہیں اور دریا پار کرتے ہی جہانگیرہ اور نوشہرہ میں دھوم دھام سے عید منائی جا رہی ہے۔
چنانچہ ہمارے وہ پختون بھائی جو اسلام آباد میں ملازمت کرتے ہیں وہ اکثر عید سے دو دن پہلے ہی اپنے شہروں کی جانب لپکتے ہیں تاکہ یہ نہ ہو کہ وہ اسلام آباد سے تو صبح سویرے روزہ رکھ کر روانہ ہوں اور پشاور یا مردان پہنچتے ہی انہیں عید کی نماز ادا کرنی پڑ جائے۔ اسی طرح کا اہتمام عام طور سے رمضان سے ایک دن پہلے وہاں پہنچنے کا بھی کیا جاتا ہے تاکہ ان کا پہلا روزہ قضا ہونے سے بچ جائے۔
قیام پاکستان کے بعد سے یہ اختلافات کئی سال تک تواتر سے سامنے آتے رہے، حتیٰ کہ 1974ء میں بھٹو دور میں قومی اسمبلی نے ”مرکزی رویت ہلال کمیٹی“ بنانے کا قانون پاس کر دیا اور مولانا احتشام الحق تھانوی کو اس کمیٹی کا سربراہ بنا دیا گیا۔ یہ کمیٹی بننے کے بعد چاند کا جھگڑا کچھ تھما اور اکا دکا اختلاف کے ساتھ ملک بھر میں عام طور سے ایک ہی دن عید منائی جانے لگی۔
1998ء میں ایک دن کراچی میں سابق ممبر صوبائی اسمبلی اخلاق احمد صاحب نے مجھے دستگیر سوسائٹی میں اپنے گھر بلایا۔ انہوں نے اپنی فلاحی تنظیم ”کارساز ٹرسٹ“ کیلئے مجھ سے بچوں اور بچیوں کو نماز سکھانے کی ایک وڈیو فلم بنوائی تھی۔ اس دن ان کے گھر پر یوں سمجھیں کہ اس وڈیو فلم کا پریمیئر شو تھا، جس میں کچھ لوگوں کو یہ فلم کو دیکھ کر اس کے مستند ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنا تھا۔ میں جب اخلاق صاحب کے گھر پہنچا تو ان کے ڈرائنگ روم میں ان کے علاوہ صرف ایک صاحب اور بیٹھے تھے۔ اخلاق صاحب نے مجھے بتایا کہ یہ ان کے دوست مفتی منیب الرحمٰن ہیں۔
مفتی صاحب مجھے پہلی نظر میں ہی ایک سنجیدہ اور پر وقار شخصیت لگے۔ وہ اس وقت کراچی کی معروف درس گاہ دارالعلوم نعیمیہ کے سربراہ تھے۔ مفتی صاحب نے ہمارے ساتھ بیٹھ کر انہماک سے وہ ایک گھنٹے کی وڈیو فلم دیکھی، اس میں کچھ اصلاحات تجویز کیں اور کچھ دن بعد ہمیں اس فلم کے مستند ہونے کا ایک سرٹیفکیٹ بھی دیا کہ جس کا عکس ہم نے اس فلم میں شامل کر دیا۔
1998ء میں وہ میری مفتی منیب صاحب سے پہلی ملاقات تھی۔ حکومت پاکستان نے اسی سال انہیں چیئرمین رویتِ ہلال کمیٹی بنایا تھا ۔ 1998ء سے 2020ء تک مفتی منیب صاحب ہی مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین رہے اور اس عرصے میں پاکستان کی اکثریت انہی کے اعلان کردہ چاند کے مطابق عید مناتی رہی۔ لیکن 2020ء میں پی ٹی آئی حکومت سے اصولی اختلافات کے باعث بائیس سال بعد ان کو کمیٹی کی چیئرمین شپ سے ہٹا کر بادشاہی مسجد لاہور کے امام و خطیب مولانا عبدالخبیر آزاد کو مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی کا سربراہ بنا دیا گیا۔