عبدالرحمان واصف کا اردو شعری مجموعہ "تَحیُّر”
تحریر : قیوم طاہر

عبدالرحمان واصف کا اردو شعری مجموعہ "تَحیُّر”
یہ جو کہوٹہ کی زمیں ہے یہ بھی کمال ہے، خود کو بنجر رکھنے پہ آئی تو خال خال کوئی بوٹا دکھائی دیا اور جب ابر برسا تو جل تھل ہو گیا۔ گھاس اگی اور شجر یوں بڑھے کہ کوہساروں نے جھک کے دیکھا۔ یہ ابر کوئی اور نہیں جاوید احمد ہے کہ جس نے ایک باغ لگا دیا، کہوٹہ جانے والے رستوں کو گلزار کر دیا اور اپنے پیچھے ایک کہکشاں، ایک دھنک ، ایک چراغوں کی قطار بنا دی۔ اس کہکشاں میں واصف، عبدللہ کمال، عباس، حسن ظہیر راجا، پروفیسر حبیب گوہر، نوید فدا ستی، اور بہت سے ستارے جگمگا رہے ہیں۔
واصف کا یہ دوسرا شعری مجموعہ ہے اور اس کی محبت ہے کہ اس نے یہ تحفہ عنایت کیا۔
واصف بلا کا پُر گو ہے، اتنا پرگو کہ کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے۔ اکثر احباب زود گوئی کے سفر میں کسی اجاڑ رستے کو بھی جا نکلتے ہیں کہ وہ مطالعہ کے بجائے صرف اندر کے زور پر تخلیقی عمل جاری رکھنا چاہتے ہیں اور یوں وہ خود کو دہرانا شروع کر دیتے ہیں، جو ایک بڑے نقصان کا باعث بنتا ہے۔ واصف تا حال اس لکیر سے بہت دور ہے۔
"تَحیُّر” کا مطالعہ کرنا مجھے اچھا لگا کہ یہ مجموعہ شعری توانائی سے بھرپور ہے۔ کئی اشعار نے پوری غزل کو پھر سے پڑھنے پر اکسایا۔ کچھ اشعار نے بار بار روکا بھی۔۔۔
میں تیرا خواب کبھی تھا سو مجھ سے آنکھ نہ پھیر
کبھی تھا میں بھی ترے دل کی آرزو ، مجھے سن
میں اٹھاتا ہوں راکھ ، مٹی سے
راکھ سے آگہی بناتا ہوں
نقش تصویرتا ہوں آنکھوں میں
اور لبوں پر ہنسی بناتا ہوں
رکھ پاؤں بھی ایسے ، کہ نہ آہٹ بھی کوئی ہو
چپ چاپ مرے دل کے علاقے سے گزر جا
فیس بک کی دنیا نے شعر و ادب کے علاوہ بھی ہر فیلڈ میں تیز رفتاری کی کیفیت پیدا کی ہے، جو ٹیکنالوجی کی حد تک تو درست مانی جا سکتی ہے لیکن ادب ایک پراسس ہے، یہ وقت لیتا ہے، یہ بیج بونے سے اگنے تک، جڑ پکڑنے تک، لہلہانے تک، سٹا لگنے تک، کٹنے اور گوندھے جانے تک کا عمل ہے۔ سو اس میں دھیرج بھی ضروری ہے۔
اس خوبصورت مجموعے کی اشاعت پر واصف کے لیے ہدیہ تبریک و تحسین۔
،،،،،،،،،، قیوم طاہر ،،،،،،،،،،