عبادت میں دل کیوں نہیں لگتا؟
گفتگو : محترم احمد جاوید صاحب
آج کل بہت سے لوگوں کو ایک رکاوٹ اور دشواری پیش آتی ہے، یہ ایسے لوگ ہیں کہ جو عبادت کی اہمیت کو مانتے بھی ہیں، جانتے بھی ہیں، اپنے معبود کے ساتھ ان کا کوئی ایمانی مسئلہ بھی نہیں ہے، مطلب اللہ کے بارے میں بھی کوئی وسوسہ نہیں ہے، اسلام پر بھی کامل یقین ہے، لیکن اس کے باوجود ان کے لیے عبادات میں رغبت نہیں رہتی، یہ عبادات کی طرف کشش محسوس نہیں کرتے اور نماز وغیرہ پڑھتے وقت بھی ایک پریشان خیالی اور بے رغبتی کی حد تک پہنچے ہوئے کچھ احساسات میں مبتلا رہتے ہیں۔ اب یہ جو عبادات سے بے رغبتی کا مسئلہ ہے، اس کی وجہ سے بھی ان کے اندر کئی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں، مثلا معمولی عذر بھی اگر پیش آ جائے، تو اس عذر کی بنیاد پر عبادات کو چھوڑنا ان میں سے اکثر لوگوں کا جیسے معمول بن جاتا ہے۔ عبادات کو چھوڑنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ نماز چھوڑ (ہی) دی، مطلب ایسے معاملات کو چھوڑنا یا کم کردینا جن کا تعلق عبادت سے ہے، مطلب ذکر ہے، تلاوت ہے، تعلیم ہے۔
یہ ایک عام شکایت ہے، کہ اللہ کے ساتھ براہ راست تعلق کا شعور اور احساس پیدا کرنے والے اعمال میں دل نہیں لگتا یا کم از کم اتنا نہیں لگتا کہ بیچ بیچ میں آتی رہنے والی رکاوٹوں سے آدمی اپنے جذبے، ذکر اور اپنے زورِ بندگی سے نکل آئے۔ تو اگر آپ اور ہم، اس وقت کسی موجودہ دینی شغل میں ہیں، تو اس میں رہنے سے بے فکری نہیں پیدا کرنی چاہیے، مطلب یہ بے فکر ہو جانے کی بات نہیں ہے، کہ نماز بھی پوری ہو رہی ہے، روزے بھی رکھ لیتا ہوں اور تلاوت بھی کرلیتا ہوں، تو اس کو ایسی ضمانت بنا لینا کہ اب غفلت اور بے رغبتی سے میں مستقل کلیتاً محفوظ ہو گیا ہوں، اس کا کوئی جواز ہمارے پاس نہیں ہے، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ہم اللہ سے تعلق میں اخلاص، عاجزی، محبت اور خشیت کے مطالبات پورا کرنے سے بچنے کے لئے عالم بن گئے ہوں، واعظ بن گئے ہو ں، مجاہد بن گئے ہوں، انقلابی بن گئے ہوں، تحریکوں کے رہنما بن گئے ہوں، آپ سمجھ رہے ہیں نا، تو یہ بہت ہی خطرناک مرض ہے، اس کی موجودگی میں دوسری چیزیں تو بعد میں آتی ہیں، خود ایمان question ہو جاتا ہے۔
مطلب یہ کوئی عمل نہیں ہے ‘بے رغبتی’، کہ سو اعمال میں سے دس غلط ہو گئے، تو چلو پھر بھی امید کا کوئی پہلو ہے۔ یہ وہ مزاج ہے جو اللہ پر ایمان رکھنے والوں کا ہو ہی نہیں سکتا کہ اس کا دل اللہ کی یاد میں نہ لگے، یہ تو ہو سکتا ہے کہ بیچ بیچ میں شیطان کی مداخلت سے، نفس کی امارگی سے یا کسی وقتی داخلی یا خارجی رکاوٹ سے آدمی کو ذکر اور عبادت کی طرف یعنی اللہ کی طرف اپنی رغبت کا احساس نہ رہے، یعنی بیچ بیچ میں ایسے وقفے جو ہیں، وہ مخلص ترین آدمیوں کو بھی آسکتے ہیں کہ انھیں یہ محسوس ہو کہ جیسے اس ایک گھنٹے میں اپنے دل کی محبت کے ساتھ، نفس کی رغبت کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ نہیں رہا یا میری یہ نماز یا وہ نماز اس طرح کی نہیں ہوئی جیسے کہ نمازیں ایک مہینے سے ہوتی آرہی تھی۔
یہ وقفہ تو آسکتا ہے، یہ کسی بیماری کی وجہ سے بھی آسکتا ہے، کسی وقتی کمزوری اور پریشانی کی وجہ سے بھی آسکتا ہے، لیکن اگر زندگی اس طرح کی ہو کہ پورا مہینہ گزر جائے اور کسی وقت قرآن پڑھتے وقت رونا محسوس نہ ہو، نماز پڑھتے وقت اس سے نکلنے کو دل نہ چاہے ذکر کر لینے کے بعد یہ احساس ہو کہ ارے میں تو ایک گھنٹے کے لئے بیٹھا تھا یہ تو تین گھنٹے گزر گئے مجھے پتہ ہی نہیں چلا، تو اگر کسی آدمی کی زندگی میں ایسے تجربات کم ہو جائیں یا مجھے تو اب یہ بدگمانی ہے کہ بہتوں کی پوری پوری زندگی میں ایسا کوئی ایک تجربہ بھی نہیں آتا، تو یہ بہت ہولناک بات ہے، کیونکہ ہم آپ سب اپنی اپنی زندگی میں اور زندگی کے تجربات سے یہ بات یقینی شدت اور قطعیت کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کچھ تعلقات یا ہماری کچھ رغبتیں ایسی ہیں جن میں پڑ کے ہمیں وقت کا احساس نہیں رہتا، جن کو کرتے وقت ہمیں کوئی اور دھیان بھی نہیں آتا، ایسے سینکڑوں تجربات ہیں ہر آدمی کی زندگی میں۔ تو ہمیں اپنے اندر محو اور جذب کر لینے والی دیگر مشغولیات ہیں، لیکن ان مشغولیات میں ایک شغل بھی ایسا نہیں ہے جو اللہ کے لئے ہو، یعنی جس میں دوسرے end پر اللہ ہو۔
گھر بنانا ہے تو اس کے نقشے بنا بنا کے سو صفحے ضائع کردیں گے، کئی کئی دن گھر کے علاوہ کسی چیز کا خیال بھی نہیں آئے گا یا کوئی اور منصوبہ بنا رہے ہیں تو دن رات، سوتےجاگتے، اٹھتے بیٹھتے اسی کی طرف لگے ہوئے ہیں۔ ذہن بھی اسی طرف لگا ہوا ہے، دل بھی اس کی جانب لپکا ہوا ہے، تو آپ سمجھ رہے ہیں نا کہ بچہ پیدا ہونے والا ہے تو چار مہینے پہلے سے دماغ کا سارا تصور اس میں کھویا ہوا ہے، تو یہ صرف اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بھیجا ہوا دین، یہ ہماری بندگی ہی ایسی رہ گئی ہے، جس کے لئے یا جس سے صادر ہونے والا کوئی عمل ہمارے دل کو capture نہیں کرتا۔ یہ مطلب بہت پریشانی کی چیز ہے اور اگر اللہ نے ہم پر فضل نہ فرمایا تو قیامت کے دن اس سوال کے بعد دوسرے سوال کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔
تو اس مصیبت کو ہم ایک اور طرح سے formulate کرتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالی نے مسلمان کی جو بدترین خرابی بتائی ہے نا، وہ کیا ہے، یعنی ایسا شخص جو خود کو مسلمان سمجھتا ہے، مسلمان ہونے پر راضی ہے، لیکن اس کے باوجود انتہائی خطرے میں ہے، انتہائی خطرے میں، اس طرح سے کہ وہ مزاجاً منافقوں کی طرح ہے۔ اللہ تعالٰی ایسے بندے کی کیا شناخت بتاتے ہیں؟ کیا پہچان بتاتے ہیں اس آدمی کی جوذہن سے بھی مسلمان ہے، مسلمان رہنا بھی چاہتا ہے، اسلام سے نکلنے کا تصور بھی نہیں رکھتا، ایسے آدمی کی پہچان یہ ہے کہ یہ شخص جب بھی نماز کے لئے اٹھے گا، کسل، سستی اور بیزاری کے ساتھ اٹھے گا، یعنی اللہ کے تعلق کو مستحکم اور حاضر رکھنے والے اعمال میں سستی دکھائے گا اور بے رغبتی کا مظاہرہ کرے گا، زبانِ حال سے تو اس کو سمجھ لیں کہ جس آدمی میں یہ عیب ہے، اس کا بڑے سے بڑا دینی، اخلاقی اور روحانی کارنامہ بھی اس محرومی کی compensation نہیں ہے، کہ اللہ کے حضور میں بیٹھ کر اس کا دل نہیں لگتا۔
حدیث ہے نا کہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے مجاہد آئے گا، شہید آئے گا تو جو اپنے آپ کو شہید سمجھتا ہو گا، اللہ کہے گا کہ تو تو بہادر کہلانے کے لیے، مال غنیمت میں حصہ بانٹنے کے لئے جہاد میں شریک ہوا تھا، تو کہاں کا شہید؟
تو اس مرض کو سمجھیں اور یہ مرض اب مسلمانوں میں ایک انتہائی وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا مرض ہے، جس میں اچھے لوگ زیادہ گرفتار ہیں۔ اس کو سمجھیں اور اس بے رغبتی کا علاج کریں، ورنہ اللہ تعالی ہمارے کسی بھی تعلق کو ہمارے لئے مفید نہیں رہنے دے گا، تو بہرحال اس کے علاج کے طور پر تین تدابیر عرض کرتے ہیں۔
پہلی تدبیر ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مزاجی مناسبت پیدا کرنے کی کوشش کرنا۔
یہی تدبیر اگر اخلاص کے ساتھ اور سنجیدگی کے ساتھ عمل میں لائی جائے، تو عبادات میں بے رغبتی کے روگ کا واحد علاج ثابت ہوسکتی ہے۔ بلکہ یوں کہہ لیں کہ تمام دینی خرابیوں کا یہ ایک تدبیر مکمل اور مجموعی علاج ہے۔ اب دیکھیں نا کہ تزکیہ کا منتہیٰ یہ ہے کہ آدمی کا مزاج اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاجِ گرامی کے سائے میں پروان چڑھنے والا پودا بن جائے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ عادات ِمبارکہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جہتِ بشریت سے تعلق رکھتی ہوں، یعنی جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں کرنے کا حکم نہ دیا ہو، لیکن خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نظامِ عمل، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بنیادی رویے، ان عادات اور مزاج سے پیدا ہوا کرتے ہوں تو یہی اسوہ ہے۔ اسوہ اسے کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے وجود کی تمام ضرورتوں کے لئے مستقل اور اٹل نمونہ بنا لیا جائے، اسوہ اسے کہتے ہیں کہ تمہیں جو کچھ بننا ہے اس تعمیر کی ہر بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت رکھنے والی کسی چیز پر رکھو، تو یہ بے مروتی ہے نا، کہ جن چیزوں کی نسبت ثابت ہوجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت سے، ان چیزوں کے بارے میں بے اعتنائی اور ناقدری کا رویہ اختیار کیا جائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہادی بھی ہیں اور مکمل بھی۔ مکمل اس کو کہتے ہیں کہ جس ذات کو حوالہ اور سند بنائے بغیر انسانیت کی تشکیل کا عمل پورا نہ ہو سکے، پورا ہونا تو دور کی بات ہے، شروع بھی نہ ہو سکے، یعنی جس کو سامنے رکھے بغیر ہم اپنی تعمیر کا کوئی بھی مرحلہ طے نہ کر سکیں۔ یہ ہے وہ نارمل مبنی بر خیر آدمی، جو خود کو تعمیر کرنے کی pre qualification رکھتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں بندگی کا model ہیں یعنی اپنی جہتِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے، جہاں ہدایت کا واحد ذریعہ ہے، وہاں انسانیت کا بھی ماڈل ہیں اپنی خلقت سے، اپنی شخصیت سے، اپنی طبیعت سے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مختلف رویے ہیں مختلف عادات مبارکہ ہیں جو جتنی بھی ہمارے آپ کے علم میں ہیں ان کو اختیار کریں، رغبت کے ساتھ اختیار کریں، محتاجی کے ساتھ اختیار کریں اور ان کے بارے میں یہ approach چھوڑ دیں کہ اس عادت کی پیروی کا، اس مزاج کی تقلید کا حکم دکھاؤ، کیونکہ یہ تمام اجزاء ایک بڑے بیان میں شامل ہیں، یہ اجزاء بیان ہو چکے ہیں۔ اور وہ حکم، جس حکم کے یہ اجزاء ہیں، لازمی اجزاء، وہ حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نہیں ہے، اللہ تبارک وتعالی کا ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے لئے نمونہ اکمل ہیں، یعنی ہدایت میں نمونہ دیکھنا چاہو گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اپنے مزاج کی تعمیر میں، اپنے نفس کی بناوٹ میں، اپنی طبیعت میں، اپنے رویوں میں اگر نمونہ دیکھنا ہے تو وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔
یعنی اللہ سے تعلق میں اگر کوئی مکمل نمونہ دیکھنا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ چیزوں کے ساتھ، لوگوں کے ساتھ، دوسروں کے ساتھ، اپنے نفس کے ساتھ تعلق میں نمونہ دیکھنا ہو تو وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہیں۔ تو اس بات کو سمجھیں، اس کو اپنائیں کہ مثال کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب صبح اٹھتے تھے یا رات کو اٹھتے تھے تو آنکھ ملتے تھے تو اس نیت سے آنکھ ہی مل لیا کرو، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب لیٹتے تھے تو دایاں ہاتھ دائیں رخسار کے نیچے رکھتے تھے، اب اس کی کوئی تعلیم نہیں ہے، لیکن یہ کہ اس کو اختیار کرو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب لیٹتے تھے تو داہنی کروٹ پر لیٹتے تھے اور اٹھتے تھے تو اسی کروٹ سے اٹھتے تھے۔ اس کو اختیار کر لو تو اس طرح ہی یہ کہ جیسے موسم کا پہلا پھل آیا ہے، اسے کسی بچے کو دے دو تو اس طرح مطلب بہت ساری چیزیں ہیں، جو ہماری آپ کی اپنی اپنی بساط کے مطابق ہمارے علم میں ہیں، جتنا بھی علم میں ہے اتنا اختیار کرلیں، تاکہ آپ اچھے آدمی بن سکیں، ایسے آدمی بنیں جن کی بناوٹ اچھی ہوتی ہے، جن پر ہدایت فورا ًاثر کرتی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تبارک وتعالی نے ایسا بنا کر بھیجا تھا کہ وہ نفس کا تزکیہ کرنے کا بھی آخری سامان لے کر آئے اور نفس میں جو تزکیہ قبول کرنے کی استعداد ہوتی ہے، اسے پیدا کرنے کے لئے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تشریف لائیے۔ آپ سمجھ رہے ہیں نا، ہمارے اسلاف اس معاملے میں ہم سے بہت آگے تھے اور وہ آگے اس لئے تھے کہ انہوں نے اپنی ساری زندگی اس حکمت، اس نقطے پر عمل کرتے ہوئے گزاری، مطلب ان کے لئے یہ ایک بہت زندہ چیز تھی، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح نوش فرمایا، اس چیز کو رغبت سے کھایا، اس چیز کی طرف سے بے رغبتی ظاہر فرمائی، ان کے لیے یہ تمام چیزیں بہت زندہ، با معنی، بہت پروڈکٹیو اور سپرچوئل چیزیں تھیں، کیونکہ ان چیزوں میں میرے لئے زندگی نہیں ہے، معنویت نہیں ہے، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، جو خلاصۃ الایمان، منتہائے ایمان ، کمال ایمان ہے، اس کا امیدوار بھی نہیں بن سکتا۔
محبت کسی معاہدے کا نام تھوڑی ہے کہ حکم دیں گے تو میں تعمیل کر دوں گا۔
محبت نام ہے، اپنے آپ کو مسلسل خالی برتن کی طرح اپنے محبوب کے حضور میں رکھنا کہ جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس میں بھر جائے گا وہ مجھے درکار ہے، میں اس کا محتاج ہوں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دینے کے لئے متعدد اور متنوع چیزیں ہیں، آپ اپنے آپ کو گاہک بناکر وہاں نہ لے جائیں اور سیدھی بات ہے انسان محبوب اور محبوبیت کے بارے میں فطری علم رکھتا ہے، اسے اس کے لیے کوئی کتاب دیکھنے کی حاجت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو محبت طلب کی گئی ہے اور جو محبت میں مدارِ ایمان ہے، وہ محبت حسی ہے، فطری ہے اور وہ ہے جس کے رنگ سے، جس کی ماہیت سے، جس کی معنویت سے، ہم قدرتی طور پر واقف ہیں، اپنی اولاد کے ذریعہ سے، اپنے ماں باپ کے ذریعے سے، اپنی پسندیدہ چیزوں کے ذریعے سے، اپنی ذات کے ذریعے سے۔
تو ہم اس میں اپنے آپ کو دھوکا نہیں دے سکتے، کہ محبت عقلی ہوتی ہے، ذہنی ہوتی ہے یا ارادی ہوتی ہے۔ محبت کہتے ہی ہیں، سراپا نثار ہو جانے کو اور نثار ہوتے رہنے کو۔ تو اس میں مجھے اور آپکو چوائس کا حق نہیں ہے۔ ہاں آپ نے خود اپنی طرف سے عطا ہونے والی چیزوں میں ایک نظامِ ترجیح قائم فرما دیا ہے، اس نظام ترجیح کی مجھے پاسداری کرنی ہے، پابندی کرنی ہے، اس کو تو بھائی !اس کو ضرور کریں۔ اس کو کریں گے تو اس دور کی، دورِ جدید کی نحوستوں سے بچنے کا سب سے یقینی اور مضبوط ذریعہ حاصل ہوجائے گا۔ اس دور کی نحوست سے کوئی تعلیم نہیں بچا سکتی، کوئی نظام العمل نہیں بچاسکتا، کوئی نئی یا پرانی فکر نہیں بچا سکتی، اس کی نحوست سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ محبت بچائے گی، جس کا یہ تقاضا ہے کہ آپ سے منسوب ہر عمل، ہر رویے کی طرف لپکو اور اس کو اپنی تشکیل کا بنیادی عنصر بنا لو، یہ ہمارا مدار ہستی ہے، یہ ہمارا مزاجِ وجودہے۔ ہم اسی قدر سیف سائڈ پر موجود ہیں، جس قدر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی بھی حیثیت سے مناسبت رکھتے ہیں، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرب رکھنے والا دل آپ سے دوری کے وقت سے افضل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوری کے وقت سے افضل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ سے صادر ہونے والے رویے اور اعمال کی نسبت تو اس دن سے زیادہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رویہ تاریخ کے مقابلے میں زیادہ قربت رکھتا ہے نا، تو اس کو کیوں نہیں نبھاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر رویہ، ہر عمل چاہے وہ بناوٹ میں طبعی ہو، کچھ بھی ہو، وہ حق کے ساتھ تعلق کا کوئی نیا روزن ضرور کھولتا ہے، آپ کل بندگی کا مظہر ہیں اور وہ کل بندگی کہیں قانونی رنگ میں ظاہر ہوا ہے، کہیں نفسیاتی رنگ میں ظاہر ہوا ہے، کہیں عقلی رنگ میں ظاہر ہوا ہے، کہیں غیر اختیاری معاملات کے اسلوب میں ظاہر ہوا ہے، کہیں شخصیت کی کسی اور سطح سے نمود پاتا ہے، تو بھائی اس کا بہت خیال کرنا چاہیے، مطلب ساری زندگی اس طرح گزاریں۔ اللہ تعالی مرنا بھی اس شعور کے ساتھ نصیب فرمائے۔
رسول اللہ اس دنیا سے تشریف لے گئے، ایسے لوگ ہوئے ہیں جنہوں نے مرتے وقت نزع کے وقت پانی کا برتن منگا کے ہاتھ میں لے کر پیشانی پر پھیرے، کہ الحمدللہ یہ آخری اتباع تو کر لوں۔ ایسے لوگ بھی ہوئے ہیں، جنہوں نے یہ کر لیا اور مرے نہیں تو افسوس کرنے لگے، کہیں یار، وہ تو ہو گیا اب پتا نہیں جب موت آتی ہے اس وقت یاد رہتا ہے یا نہیں، اس وقت موقع ملتا ہے یا نہیں۔ یعنی اس پر افسوس کرنے لگے مرا کیوں نہیں۔
دوسرے یہ کہ، روز دو احساسات کی تجدید کیا کریں، یہ بہت سادہ نسخہ ہے، یعنی جو چاہتا ہے وہ اپنی زندگی میں مخلص ہو، صادق ہو، اللہ کے کاموں میں اسے بے زاری نہ ہو، اس کا دل لگے، اس کو اصولاً تو یہ کرنا چاہیے جو میں نے پہلے عرض کیا اور اسی خزانے میں سے دو موتی ہیں جن کو ذرا زیادہ اہمیت دے کر اختیار کریں، وہ ہے کہ روز اللہ کی ثناء اور استغفار کے احساسات کی تجدید کیا کریں، تو ان شاء اللہ عبادات میں کسل کا مرض دور ہو جائے گا۔ روز سبحان اللہ سے وابستہ احساس کو اپنے اندر regenerate کرو اور روز استغفار سے جڑی ہوئی لازمی کیفیت کو اپنے اندر تازگی فراہم کرو، تو اللہ نے چاہا تو تمہاری عبادت رغبت کے ساتھ ہوگی، طبیعت کی شمولیت کے ساتھ ہوگی اور تمہیں ان لوگوں کی صف سے نکال دے گی، جن پر اللہ غضبناک ہوتا ہے، کہ یہ لوگ میری نماز میں کسل کرتے ہیں۔ تو اللہ مجھے بھی یہ نصیب فرمائے اور آپ کو بھی نصیب فرمائے، یہ سب کرنے ہی سے ہو گا، اس میں اپنے آپ کو دھوکہ نہ دو، ہر کامیابی تم نے محنت سے حاصل کی ہے، تو اس کامیابی کو یہ نہ سمجھو کہ نعوذباللہ اللہ تعالی مؤدب ہوکر ایک خوان سا سجا کر تمہاری خدمت میں حاضر کرے گا، اس میں محنت درکار ہے اور محنت بھی درکار ہے اور یکسوئی بھی مطلوب ہے۔
ایسا کوئی نسخہ نہیں دیا گیا ہمیں کہ ہم یکسوئی اور محنت کی شرط کو بائی پاس کر کے اللہ کی خوشنودی، اللہ کا قرب اور بندگی کا کمال حاصل کر لیں۔ ایسے شارٹ کٹ کی تلاش بھی نفاق ہے، تو جو آدمی پہلا ہی قدم نفاق سے اٹھائے گا، خلافِ بندگی نیت اور جذبے کے ساتھ اٹھائے گا، تو اس کے باقی سفر کے کیا معنی ہیں۔
تو بہرحال تین چیزیں ہیں، پہلی چیز کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج مبارک کا عکس قبول کرو، دینی دائرے میں بھی، دنیاوی اور نفسیاتی اور طبعی دائروں میں بھی، احکام کی صورت میں بھی، ادب اور رغبت و کراہت کے پیراڈائم میں بھی۔
اللہ کرے کہ ہم لوگ ایسے بن جائیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو چیز مرغوب ہیں، ہمیں بھی مرغوب ہو جائے اور جو نامرغوب ہے، ہمارے لئے بھی نامرغوب ہوجائے۔ تو اس کو اس نظر سے دیکھو کہ ایک ذاتِ گرامی ہے، جو اللہ سے تعلق کے ہر منظر کی طرف کھلنے والا روزن اسی ذات گرامی میں اور اسی ذات گرامی سے کھلتا ہے اور یاد رکھنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طلب فرمودہ محبت حِسی محبت ہے، ذہنی محبت نہیں۔ اسی لئے جو تقابل کیا گیا ہے اس حدیث میں، وہی ان محبتوں میں کیا گیا ہے، کہ اولاد سے زیادہ محبوب ہو جائیں، ماں باپ سے زیادہ محبوب ہو جائیں، یہ تھوڑی فرمایا ہے کہ تمہارے ذہن کے فلاں تصورات سے زیادہ محبوب ہو جائیں، تمہارے فلاں فلاں ارادوں سے زیادہ محبوب ہو جائیں، نہیں، کیونکہ تقابل ہم نو ع چیزوں میں ہوتا ہے، جو ایک جیسی چیزیں ہوں بنیاد میں، ان میں ہوتا ہے۔
تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی مثال دے رہا ہوں کہ آپ ایک سفر میں رسول اللہ کے ساتھ سواری پر جا رہے تھے راستے میں ایک درخت آگیا تو اس کی شاخ سے بچنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر مبارک کو خم فرمایا، تھوڑا آگے جا کے اونٹنی کو بٹھا کے استنجاء کے لئے ایک خاص وقت پر رخ پر تشریف لے گئے، اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے جا چکے تھے، وہ پیڑ بھی کٹ چکا تھا، لیکن سیدنا ابن عبداللہ رضی اللہ عنہما جب بھی وہاں سے گزرا کرتے تھے، اس جگہ سر جھکاتے تھے اور آگے جاکے بلا ضرورت بھی استنجاء کے لیے اسی رخ پر تشریف لے جاتے تھے۔
ہم کوئی ان سے زیادہ دین کے مطالبات سمجھتے ہیں ؟
اور صحابہ کہتے تھے، ہم میں سے کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسی کامل مشابہت نہیں رکھتا، جو عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما رکھتے ہیں۔ یہ جملہ سننے کے لئے آدمی قیامت تک محنت کر سکتا ہے کہ فلاں آدمی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت رکھتا ہے، مشابہت رکھتا ہے۔ مطلب یہ جملہ سننے کے بعد میرے دل میں کوئی خواہش رہے گی ہی نہیں، سوائے اس کے کہ میں عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے کچھ اور کمالات جانوں، جس سے میرے تاثر عقیدت میں اضافہ ہو جائے، بس یہ منتہا ہے۔ ان کی کوئی بھی فضیلت اس مرتبہ فضیلت میں اضافہ نہیں کر سکتی، یہ بات ہم جانتے ہیں اپنے ذوق کے ساتھ، لیکن یہ خیال ضرور رہے، طبعی اتباع میں ایک حکمت چاہئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہر وضع جو ہے نا، اس دائرے میں نہیں آتی، فرض کیا کوئی اس طرح کا لباس پہن لیتا ہے، تو اب وہ اتباع نہیں کر رہا بلکہ اس لباس کی تحقیر کا سبب بن رہا ہے، تو امت نے آپ کی عادات مبارکہ کی پیروی کو سٹینڈرڈائزڈ کر کے ہم تک جتنا منتقل کیا ہے، بس وہاں تک رہیں اور اس کو نبھائیں۔ ان میں اکثر چیزیں جب ہم کرنے چلیں گے نا تو ہمیں پتہ چلے گا کہ وہ تنہائی کی ہیں، ان کا تعلق جلوت سے زیادہ خلوت سے ہے۔ مثال کے طور پر مجلس میں بیٹھے بیٹھے چپکے چپکے دس مرتبہ استغفار پڑھ لیں، اب اس میں تو کوئی رکاوٹ نہیں، تنہائی میں لمبی نماز پڑھ لی، اس میں تو کوئی رکاوٹ نہیں۔ جو چیزیں میرا اور آپ کا مزاج بناتی ہیں نا، وہ چیزیں تنہائی میں ظہور کرتی ہیں، وہ چیزیں تنہائی سے مناسبت رکھتی ہیں۔ نماز کے لئے زینت اختیار کرنا، کچھ نہیں تو یونہی آستین کو سیدھی کر لیں یا شکنوں کو دور کر لیں، چاہے شکنیں نظر نہ بھی آرہی ہوں، ٹوپی کو ذرا ترچھا سیدھا کر لیں، چاہے اس کی ضرورت نہ ہو، بس یونہی اس طرح کی زینت کو اختیار کرنے کی طرف اشارہ کرنے والا کوئی عمل بلا ضرورت کرلیں۔ چھوٹے چھوٹے جو مکینیکل اعمال ہیں، جو کرنے ہی پڑتے ہیں، وہ اصل میں ہماری حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ایسے اعمال کو بہت اہمیت دیں اور ان کے بارے میں جانیے کہ یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں کس صورت میں تھے، کھانا کھانا ہی ہے، نیند لینی ہی ہے، سونے کے بعد اٹھنا ہی ہے، پانی پینا ہی ہے، آدمی سے مصافحہ کرنا ہی ہے، اب ان چیزوں میں معلوم کریں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیسے کرتے تھے۔
زندگی کے میکانیکس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اتباع کی تحویل میں دے دیں، یہ یاد رکھیے گا زندگی کا ایک میکانیزم ہوتا ہے، اس میکانیزم کو رسول اللہ کی اتباع میں صرف کردیں، جس نے یہ کر لیا وہ متبع سنت ہونے کے لائق ہو گیا