ضلع مری۔۔۔۔ عذاب یا ثواب
بغیر کسی منصوبہ بندی کے عجلت میں کی گئی ضلع مری کی تشکیل کو کئی برس گزر گئے ہیں۔ لیکن اس کے کوئی مثبت ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچے بلکہ تحصیل مری کے عہد میں ہونے والے آسان اور عام سرکاری کام بھی اب پاپڑ بیلنے کے بعد بھی بہ مشکل ممکن ہوتے ہیں۔ عوام بجا طور پر سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ "ضلع مری عذاب ہے یا ثواب”۔
ضلع مری کی تشکیل کے بعد افسر شاہی اور اس کے الَلے تَلَلے اور بے جا پروٹوکولز نے عوام کا جینا دو بھر کر دیا ہے۔ جب کہ کام ٹکے کا نہیں ہوتا۔ اس کی کچھ جھلکیاں ماضی قریب میں اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ متعلق افسر عوام کی جائز درخواست پر فی الفور عمل درآمد کرے بلکہ عوام کے کہے بنا ہی اپنی آنکھوں سے دیکھ کر فرائض منصبی کو انجام دے مگر ہر محکمے کا افسر عوام کی درخواستوں پر تب تک عمل نہیں کرتا جب تک ڈپٹی کمشنر سے لکھوا کر نہ لایا جائے یا فون نہ کروایا جائے۔ ایک عام آدمی کی ڈپٹی کمشنر تک رسائی جوئے شیر لانے کے مترادف نہیں؟۔ دوسرا اس ہوش ربا مہنگائی اور گونا گوں مسائل کے دور میں عام آدمی اپنے گھر کا پیٹ پالے یا ان دفاتر کے باہر ایڑیاں رگڑتا رہے؟ یہی وجہ ہے کہ عام آدمی "ضلع” کے نام سے ہی متنفر ہوتا جا رہا ہے۔
ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ ضلع مری پہاڑی علاقے پر مشتمل ہے۔ جس کے حدود اربعہ اور آبادی ایک ہی مرکز کے گرد گھومتے ہیں، جسے "مری شہر” کہا جاتا ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے تمام دفاتر، پولیس کے محکمے، عدالتیں، فشریز و زراعت کے محکمے ۔۔۔ سب مری شہر میں ڈیرے ڈالنے کے خواہاں ہیں۔ جہاں ہر افسر کے ساتھ اگر اضافی پروٹوکول گاڑیاں گشت کریں تو مری کی شاہرائیں تو انہی کی "آنیاں جانیاں” برداشت نہ کر پائیں گی جب کہ غریب آدمی تو یہاں پہلے ہی سیزن کے دنوں میں تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال پہنچنے کے لیے کلڈنہ ٹریفک وارڈن سے جھگڑتا رہتا ہے کہ گاڑی میں مریض ہے خدا کے لیے اس سڑک کے ذریعے اس کو بھی ہسپتال جانے دو جس پر اہل ثروت کی مہنگی گاڑی نظر آنے پر وہ اس زور کا سلوٹ کرتا ہے کہ زمین ہل جاتی ہے۔ اسی طرح سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی کے بچے جو پہلے ہی سیزن میں بے ہنگم ٹریفک کی وجہ سے تاخیر اور اذیت کا شکار رہتے ہیں ان کے مسائل میں انتظامیہ کے یہ بےجا پروٹوکول اور کر و فر مزید اضافہ فرمائیں گے۔ پھر جس مقصد کے لیے یہ دفاتر بنائے گئے ہیں ان میں روزانہ ہزاروں سائلین عرضیاں لے کر کیسے پہنچیں گے؟ اور ہزاروں سیاح کہاں جا کر کیٹ واک کریں گے؟ مری کا کاروبار سیاحت بھی اسی شہر سے وابستہ ہے، جہاں لاکھوں سیاح ہر سال آتے ہیں۔ ان کو وہ سکون کیسے میسر ہو گا جس کی وہ توقع رکھتے ہیں۔ گویا سیاحت متاثر ہو گی اور کاروبار میں کمی یقینی ہے۔
تین کلو میٹر کے ریڈیس radius میں دو درجن محکمے، پھر ان کی افسر شاہی اور پروٹوکول، ان کے دفاتر، ان کی ہُوٹر والی گاڑیاں، (ساتھ ہی ساتھ کینٹ ایریا جو پہلے ہی نوگو ایریا ہے) اور ہٹو بچو کی آوازیں ۔۔۔ یہ سب کیا عوام کو ریلیف دے گا یا عوام کا جینا دو بھر ہو جائے گا؟
ضلع مری کا جشن منانا اور بڑے بڑے دعوے کرنا آسان ہے لیکن اس کو جھیلنا آسان نہیں۔ پھر یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ریوینیو ڈیپارٹمنٹ اور اس کے اہلکار طرح طرح کے ٹیکس عائد کر کے ضلعے کا خرچہ بھی عوام کا خون نچوڑ کر نکالے گا۔
تمام تر محکمے موجود ہونے کے باوجود اگر عوام کو سہولت فراہم نہ کر سکیں تو کیا یہ بوجھ اور زحمت نہیں ہے؟ ہم مری کی ترقی چاہتے ہیں، اس میں قانون و انصاف کی یقینی فراہمی کے خواہاں ہیں، جرائم ، قبضے، چوری اور بدعنوانی کا بھی قلع قمع چاہتے ہیں۔ ہم مری کی خوبصورتی اور ماحول کو بھی بچانا چاہتے ہیں۔ نیز ہم تعلیم، صحت، انصاف، ٹرانسپورٹ، سیاحت و روزگار میں اضافہ و بہتری چاہتے ہیں۔ لیکن تین کلو میٹر کی چوٹی پر اس قدر سرکاری بوجھ لاد کر، عام آدمی کی پہنچ سے یہ سب دور کر کے کیسے ممکن ہو گا؟
اگر ایک بھی محکمہ اپنے معمول کے کام بھی خود نہیں کرے گا اور عوامی شکایات پر بھی ڈی سی صاحب کی "جنبش لب و قلم” کا منتظر رہے گا تو فلاح کیسے ممکن ہے؟
بہتر یہی ہے کہ اگر سانحہ مری کی پاداش میں عجلتاً (ادھوری کوہسار یونیورسٹی کی طرح) بزدار صاحب سے کُگھی مروا کر ضلع بنوا ہی دیا گیا ہے تو جغرافیائی تناظر میں اس پر Smart Administration کا اطلاق ہو۔ اگر ضلع مری کو کامیاب بنانا ہے تو One Window Operation کے ذریعے عام آدمی کے لیے تمام محکمانہ کام کروانے کی سہولت مہیا کی جائے تاکہ اسے مختلف دفاتر اور افسروں کے سامنے بار بار کاغذ اٹھا کر جھکنا نہ پڑے۔
ایک اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ضلعی ہیڈکوارٹر کو مری شہر سے باہر نکالا جائے اور اسے پوری مری کے دیگر علاقوں اور بالخصوص دو بڑی تحصیلوں کے مابین کسی ایسے مقام پر قائم کیا جائے جو ہر لحاظ سے موزوں و مناسب ہو تاکہ بوجھ کم کیا جا سکے۔ شاید "پڑھنہ” کا مقام بہترین آپشن ہے لیکن وہاں بھی سمارٹ ایڈمنسٹریشن ہی درکار ہو گی۔
آخری اور اہم بات یہ کہ تمام تر انتظامیہ و افسران مری کو اپنی گرمی کی چھٹیاں گزارنے، برفباری انجوائے کرنے اور شاہانہ طرزِ زندگی گزارنے کے لیے "پِکنِک سپاٹ” نہ سمجھیں بلکہ آپ یہاں عوام کو سہولت فراہم کرنے کے لیے تعینات ہوئے ہیں۔ مقامی "عام آدمی” کو اس علاقے کا شہری سمجھا جائے اور اس کی عزت نفس کا بھی خیال رکھا جائے. عوام کی فلاح کا سامان مہیا کیا جائے کہ انہی کے ٹیکسوں سے سارا نظام دوڑتا ہے بلکہ موجودہ صورت حال میں تو فراٹے لیتا ہوا، گرد و غبار اڑاتا ہوا دوڑتا ہے جس کے گرد و غبار میں عوام کے لیے سانس لینا تک محال ہے اور ذمہ داران اور افسران کی نااہلی، سستی اور کوتاہی اسی غبار کی اوٹ میں چھپی ہوئی ہے۔
امید ہے کہ مری کے عمائد، صحافی اور انٹیلجینشیا اس ضمن میں اپنا سر کھجائیں گے اور تجاویز کو تحریکی شکل دینے میں اپنا مثبت کردار ادا گے۔
حماد سکندر عباسی ۔۔۔ مری