top header add
kohsar adart

صحرا کے دوہے

تحریر: بھارومل امرانی سوٹہڑ

صحرا کے دوہے

بھارومل امرانی سوٹہڑ

گیتوں سے بھرا تھر کا ریگستان دوہے کی بھی دھرتی ہے۔ تھری لوک شاعری میں لوک گیتوں کی طرح لوک دوہے بھی زمانہء قدیم سے ممتاز اور مقبول صنفِ سخن کے طور پہ ملتے ہیں۔ ریتیلے ٹِیلوں پر تھر کے کسی بھی سُگھڑ سیانے، لوک دانش کے ماہر، چارن، بھاٹ، بھان اور منگنہار کے ساتھ لوک دانش کی مجلس یا راگ کی کسی محفل میں شریک ہوں تو لوک دوہے کا رنگ اپنے تمام تر حسن کے ساتھ ضرور دکھائی دے گا۔
ریگستانی زبان میں دوہے کو ’ڈوئو‘ کہا جاتا ہے، تھر میں دوہے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ :
ڈوئو ڈسمو وید، سگھڑ نا سالے گھنو
ڈوئو چھڈاوے ڈیس، جوگی تھے جانو پڑے۔
یعنی دوہا دسواں وید ہے، سُگھڑ انسان کو دوہا بہت گیان دیتا ہے، دوہا دھرتی چُھڑواتا ہے، (دوہے کی کھوج میں) جوگی بن کے نکلنا پڑتا ہے.

اکثرمحققین کا کہنا ہے کہ دوہے کی ابتدا ساتویں اور آٹھویں صدی سے ہوئی ہے، لیکن ریگستانی لوک دوہے سنتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ لوک دوہوں نے لوک گیتوں کے ساتھ ہی جنم لیا ہے۔ دوہا اپنے ابتدائی سفر میں لوک کتھا اور لوک گیت کی مانند صرف لوک بانی تھا، لیکن بعد میں دوہے نے باقاعدہ ایک صنف کی صورت اختیار کر لی۔ دوہے کے لیے ’’پنگل چھند ودیا‘‘ مخصوص کیا گیا۔ جس کے تحت چوبیس ماتراؤں پر مخصوص دوہے کے شعری وزن کو’دوہا چھند‘ کہا جاتا ہے۔
دوہا اپنے ارتقائی سفر میں نہ صرف دھروا، پربندھ، دھروپد سے لے کر دھرو اور دھروا سے گزرا ہے لیکن گایتری چھند، اشٹ چھند، ماترک چھند اور آری تک طویل سفر کر کے موجودہ دوہے کا روپ اختیار کیا ہے۔ دوہرا اور دو پد دوہے کے مشہور و مقبول نام رہے ہیں۔ سنسکرت اور ہندی میں دوہے کو شلوک بھی کہا جاتا ہے۔ اپ بھرنش میں قافیے کا رواج دوہے سے شروع ہوا ہے، اپ بھرنش کے دوہے سے قبل سنسکرت اور پراکرت میں قافیہ نہیں ہوتا تھا۔ دوہا، اب دو مصرعوں کی اپنی مختصر ترین ہئیت کی وجہ سے انفرادی حیثیت کا حامل ہے، لیکن قدیم دوہا ایک مصرعِ پر بھی مشتمل ہوتا تھا، بارھویں صدی میں لکھی ہوئی جینی سادھو ہیم چندر کی کتاب ’چھند انوشاشنم‘ میں ایسے دوہے بھی دیے گئے ہیں۔

سنسکرت کے عالموں نے ’چھند شاستر‘ کو ویدوں کے چھہ حصوں میں سے ایک حصہ تسلیم کیا ہے ۔ چھند شاستر کی اہم کتاب ہے جسے ’پنگل شاستر‘ اور ’چھند سوتر‘ بھی کہا جاتا ہے۔ پنگل شاستر کب اور کس نے لکھی ہے؟ اکثر محققین کے مطابق یہ شاستر پنگل نامی رشی نے لکھی ہے، جس کا زمانہ دو سو قبل مسیح ہے۔
پنگل شاستر کی تخلیق کے حوالے سے ایک دیومالائی کتھا بھی ملتی ہے، کتھا کے مطابق قدیم زمانے میں ایک پنگل نامی سانپ زمین پر بہت ظلم کرنے لگا تھا۔ دھرتی کی جیوت پرسانپ کا ظلم دیکھ کر سانپ کے ازلی دشمن گروڑ (نیولا) کو بہت غصہ آیا اور سانپ کو ختم کرنے کے لیے گروڑ حملہ آور ہونے کے لیے سانپ کے مقابل آیا، ظالم سانپ نے موت کوسامنے دیکھ کر گروڑ سے کہا کہ میرے پاس ایک علم (ودیا) ہے۔ مجھے مارنے سے پہلے وہ تم لے لو۔ گروڑ سے مہلت پا کر پنگل نامی سانپ چھند ودیا(علم عروض) لکھنے لگا۔ پنگل سانپ کا لکھا ہوا علم پنگل شاستر میں ہے یا پنگل رشی کا؟ اس دیومالائی کتھا کو بس کتھا ہی تک محدود کرکے چھند کی تخلیق کے لیے پنگل شاستر پڑھنا لازمی قرار دیا گیا ہے پنگل شاستر پڑھنے سے پنگل(فن عروض)، انتراس (فن قافیہ) اور کابیہ (فن شعر) پرعبور حاصل ہوتا ہے:

پنگل پڑھے بن چھند رچے، گیتا پڑھے بن گیان،
کوک پڑھے بن رتو رمن کرے، وہ نر پشو سمان۔
(جو پنگل پڑھے بن چھند تخیلق کرتا ہے، گیتا پڑھے بغیر دھرمی گیان دیتا ہے اورکوک شاسترپڑھنے کے سوا پیار کرتا ہے، وہ مرد جانور کے برابر ہے)

دوہا دو مصرعوں پر مشتمل ایک طرح کا چھند ہے، جس کے ایک مصرعے میں پنگل کی ایک مخصوص بحر کے مطابق چوبیس ماترائیں ہوتی ہیں، لیکن اس طرح کہ بحر کے پہلے حصے میں تیرہ ماترائیں ہوں گی اور اس کے بعد ایک ماترا کا وقفہ ہوگا اور دوسرے حصے میں گیارہ ماترائیں، اس طرح ایک مصرع مکمل ہوتا ہے۔ چھند کا ہر مصرع دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ پہلے حصے کو ’سم ‘ اوردوسرے حصے کو ’وشم‘ کہتے ہیں۔ چھند کے کچھ بنیادی اُصولوں میں توقف اہم ہے۔ جسے چھند کی اصطلاح میں’ورام‘، ہندی میں ’یتی‘ اور اردو میں ’وشرام‘ کہا جاتا ہے۔ اگر مصرعے کے درمیان مقررہ مقام پر جہاں وقفہ لازمی ہو، وہاں توقف نہ ہو تو اس کو یتی بھنگ دوش کہا جاتا ہے، اردو میں ’یتی بھنگ دوش‘ کے لیے اردو میں ’شکستِ ناروا ‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ دوہے کے بنیادی اصول کے تحت دوہے میں ’شکستِ ناروا‘ کی اجازت نہیں ہے۔

ڈاکٹر فراز حامدی نے اپنے ایک دوہے میں، دوہے کے مخصوص وزن، ماتراؤں کی تقسیم اور آہنگ کے حوالے سےخوب کہا ہے:

تیرہ گیارہ ماترا، بیچ بیچ وشرام
دو مصرعوں کی شاعری، دوہا جس کا نام۔

دوہے کے ہر مصرعے( مصرعِ )کو دل کہا جاتا ہے، ایک مصرع دو چرن یا پد میں تقسیم ہوتا ہے، دونوں مصرعوں کے آخر میں قافیہ ہوتا ہے، نام ور شاعر، محقق اور براڈ کاسٹر الیاس عشقی نے اپنے دوہوں میں، دوہے کی تعریف، دل اور چرن کی اہمیت، ماتراؤں کی گنتی، گرو اور لگھو کی چال عمدہ انداز میں سمجھائی ہے:

دو دل، چرن چار ہوں، تُک آخر میں آئے،
کُل ‘چوبیس’ ہوں ماترے، تو ‘دوہا’ کہلائے۔

یاد رکھے کوئی اگر، اتنی بات سلیس،
‘چارنوں چرنوں’ میں رہیں، ‘ماترے اڑتالیس’

‘تیرہ گیارہ ماترے’، دونوں دٰلوں میں جان،
یہی ہے ‘دوہا چھند’ کی، ‘پنگل’ میں پہچان۔

‘گرُو’، ‘لگھو’ مل جائیں، تو ٹھیک ہو دوہا چال،
‘یتی’ رہے اپنی جگہ، تو دوہا بنے کمال۔

حرف کی تحریری شکل کو ورن یا اکشر کہا جاتا ہے، پنگل کی اصطلاح میں لگھو (ہرسو ورن ) یک حرفی اور گرو (دیرگھ ورن ) دو حرفی آوازوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح تین ماتراؤں کا پلت ورن ہوتا ہے جس میں گرو کے ساتھ لگھو ساکن ہوتا ہے۔ ساکن لگھو کو شمار نہ کر کے اس کو گرو کے برابر شمار کیا جاتا ہے۔ اردھ ماترا عروض میں شمار نہیں ہوتی اور وہ اپنے ما قبل کو گرو بنا دیتی ہے۔ زیادہ ماتراؤں کے مرکب سُرو پرگھ کہلاتے ہیں۔
سر یا ماترا ایک حرکت ہے، جگن ناتھ پرشاد بھانو نے ایک دوہے میں کہا ہے کہ :

دیرگھ ہو لگھ پر پڑھیں، لگھو ہو دیرگھ مان
مکھ سوں پر گٹے سکھ سہت، کو ود کرت بکھان

حرف کا لگھو یا گرو ہونا صرف تلفظ پر مبنی ہے، جب وزن شعر کے واسطے گرو کو اشباع نہ کریں تو وہ گھٹ کر لگھو ہوجائے گا، اگر لگھو کو کھینچ کر پڑھا جائے تو وہ گرو بن جائے گا۔

پنگل چھند میں سعد حروف اور نحس حروف کو بھی دیکھا جاتا ہے۔ پندرہ سعد حروف اور انیس نحس حروف ہوتے ہیں ۔ پانچ نحس حروف کو کسی شعری تخلیق کے آغاز میں لانا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

سنسکرت عروض پر پانچویں صدی میں ایک اور تصنیف ’شروت بودھ‘ ملتی ہے لیکن اس کے بعد پانچ سو سال تک کوئی ایسی تصنیف سامنے نہیں آئی، جو ادبی تاریخ میں قابلِ ذکر ہو۔ دسویں صدی سے چودھویں صدی عیسوی میں پنگل رشی کی روایت کو آگے بڑھانے کی کوشش کی گئی۔ اور سنسکرت عروض پرکئی اہم تصانیف منظر پر آئیں، جن میں یہ قابلِ ذکر ہیں:

چھند ورتناکر (شانتی پا) دسویں صدی
سوتر ورت تلک ( شیمیندر ) گیارھویں صدی
چھند انوشاشنم (ہیم چندر) بارھویں صدی
چھند و منجری (گنگا داس) بارھویں اور تیرھویں صدی کا وسط
ورت رتناکر (کیدر ناتھ بھٹ) چودھویں صدی
وانی بھوشن( دامودرمشر) چودھویں صدی کا نصف آخر
ان جملہ تصانیف میں ہیم چندرکی تصنیف ’چھند انوشاشنم‘ سب سے زیادہ اہم سمجھی جاتی ہے۔ ہیم چندر نے پہلی مرتبہ پنگل چھند کو وضاحت کے ساتھ سائنسی انداز میں پیش کیا ہے۔ ہیم چندر کے کام کو سامنے رکھ کرچودھویں صدی میں پراکرت اور اپ بھرنش میں مستعمل چھندوں پر مبنی پہلی کتاب پراکرت پینگلم لکھی گئی۔

پنگل شاستر کے ماہر رویندر سہائے ورما نے’پراکرت پینگلم‘ میں گرو اور لگھو کی آوازوں سے بننے والی بحر کو تئیس صورتوں میں تقسیم کیا ہے۔ ان سب میں ایک خاص بات یہ ہے کہ لگھو یا گرو کی تعداد میں فرق ہو سکتا ہے مگر کل ماترائیں اٹھتالیس ہی رہتی ہیں۔

۱۔ بھرمر = ۲۲ گرو+ ۴ لگھو = ۴۸ ماترائیں
۲۔ سبھرامر =۲۱گرو +۶ لگھو =۴۸ ماترائیں
۳۔ مشربھ =۲۰گرو +۸ لگھو =۴۸ماترائیں
۴۔ شین =۱۹گرو +۱۰ لگھو =۴۸ماترائیں
۵۔ منڈوک =۱۸گرو +۱۲ لگھو =۴۸ماترائیں
۶۔ مرکٹ =۱۷گرو +۱۴ لگھو =۴۸ماترائیں
۷۔ کربھ =۱۶گرو +۱۶ لگھو =۴۸ماترائیں
۸۔ نر =۱۵گرو +۱۸ لگھو =۴۸ماترائیں
۹۔ ہنس =۱۴گرو +۲۰ لگھو =۴۸ماترائیں
۱۰۔ گیند =۱۳گرو +۲۲ لگھو =۴۸ماترائیں
۱۱۔ پیودھر =۱۲گرو +۲۴ لگھو =۴۸ماترائیں
۱۲۔چل/بل =۱۱گرو +۲۶ لگھو =۴۸ماترائیں
۱۳۔ بانر =۱۰گرو +۲۸ لگھو =۴۸ماترائیں
۱۴۔ ترکل =۹گرو +۳۰ لگھو =۴۸ماترائیں
۱۵۔ کچھپ =۸گرو + ۳۲لگھو =۴۸ماترائیں
۱۶۔ مچھ/تیسہ =۷گرو +۳۴ لگھو =۴۸ماترائیں
۱۷۔ شاردول =۶گرو +۳۶ لگھو =۴۸ماترائیں
۱۸۔ اہیو =۵گرو +۳۸ لگھو =۴۸ماترائیں
۱۹۔ ویال =۴گرو +۴۰ لگھو =۴۸ماترائیں
۲۰۔ وڈال =۳گرو +۴۲ لگھو =۴۸ماترائیں
۲۱۔ شوان =۲گرو +۴۴ لگھو =۴۸ماترائیں
۲۲۔ اُدر =۱گرو +۴۶ لگھو =۴۸ماترائیں
۲۳۔ سُرپ = oگرو ۴۸+ لگھو =۴۸ماترائیں

لگھو اور گرو وغیرہ کی بنیاد پر پنگل عروض میں گنتی پر مبنی ایک نظام بنایا گیا ہے جسے ’گن‘ کہا جاتا ہے۔ پنگل کے اس نظام میں لگھو اور گرو کے ملاپ کے فرق سے کس طرح مختلف بحریں وجود میں آتی ہیں اسے دیکھتے ہیں:

۱۔ پگن۔ اس میں پہلے لگھو ہے پھر گرو۔ گویا اسے پڑھیں گے پگانا
۲۔ مگن۔ اس میں تین گرو ہیں، اسے پڑھیں گے ماگانا
۳۔ بھگن۔ اس میں پہلے گرو پھر دو لگھو ہیں اور اسے پڑھا جائے گا بھاگن
۴۔ نگن۔ اس میں تین لگھو یکجا ہیں یعنی یہ نگن ہی پڑھا جائے گا۔
۵۔ جگن۔ اس میں پہلے لگھو پھر گرو پھر لگھو، اوراسے پڑھیں گے جگان
۶۔ رگن۔ اس میں پہلے گرو پھر لگھو پھر گرو اور پڑھا جائے گا راگنا
۷۔ سگن۔ اس میں پہلے دو لگھو پھر ایک گرو اور پڑھیں گے سگنا
۸۔ تگن۔ اس میں پہلے دو گرو پھر ایک گرو اوراسے تاگان پڑھیں گے۔

ورنک گنوں کے ابتدائی حرف بھ ت ج ر س م ن ییں اور گرو لگھو کے دو حرف پنگل کے دس اکشر بھی کہلاتے ہیں۔ دو سے لے کر چھ تک مجموعے کو ماترائی گن کہتے ہیں۔ ایک ماترا کا گن نہیں ہوتا ہے۔ اس کو پنگل کی اصطلاح میں شنگھ میرو گندھ اور کاہل کہتے ہیں۔ سات ماترائی گن سپتک کہلاتے ہیں۔ سپتک کی اکیس قسمیں ہیں۔ تین ورنوں کا مجموعہ ورنک گن کہلاتا ہے۔ ورنک گن ٓآٹھ طرح کے ہوتے ہیں۔ ماترائیں یا حروف شمار کرتے وقت یہ اصول بھی سامنے رکھے جاتے ہیں۔

۱۔ مخلوط حرف (سنیکت اکشر) سے قبل کا لگھو حروف گرو مانا جاتا ہے۔
۲۔ اگر مخلوط حرف سے پہلے لگھو، جس پر زور نہیں پڑتا وہ لگھو ہی رہتا ہے۔
۳۔ نون غٌنہ والے حروف بھی لگھو شمار کیے جاتے ہیں۔
۴۔ مخلوط حرف کے درمیان کا نون ساکن اپنے ما قبل کو گرو بنا دیتا ہے۔
۵۔ کبھی کبھی چرن یا مصرعِ کے آخر میں لگھو حرف کو تقطیع کے مطابق گرو مان لیا جاتا ہے۔
دوہے کے پہلے اور تیسرے چرن کے شروع میں کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے جو جگن کے وزن پر ہو، اگر ایسا ہو جاتا ہے تو اس دوہے کو چنڈالنی دوہا کہا جاتا ہے۔

چھند پربھاکر کا دوہا ہے کہ :
جہاں وشم چرنن پرے، کہوں جگن جوان
بکھان نا چنڈالنی، دوہا دکھ کی کھان
دوہے کے دوسرے اور چوتھے چرن کے آخر میں لگھو ماترا آنا ضروری ہے۔ اڑتالیس حرفی دوہے کو نیم مساوی (اردھ سم) ماترائی چھند بھی کہا جاتا ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ دوہوں میں ماتراؤں کی تعداد اور ترتیب میں بہت سی تبدیلیاں آئیں، ماہرین کے درمیان کافی اختلاف پائے گئے ہیں، لیکن کسی بھی صورت کو دوہے کی صورت سے خارج نہیں کیا گیا ہے۔ پنگل چھند میں دوہوں کی اقسام پر بات کرنے سے پہلے دوہے کے لیے پنگل چھند کے متبادل فارسی بحر وزن کے استعمال کو دیکھ لیتے ہیں، فارسی بحر وزن کے استعمال کے تجربے زیادہ تر اردو زبان میں ہوئے ہیں اردو کے آہنگ میں فارسی بحر وزن کی مقبول ترین صورت یہ رہی ہے:

فعلن فعلن فاعلن۔ فعلن فعلن فاع

اس صورت کے آخر میں "فاع "کا لانا لازمی حد تک پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ فارسی بحر کے یہ اوزان بھی استعمال ہوتے رہے ہیں:
فعلن فعلن فاعلن ۔۔۔۔ فعلن فعلن فاع
فعلن فعلن فاعلن۔۔۔۔ فعلن فعل فعول
فعلن فعولن فاعلن۔۔۔ فعلن فعلن فاع
فعلن فاعلن فاعلن۔۔۔۔ فعلن فعل فعول
فعل فعولن فاعلن۔۔۔۔ فعلن فعل فعول
فعل فعولن فاعلن ۔۔۔۔ فعل فعولن فاع
فعل فاعلن فاعلن۔۔۔۔ فعل فعول فعول
فعل فاعلن فاعلن ۔۔۔۔فعل فاعلن فاع

قدیم دوہے کے طاق مصرعوں میں ایک ایک ماترا کم کر دی جائے تو وہ ’دوہرا‘ کہلاتا ہے، کوی بہاری لال نے دوہا اور دوہرا ایک ہی معنی میں استعمال کیا ہے۔ اور دوہرا کو چوالیس حرفی دوہا بھی کہا جاتا ہے۔ اڑتالیس حرفی دوہے کے دوسرے اور چوتھے مصرعوں کے آخر میں آنے والے لگھو حرف کو حذف کر کے ہر حصے میں تئیس ماترائیں رکھنے سے دوہا چھیالیس حرفی دوہا (وِدوُہا یا بِدوَہا) بن جاتا ہے۔ اڑتالیس حرفی دوہے کے طاق مصرعوں کے آخر میں آنے والے لگھو ماترا کی جگہ گرو ماترا رکھی جائے اور اس طرح فی سطر پچیس ماترائیں ہوں تو اس کو پچاس حرفی دوہا (مکتافن) دوہا سمجھا جاتا ہے۔ اڑتالیس حرفی دوہے کے پہلے اور تیسرے مصرعوں میں تیرہ تیرہ ماتراؤں کی بجائے پندرہ پندرہ ماترائیں رکھنے سے باون حرفی دوہا’’دوہی‘‘ بن جاتا ہے۔ دوہی ماتراؤں کی ترتیب کو کوی اپنے چھند میں اس طرح بیان کرتا ہے:
وشمن پندرا ساجو کلا، سم شو دوہی مول

اڑتالیس حرفی دوہے کے طاق مصرعوں میں تین تین ماتراؤں کا اضافہ کر کے چوَن حرفی دوہا (ہری پد ) بنا لیا جاتا ہے۔ چھپن حرفی دوہے کو دودے دوہا بھی کہتے ہیں۔ پنگل کے عروض میں یہ دودے دوہا ’سارچھند‘ ہے، سار چھند دوہے کے ہر مصرعے میں اٹھائیس ماترائیں ہوتی ہیں اور ہر مصرعے کے درمیان سولھویں ماترا کے بعد نیم وقفہ ہوتا ہے۔ مصرعے کے آخر میں اگر گرو ماترا آئے تو آہنگ خوب صورت بن جاتا ہے۔ ہری پد سرسی چھند کا نصف ہے، کیوں کہ سرسی چھند کے دوہی مصرعوں میں اس کے چاروں چرن پورے ہو جاتے ہیں ۔ جگن ناتھ پرشاد اپنے چھند میں کہتے ہیں:
وشم ہری پد کیجیے سودا، سم شو دے آنند
یعنی پہلے اور تیسرے چرن میں سولہ سولہ اور دوسرے اور چوتھے چرن میں گیارہ گیارہ ماترائیں ہوتی ہیں، آخر میں گرو اور لگھو ہوتے ہیں۔

غیر مساوی یا آزاد دوہے میں دو دلوں میں ماتراؤں کی تعداد اور وزن کا اختلاف پایا جاتا ہے، یعنی دویے کی دوسطریں الگ الگ ماتراؤں کی حامل ہوتی ہے۔ ایک سطر میں اگر چوبیس ماترائیں ہوں، تو دوسری میں ستائیس۔ پچ کھنیا دوہا کا مطلب ہے پانچ ٹکڑوں والا دوہا ۔ عموماً دوہا چار ٹکڑوں میں لکھا جاتا ہے۔ اس کے دو طاق اور دو جفت حصے ہوتے ہیں۔ اگر دوہے کے آخر میں جفت مصرعے کے ہم وزن اور ہم قافیہ مصرع بڑھا دیا جائے تو وہ پچ کھنیا دوہا کہلاتا ہے۔ اس کو مستزاد دوہا بھی کہا جا سکتا ہے۔ پچ کھنیا دوہے کی طرح چھے ٹکڑوں پر مشتمل چھہ کھنیا دوہا بھی بنتا ہے اوروہ مستزاد کی صورت میں ہے۔ ہر دو بڑے ٹکڑوں کے بعد ایک مستزاد ٹکڑا لگا دیا جاتا ہے۔ تونبیری دوہا، اگرچہ دوہوں کی یہ قسم اڑتالیس ماتراؤں پر ہی محیط ہے، لیکن اس میں خاص امتیاز یہ ہے کہ اس کا دوسرا اور تیسرا جزو ہم قافیہ ہوتا ہے، جب کہ عموماً دوسرا اور چوتھا جزو ہم قافیہ ہوتا ہے۔

بڑا دوہا یہ بھی اڑتالیس ماتراؤں پر مشتمل دوہا ہے، لیکن یہ روایتی دوہے سے یوں مختلف ہے کہ اس کا پہلا اور چوتھا جزو ہم قافیہ ہوتا ہے۔

کھرا دوہا بھی اڑتالیس ماتراؤں پر مشتمل ہے، لیکن اس کا خاص وصف چاروں اجزا کا ہم قافیہ ہونا ہے۔ پہلا اور تیسرا، دوسرا اور چوتھا جزو آپس میں ہم قافیہ ہوتا ہے۔ پہلے اورچوتھے چرن میں قافیہ ملنے سے ’ان میل‘ دوہے اور دوسرے اور تیسرے چرنوں میں قافیہ ملنے سے ًمدھیہ میل‘ دوہے بنتے ہیں

ریگستانی ادب کے نقادوں نے صحرائے تھر کے دوہوں کو پانچ اقسام میں تقسیم کیا ہے، دوہو، سورٹھیودوہو، بڑو دوہو، تون وری دوہو، کھوڑو دوہو۔ دوہوں کی یہ قسمیں تھوڑی بہت ہیئتی تبدیلیوں کے ساتھ آج بھی ریگستانی ادب میں ملتی ہیں لیکن مشہور و مقبول قدیم دوہا اور سورٹھی دوہا ہے۔

سورٹھیو دوہو بھلو، بھلی مارو ری بات
جوبھن چھانئی دھن بھلی، تاراں بھری رات

(جس طرح دوہوں میں سورٹھی دوہا اچھا ہے اور باتوں میں ڈھولا مارو کی بات خوب صورت ہے، اسی طرح عورت اپنے بھرپور جوبھن میں دل کش لگتی ہے جیسے ستاروں بھری رات ہوتی ہے)

سورٹھیو دوہو بھلو، کپڑو بھلو سفیت،
ٹھاکریو ڈاتار بھلو، گھوڑو بھلو کمیت،
(جس طرح دوہوں میں سورٹھی دوہا خوب صورت ہے اور کپڑوں میں سفید رنگ دل کش ہے، اسی طرح ٹھاکروں میں سخی ٹھاکر اچھا لگتا ہے، جیسے گھوڑو میں کمیت ہوتا ہے)

گھنی بری ہی بات، سدا ستاؤنوں سین نے
انت اگن اٹھ جات، چندن رگڑیا چکریا۔
( عزیز سجنوں کو ہمیشہ تکلیف میں مبتلا کرنا بہت بری بات ہے، کوی چکریا کہتا ہے کہ روز کی گِھس گِھس سے آخرکار چندن سے بھی آگ بھڑک اٹھتی ہے)

کڑوائی سوں کام، ہر کوئی ڈوہورو کرے،
کام ہوئے بن دام، چٹ نرمی سوں چکریا۔
( تُند خوئی سے کوئی بھی کام آسانی سے نہیں ہو پاتا،
چکریا! نرم مزاجی سے لیے دیے بغیر کام آسانی سے ہو جاتا ہے۔ )

بولے میٹھا بین، متلب رے کارن مڑے،
سمجھوں کڈے نہ سین کپٹی تراد کالیا۔
(جو اپنی غرض کی وجہ سے ملے اور میٹھی میٹھی باتیں کرے، ایسے شخص کو کالیا کبھی اپنا دوست مت سمجھنا، وہ مکار آدمی ہے، اس سے بچنا چاہیے۔)

ڈن اوگھے ڈاتار، یاد کرے ساری ایڑا،
سوما رو سنسار، نام نہ لیوے ناتھیا۔
(سورج طلوع ہوتے ہی سخی کو ساری دنیا یاد کرتی ہے۔ ناتھیا بخیل کا کوئی نام لیوا بھی نہیں ہوتا۔)

راجہ جوگی اگن جل ائیام ری الٹی ریت
ڈرتا رہیئی پرسرام تھوری پالی پریت
(راجا، جوگی، آگ اور پانی کی الٹی ریت ہوتی ہے،
پرسرام! ان سے ہمیشہ ڈرتے رہو یہ تھوڑی سی محبت کر کے خفا ہو جاتے ہیں)

لاواں تیتر لار ہر کوئی ہاکا کرے
پن س سنگھاں تنی سکار کرنو مسکل کشنیا
(جنگل میں تیتروں کے شکار کے لیے ہر کوئی ہانکا کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے، مگر جب شیروں کے شکار کی بات ہو تو کشنیا بہت مشکل ہو جاتی یے، کوئی تیار نہیں ہوتا۔)

آج ہی نہیں اپار کرنو ہے سو کر پرو
راون باتاں چار چت میں لے گیو چکریا
(جو بھی کرنا ہے سو آج ہی نہیں بلکہ ابھی کر ڈالو،
اے چکریا اچھے کام میں دیر کی وجہ سے راون چار باتیں اپنے دل میں لے گیا)

بڑو، توں وری اورکھڑو کی مثالیں دیکھ لیتے ہیں :
بڑو :
روپی اکبر راڑ، کوٹ جھرے نہ کانگرلے،
ٹپکے ہاتھل سہہ پن، بادل ہوئے نہ بگاڑ ۔
توں وری :
تینوں ری مت ایک، ماکھی مچھر دشت نر
آپ رے جیو کو تیاگ کر، اوراں کو دکھ دیت
کھوڑو :
ناری بھریو نیر، ٹابریو جھولن گیو،
ترے نھ پوگو تیر، آوْڈبو

جس طرح زبانیں اپنے گرد و پیش کے ماحول اور بولیوں سے متاثر ہو کراپنا ارتقائی سفر جاری رکھتی ہیں، بالکل اسی طرح ادبی اصناف سخن بھی زمان و مکان کی تبدیلیوں کے ساتھ تغیر پذیر رہتی ہیں۔ تھری لوک دوہا بھی صدیوں کے ارتقائی سفر میں بہت سے مراحل طے کرتے ہوئے موجودہ انداز میں صورت پذیر ہوا ہے۔ آج بھی لوک دوہے میں قدیم دور کی زبان و بیان اور تہذیبی رنگ و اسلوب پائے جاتے ہیں۔ تھری لوک دوہے کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ یہ اپنی ابتدا سے لے کرآج تک عوامی زندگی سے وابستہ رہا ہے، اسی وجہ سے لوک دوہے کی لفظیات اور تلازمات بھی عوامی زندگی سے ماخوذ ہیں۔ تھری لوک دوہے کی زبان سادہ مگر پُراثر ہے۔

سار وکھاں سندھ ری مونگ منڈور ڈیس
جھینو کپڑو ماڑبو مڑد مردھر ڈیس
(سندھ کے چاول قابلِ تعریف ہیں اور منڈور کے علاقے کے مونگ اچھے ہوتے ہیں۔ ماڑبے کا کپڑا نفیس و عمدہ ہے، میرے مردھر دیس یعنی تھر کے مرد خوب صورت ہیں)

کونجاں رات کریڑیو، ٹولی ٹولی تیس،
میں ستی ساجن ساریو، ارلی بھاگی ایس،
(اے سکھی، رات کو کونجیں کرلا رہی تھیں، ٹولی ٹولی میں تیس تھیں، میں نے اپنے ساجن کو یاد کیا، چھاتی سے چارپائی کی پائنتی کو توڑ دیا۔)

پڑ پڑ بوند پلنگ پر کڑ کڑ بیج کڑکنت
اج پیا بن ہیکلی دھڑ دھڑ جیو دھڑکنت
(اے سکھی! گرج اور چمک کے ساتھ برستی ہوئی بارش کی بوندیں میرے پلنگ پر پڑ رہی ہیں۔ میرا پیا میرے ساتھ نہیں ہے۔ تنہائی میں میرا دل دھڑک رہا ہے۔)

ہیم کڑس انگ اوپر نیر کڑس سر لیئے،
پنگھٹ ہوتاں باہڑیاں کڑس کمل کردیئے۔
(اے مسافر! میرے امرانے کی حسینائیں بڑی خوب صورت ہیں۔ سونے جیسی چھاتیاں مٹکوں کی مانند سینے کے اوپر ہیں اور دو مٹکے پانی سے بھرے ہوئے سر کے اوپر ہیں۔ لانبے کے پنگھٹ سے پانی بھر کے واپس ہوتے ہوئے وہ سوچتی ہیں کہ کمل جیسے ہاتھ کون سے مٹکوں پر رکھیں۔)

اتر ڈس اوجیس بھیو جن چمڪی بیجڑیاں،
ماروئل پاسو پھیریو او چمڪی پاسڑیاں۔
(شمال کی جانب سے شعاع پُھوٹی۔ میں نے سمجھا آسمانی روشنی ہوئی ہے لیکن معلوم کرنے پر پتا چلا کہ او مارو نے پہلو بدلا تھا اور اس کی پسلیاں چمکی تھیں)

اری نیڑو پرین ونکڑو سائیدھن وچن سدھ
ہالو نندل ہیڑواں ہالاں بالک اجیا ڈدھ
(اے میری نند! دشمن بالکل قریب آ پہنچا ہے، میرا محبوب اس کے مقابل ہوگا، مرنے مارنے کے سِوا میدانِ جنگ سے وہ پسپا نہیں ہو سکتا ۔ میں پتی ورتا ( اپنے شوہر پر جان وارنے والی) ہوں، پتی کے میدانِ جنگ میں امر ہوجانے پر میں ستی ہوجاؤں گی، اے میری نند! آؤ اسی وقت سے میرے ننھے بچے کو بکری کے دودھ کا عادی بنا لوں)

صحرائے تھر کے دوہے، اپنے اندر ایک خاص موسم، خاص وقت، خاص تہذیب اور خالص عشق لیے صدیوں سے جاودانی صورت میں موجود ہیں۔ لوک گیتوں کی طرح یہ لوک دوہے ایک دل سے شروع ہوتے ہیں اور پھر سارے ریگستان میں پھیل جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا رہتا ہے۔ ان دوہوں کی زبان ایک سے زیادہ مزاج کی حامل بولیوں کے اشتراک پر مشتمل ہے۔ دراوڑی، سندھی، سنسکرت، اپ بھرنش، مرو بھاشا، مرو گجر، برج بھاشا، مارواڑی، ڈھاٹکی، سرائیکی، پارکری اوردیگر بولیاں ہیں جو جنوبی ایشیا کے اس بڑے ریگستان میں بولی جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب یہاں ہاکڑو نامی دریا بہتا تھا، تب ہاکڑو وادی کے دورِ عروج میں ان سبھی بولیوں کا بول بالا تھا۔

اب ریت کے ٹیلوں سے ساون رُت میں بادلوں کے روٹھ جانے پر تھر کے لوگ قدیم زبان میں لوک شاعری کے بول گاتے ہوئے نقل مکانی کرتے ہیں، اس سمت میں جہاں دریائے سندھ بہتا ہے:
سندھڑی ری مارگی اڈتی جائے کھیہ
(سندھ کی طرف جانے والے راستے پہ دُھول اڑ رہی ہے)
ایک لوک دوہے میں کہا گیا ہے کہ :
ہاکے وہسے ہاکڑو نڈیاں واہسے نیر،
سندھ میں ہیک جنمیو، بیجو جنمیسے ران ہمیر
( سندھ میں ایک ہمیر پیدا ہوا ہے، جب دوسرا رانا ہمیر جنم لے گا، تب ہاکڑو اپنا عروج دو بارہ پالے گا، ندیوں میں جل آئے گا)

سندھی شاعری کی صنف ’بیت‘ دوہے کے قریب تر ہے۔ سندھی موسیقی میں نغموں کے آغاز یا بیچ میں جو منتخب شعر گائے جاتے ہیں ان کو "ڈوہیڑو” کہا جاتا ہے ۔ "ڈوہیڑو” دوہے کی بنیادی صورت ہے ۔ دوہے کی صنف بھگتوں، سنتوں اور صوفیوں نے اپنے معاشرے کی اصلاح کے لیے استعمال کیا ہے۔ ست سنگ کی محفل میں بھجن گانے سے پہلے یا بیج میں شعر گائے جاتے ہیں، جنھیں ساکھی کہا جاتا ہے، ساکھی بھی دوہا ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح سوایو کی صنف کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ لوک داستانوں کے شعر جنھیں ’گاہوں‘ کہا جاتا ہے، ’گاہا‘ قدیم دوہا ہے۔ ’ہیماری‘ اور ’گوڑہو‘ کی پہلیاں دوہے کی صنف میں ہوتی ہیں۔

گاہا، گیت، ونود رس، سگناں ویھ لینت،
کئہ نندرا، کئہ گلہ کر، مورکھ ویھ گمنت۔
(سگھڑوں (اچھے انسانوں ) کے دن گاہا (دوہا) گیت، کتھا سنتے یا سناتے گزرتے ہیں، اور نادان انسان نیند یا فضولیات میں دن گزارتے ہیں۔)

ورھ ویاپی رین بھر پریتم ون تن کھین،
وین الاپے، دیکھ سسر، کس گن میلہے وین
( ایک برہن اپنے پریتم کو یاد کر کے ساری رات وینا بجا رہی تھی، لیکن جب چاند نکلا، تو چاند کو دیکھتے ہی وینا کیوں ایک طرف رکھ دی)

وین الاپے، دیکھ سسر، رینی ناد سلین،
سسر مرگھ رتھ موہیئہ، تن ہس مہیلے وین
( وینا بجانے والی برہن نے سوچا کہ وینا کی مدھر آواز سن کر رتھ والے ہرن رک جاتے ہیں، یہ تو چاند ہے، چاند اپنا ہوش گنوا بیٹھے گا، اس لیے مسکرا کر وینا ایک طرف رکھ دی)

سندر چوری سنگرہے، سبھ لیا سنگار،
نک پھولی لیدی نہیں، کہا سکھی کون ویچار
(چور نے ایک سندر کو پکڑا اور اس ک سارا سنگھار اتار لیا، لیکن اس کی ایک ناک کی پھلی اس سے نہیں چھینی، اے سکھی بتا اس کی کیا وجہ تھی)

اھر رنگ رتئہ ھوء مکھ کاجل مس ورن،
جانیئہ گنجا پھل، اچھئہ تین نھ ڈھوکئہ من
ناک کی پھلی ہونٹوں کے رنگ سے سرخ ہو گئی، سندری کا مکھ کاجل کی طرح کالا تھا، چور نے سمجھا کہ یہ گنجاپھول ہے، اسے تو یہ خیال ہی نہیں آیا )

آساڑ میں اپجے، اس نامیلی نام،
سیجاں وساری سندری، لہیجو مورا سام
( ہاڑ کے مہینے میں جو پیدا ہوتی ہے، اس کے نام جیسی چیز میں سیج اوپر بھولی ہوں اے میرا بالم، اسے آپ ڈھونڈ کر رکھنا)

صحرائے تھر میں لوک شاعری، لوک موسیقی، رقص، قہقہے، ثقافت، فن، تحقیق، جستجو، مسکراہٹیں، محبتیں، رواداری یہ سبھی زندگی کے استعارے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ دنیا میں زبان کی ابتدا موسیقی سے ہوئی ہے یا نہیں۔۔۔ ؟ لیکن صحرائے تھر کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ تھر میں زبان کی ابتدا موسیقی سے ہوئی ہے۔ تھر کا ریگستان راگستان بھی ہے۔ صحرائے تھر کی لوک موسیقی ریگستان کی وسعتوں میں مارو لوگوں کے دل و دماغ کو راحت، خوش مزاجی اور دل کشی عطا کرتی ہے، لوک موسیقی سنتے ہوئے جب ان کے تخیل پرواز پہ ہوتے ہیں، تب وہ رقص کرنے لگتے ہیں، محبت کے جذبے کی سرشاری میں شاہ کار لوک گیت اور دوہے تخلیق ہونے لگتے ہیں۔ تھر کی لوک شاعری میں کہیں بھی شدت پسندی، تعصب اور تنگ نظری نہیں پائی جاتی۔ اس شاعری اور ثقافت کے طفیل تھر کے معاشرے میں معاشی مسائل ہونے کے باوجود امن و سکون، رواداری اور ہم آہنگی موجود ہے۔

پونم چاند کے رخسار پر مسکراتے ہوئے ستاروں جیسے صحرائے تھر کے معصوم مارو لوگ قاضی قادن شاہ لطیف، سچل سرمست کی شاعری کے ساتھ کبیر بھگت، تلسی داس، رحیم خان خاناں ، ملک محمد جائسی، کوی بانکی داس، کوی کرپارام، روی داس، بہاری لال دادو دیال، سندر داس، میرا بائی، امیر خسرو اور روحل فقیر کے دوہے تھری رنگ میں ڈھال کر ذوق و شوق سے سناتے ہیں۔ پیار و محبت، رواداری اور انسانیت کے سارے سُر یہاں ایک ہی مخصوص ردم کے ساتھ گونجنے لگتے ہیں:

رحیمن دھاگا پریم کا مت توڑو چٹکائے
ٹو ٹے تو نہ جڑے، جڑے گانٹھ پڑ جائے

رحیمن نج کی وتھا میں ہی رکھو گوئے
سن اٹھ لیں ہیں لوگ بانٹ نہ لینی کوئے

چاہ گئی چنتا مٹی منوا بے پرواہ،
جن کو کچھ نہ چا ہیے وے ساہن کے ساہ۔

بگڑی بات بنے نہیں لاکھ کرو کن کوئے
رحیمن بگڑے دودھ کو متھے نہ ماکھن ہوئے

پیتم کو پتیاں لکھوں، جو کہوں ہوئے بدیس،
تن میں، من میں، نین میں، تاکو کہا سندیس،

‏اگن آنچ سہنا سگم, سگم کھڑک کی دھار
نیہہ نبھاون ایک رسم, مہا کٹھن بیوپار.

نیہہ نبھائے ہی بنے سوچے بنے نہ آن،
تن دے، من دے، سیس دے، نیہہ نہ دیجے جان

دیپک سندر دیکھ کے جر جر مرے پتنگ،
بڑی لہر جو وشے کی جرت نھ موڑے انگ۔

ناری کی جھائین پرت اندھا ہوت بھجنگ،
کبیرا تن کی کون گتی، جن ناری کو سنگ۔

ساجن يہ مت جانئیے تو بچھڑے موہے چین،
جیسے جل بن مچھلی تڑپت ہے دن رین۔

جو میں ایسا جانتی کہ پیت کیے دُکھ ہوئے،
نگر ڈھنڈورا پیٹتی کہ پیت نہ کیجو کوئے۔

کانگا سب تن کھایو، چُن چُن کھایو ماس،
دو نیناں مت کھایو، موہے پیا ملن کی آس

تال سکھے سر بیتوے ہنس کہیں نہیں جائے،
پچھلی پریت کے کارنی کنکر چن چن کھائے،

سجن سکارے جائیں گے، نین مرین گے روئے،
بدھنا ایسی رین کرو، جو بھور کبھو نہ ھوئے،

توں داتا جگت گرو مانگو دان جگیاس،
روحل کوں راکھ لیو، چرن کمل کے پاس۔

سیل سنتوش اور پریم وویک وچار،
جاں کے پردھان ہیں، اس کو کبھی نہ آوے ہار۔

چاتک تلسی کے متے سواتی ہی پیئے پانی،
پریم ترشا بڑھتی بھلی گھٹے گھٹے کی آنی

رٹت، رٹت، رسنا، لٹی ترشنا سوکھی کے انگ،
تلسی چاتک پریم کا، بہت نوتن رچی رنگ۔

جیوت مانی ہو رہو، سائیں سنمکھ ہوئے،
دادو پہلے مر رہو، پیچھے مرے سب کوئے۔

کہتے ہیں کہ میرا بائی نے سندھ سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ :
سندھ سوں پریت ری وات کیوی کروں،
سندھ تو مناں ایوی میٹھی لاگے،
جیوو مانے مانرو پریمی لاگے،
مانے مانرو پریمی ایوو لاگے،
جیوی مانے سندھ لاگے ۔۔۔۔۔۔
( سندھ سے محبت کی کیا بات کروں !؟ سندھ مجھے اس طرح میٹھی لاگے ہے، جس طرح مجھے میرا محبوب میٹھا لگتا ہے، مجھے محبوب اس طرح لگتا ہے، جس طرح مجھے سندھ لاگے ہے)

سندھ کے اس منفرد خطے صحرائے تھر سے میں نے میرا بائی کی طرح محبت کی ہے۔ تھر سے محبت کی کہانی جنگلی پھول کی طرح پیدا ہوکر میرے اندر میں لہراتی رہی ہے۔ جنم بھومی سے محبت کا یہ پھول بہت انوکھا ہے۔ اس کی مہک ہی الگ ہے۔ ایک لوک دوہے میں ہے:

اکتھ کہانی پریم کی مکھ سے کہی نا جا،
گونگے کا سپنا بھیا، سمر سمر پچھتا،
(اے سکھی، پیار کی کہانی بہت مشکل ہوتی ہے، زبان سے نہیں کہی جا سکتی، یہ گونگے کے خواب کی طرح ہے، جو کسی کو بتا بھی نہیں پاتا، بس یاد کر کے افسردہ رہتا ہے۔)

صحرائے تھر میں دوہے کی ایک اپنی ثقافت اور فرہنگ ہے، جو ریگستان کے ہزاروں برس پر پھیلے ہوئے ماضی کا ثمر بھی ہے اور مظہر بھی۔ میں نے لوک گیتوں کے ساتھ ان لوک دوہوں کا ترجمہ بھی اسی محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر کیا ہے۔

سندھ کے خوب صورت شاعر اور سیاست دان محمکہء ثقافت و سیاحت کے صوبائی وزیر محترم سائیں سردار علی شاہ صاحب کی حوصلہ افزائی، سندھی اور اردو زبان کے نام ور شاعر اور شفیق انسان محترم سائیں مصطفیٰ ارباب صاحب کی اصلاحی رہ نمائی تھری لوک دوہوں کے اس اردو ترجمے کو پایہء تکمیل تک پہنچانے میں میرے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہے ۔ میرے پاس اپنے مہربان محسنوں کی شکریہ ادائی کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ لوک شاعر نے کہا ہے کہ۔۔۔

ساگر میں جل گھںو گاگھر میں سمائے نہیں،
ھیئنین ھیت گھنو، کاگر میں سمائے نہیں،
(سمندر میں پانی بہت ہے، گھڑے میں آ نہیں سکتا، دل میں محبت اور احترام زیادہ ہے ، کاغذ پر بیان نہیں کیا جا سکتا)

صحرائے تھر کے سُگھڑ سیانوں اور لوک دانش کے بڑے بوڑھوں کی مجلس میں جب دوہوں کی بات چھڑتی ہے تو پھر اور کسی بات کی گنجائش نہیں رہتی۔ دوہوں میں دل کے دیوتاؤں کے نقشِ پا ہیں، ان پر پیار کی پریاں رقص کرتی ہیں۔ صحرائی لوک دوہوں کا ذخیرہ بہت وسیع ہے، میں نے منتخب لوک دوہوں کا ترجمہ کیا ہے۔ ممکن ہے ترجمے اور پس منظر میں مجھ سے کہیں کوئی سہو ہو گیا ہو مگر اپنے تئیں یہی کوشش رہی ہے کہ ایسا نہ ہوا ہو۔

سندھی اوراردو ترجمے کے بعد تھری لوک دوہوں کا انگریزی ترجمہ بھی بہتر ہو سکتا ہے:

کیہر لنکی گوریاں، سوڈھا چتر سجان،
بڑ جھکیا لانبے سران، آیو گڈ امران
ترجمہ:
جہاں تیندوے کی پتلی سی کمر والی خوبصورت عورتیں ہوں، جہاں مرد عقلمند اور بہادر ہوں، جہاں لانبے کے تالاب پر برگد کے درختوں کے جھنڈ ہوں
تو وہاں آپ یقین کر لینا کہ یہ آثار امرکوٹ کے خوبصورت قلعے کے ہیں۔

Where beautiful women whose waists resemble with narrow waists of cheetah’s,where men are sagacious and valiant,where clumps of Oak tree on a pond of Laanbaa can be seen then it is cocksure they are signs of Umerkot fort.

ایکی ڈٹھاں ڈٹھ سہہ مہیلاں چمپک مال،
کر سوں لیڈھی توڑ کر روپ رونک اک ڈال
ترجمہ:
امرانے کی پدمنیاں سب ایک جیسی ہیں۔ ایک کو دیکھ لیا، گویا سب کو دیکھ لیا۔ سبھی چمپا کی مالا جیسی ہیں۔ خوب صورتی میں کوئی بھی کم نہیں ہے۔ سبھی حسن کے درخت کی ٹہنیاں ہیں جنھیں توڑ کر جیسے الگ الگ کر دیا گیا ہو۔

Padminis of Amrkot are all the same. Saw one, as if saw all. All are like Champa garlands. Nothing short of good looks. All are the branches of the tree of beauty thathave been broken asunder.

ڈھاٹ سرنگی گوریاں، آڈو کہوت ایہہ،
پدمنیا ہمروٹ ہووے، راکھ م سنسو ریہہ،
ترجمہ :
ڈھاٹ کی خوبصورت عورتوں کا حسن دنیا میں مثالی ہے، بڑے عرصے سے کہا جا رہا ہے کہ امرانے/عمرکوٹ (ہمروٹ) کی پدمنی کے حسن میں کوئی شک نہیں ! وہ بے حد حسین ہے۔

Beauty of Dhat(Thar) women is famous worldwide
From time immemorial,it is well-known saying that beauty of umerkot women is unrivalled

چیرے پونم چندر کاڈھے کامنیانھ،
کایا سینگل ڈھاٹ دھر دیکھو دامنیانھ،
ترجمہ:
اے مسافر! پونم کے چاند کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصے سے امرانے کی کامنی تخلیق کی گئی اور دوسرے حصے سے سیندل (سری لنکا) کے پدمنی کو۔

The moon of poonam was bifurcated into two parts.From one section of it,beautiful women of amarkot were sculpted and from the other, women of sri lanka..

میں نے ایک مرتبہ تھر کی مقامی این جی اوز کے نیوز لیٹر میں تین چار لوک دوہوں کا انگریزی ترجمہ پڑہا تھا، مجھے محسوس ہوا انگریزی ترجمے میں کہیں کمی رھ گئی ہےلیکن بھر بھی اچھا لگا کیوں کہ ایک کوشش کی گئی تھی:
ہرن آکھاڑا نہ چھڈے جنم بھوم نران،
ہاتھی کی وندیا جبل وسرسے موئان،
ترجمہ :
ہرن اپنا ٹھکانہ نہیں چھوڑتا، کہیں بھی جا کر واپس لوٹ آتا ہے، آدمی کو اپنی جنم بھومی اور ہاتھی کو اپنا وندھیا پہاڑ مرنے تک نہیں بھولتا، اپنی جنم بھومی ہر ایک کو پیاری ہوتی ہے۔

Where the deer lives
There it always remains
Men can never forget their birthplace
Just as the elephant cannot forget windiya mountains
Until their dying breath

گر موران بن کونجھراں آنبا ڈار سوئاں
سجن کو وچن جنم بھوم وسرسی موئاں
ترجمہ :
مور کو پہاڑ، ہاتھی کو جھنگل، طوطے کو آم کی ڈالی، آدمی کو اپنے محبوب کا کڑاوا طعنہ اور جنم بھومی مرنے کے بعد ہی بھولتا ہے۔

The peacok the mango garden
The crane the jungle
The harsh words of a friend
And ones birthplace
These are the things that remain with a man
Until he hreathes his last

اتر سیڑہوں کڈھیوں ڈونگر ڈمریا
ہینئڑو تڑپھے مچھ جان ساجن سنبھریا

شمال کی طرف سے گھنگھور گھٹا برسنے لگی ہے، آسمان پر کالے غضب ناک اور غصے دار پہاڑوں کی ماند دکھائی دیتے ہیں ایسی رت میں ساجن یاد آنے پر میرا دل مچھلی کی طرح دھڑکنے لگا ہے۔

From the north come the signs of rain
And clouds like mountains fill the sky
His heart was filled with fire
As he was reminded of his former companions.

مت بول مت بول مورلا لو تو اگھو جا،
ایک تو اوڈھو انہرو اوپر تانہنحو گھاء،
ترجمہ:
اے مور تو مت بول مت بول، تو دور جا، ایک اوڈھو اداس ہے، اوپر تیری چنگاڑ کے گھاؤ میں میرا دل ڈوبا جاتا ہے ۔

Shut up shut up
Go away peacock
Udho is already sad

And you add to his sadness

اسین گر را مورلا کانکر پیٹ بھران
رت آئی نہ بولاں ہینئوں پھاٹ مران
ترجمہ :
ہم پہاڑی پنچھی مور ہیں، کنکر کھاکے پیٹ بھریں،
رت آنے پر نہ بولیں تو ہمارا کلیجہ پھٹ جائے اور ہم مر جائیں۔

We are jungle peacock
We fill our stomachs by eating gravel
It is the season for speaking
If do not speak my heart will burst

محبت کے جذبوں سے لبریز یہ لوک دوہے پورے ریگستان میں مشہور ہیں ان دوہوں میں خوابوں کے خزانے ہیں صحرا کی زندگی عکاسی ہے، قحط کے دکھ اور ساون کے سکھ ہیں۔ ان دوہوں میں کہیں روشن اور کہیں کالی راتیاں ہیں کہیں ملن کی امنگ سے مانگ سجی ہوئی ہے۔ تو کہیں انتظاری کی کیفیت میں گیسو بکھرے ہوئے ہیں۔ صحرائے تھر کے لوک ادب میں لوک گیتوں کی طرح لوک دوہے بھی خاص اہمیت رکھتے ہیں ۔ شادی بیاہ کی رسومات سے لے کر خوشی غمی کی ہر مجلس میں جہاں لوگ گیت سنائے جاتے ہیں وہاں لوک دوہے کا رنگ ضرور نروار ہوتا ہے۔ یہ لوک دوہے غیر محسوس ثقافتی ورثہ ہیں ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More