صحرا کی زبان اور لوک گیت
تحریر: بھارومل امرانی سوٹہڑ

صحرا کی زبان اور لوک گیت
انسان اپنی آفرینش سے لاکھوں سال ارتقائی سفر طے کرکے موجودہ دور تک پہنچا ہے۔ ارتقائی سفر کے دوران پوشیدہ اور ظاہری کیفیات کا طریقہ اظہار، فکر، رہن سہن اور جسمانی ساخت میں بے شمار تبدیلیاں آئی ہیں۔ انسان کی سفری کہانی میں کبھی تاریخ، کبھی روایات، کبھی سائنسی نقطہ نظر سے کچھ اصول بنا کر، اس کی روشنی میں تحقیق ہوتی رہی ہے۔ نہ کبھی انسانی سفر رکا ہے، نہ ہی کبھی تحقیق کا عمل بند ہوا ہے۔ انسانی کہانی پہ تحقیق کا سائنسی عمل، علمِ بشریاتِ جسم، آثارِقدیمہ، زبان اور ثقافت جیسے چار مرکبات پر مشتمل ہے۔ صحرائے تھر میں یہ چاروں مرکبات اپنی انفرادیت اور کثرت سے ملتے ہیں۔ صحرائے تھر کا خطہ تہذیبی، ثقافتی اور تاریخی حوالے سے منفرد رہا ہے۔ تھر کی زبان اور رہن سہن سے لے کر رسم و رواج تک زندگی منفرد اور سادہ ہے۔ تپتی ہوئی ریت اور جھلساتی ہوئی دھوپ میں ویران دکھائی دینے والا ریگستان برسات کی حسین رت میں قدرت کا عظیم شاہ کار بن جاتا ہے۔ ریگستان جہاں قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، وہاں شاعری و موسیقی میں بھی درجہ کمال رکھتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ریگستان ایک کھوئے ہوئے سمندر کا پیٹ ہے۔ یہ ریت کے ٹیلوں والی زمین کبھی سمندر تھی۔اور کسی وقت میں یہاں ہاکڑو نامی دریا بھی بہتا تھا۔ یہ وادی سندھ کی قدیم تہذیب جسے سندھو، سرسوتی اور ہڑپا کی تہذیب کہا جاتا ہے۔ حالیہ تحقیقات سے پتہ چلا ہے زیادہ آبادیاں دریائے ہاکڑا کے ارد گرد تھیں۔
سندھ میں اس ریگستانی حصے کو "مُردھر” یا "مروستھل” بھی کہا جاتا ہے۔ شمس العلما ڈاکٹر علامہ عمر بن داؤد پوتہ نے اپنے ایک قلمی نسخے میں ایک تھری دوہا لکھا ہے۔۔۔
اس کا مطلب ہے کہ ‘آج میرے خطے پہ کالی گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں، مردھر پہ بارش ہو رہی ہے، پر ہوتے تو ایک پل میں اڑ کر گھر پہنچتا۔
مُردھر یا مروستھل کے نام کی وجہ سے ریگستان کے لوگوں کی زبان کو مروبھاشا کا نام دیا گیا۔ 778ع میں ‘کولیامالیا’ نام کی ایک کتاب میں اس وقت کی قابلِ ذکر زبانوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، ان میں مُروبھاشا بھی ہے۔
گیارھویں صدی میں مروگجر کی اصطلاح سننے میں آئی۔ لسانیات کے ماہرین نے ضلع تھر پارکر کے پارکری لہجے کو اسی مروگجر سے منسلک کیا ہے۔ پارکر کا حصہ ثقافتی تناظر میں بہت مالا مال ہے ۔ ان کی اہم ثقافتی پہچان ان کی زبان ہے جوکہ جتنی میٹھی ہے اتنی ہی قدیم بھی ہے۔ سارنگ دھر مروگجر کے دور کا خوب صورت شاعر ہے، جس کا تھر کے حسین پرندے مور پر ایک شعر ملتا ہے، جس کا ترجمہ ہے:
‘اے مور تیری آواز شعرا کے دل میں اتر جاتی ہے جس طرح دلہن کی مانگ پھولوں سے سجی ہوئی خوب صورت لگتی ہے، اسی طرح تیرے پر بھی دل کش ہیں۔ تیری دوستی کالے بادلوں سے ہے، سمجھ میں نہیں آتا کہ قدرت نے یہ انعام تجھے کس وجہ سے دیا ہے۔’
مروگجر اور مروبھاشا کی طرح ریگستانی زبان کے لیے پنگل اور ڈنگل کی اصطلاح بھی پندرھویں اور سولھویں صدی میں مشہور ہوئی۔ برصغیر کی زبانوں پر تحقیق کرنے والے سر گریرسن نے سندھ کے ڈھاٹ والے حصے کی زبان کو پنگل اور ڈنگل کے دائرے میں شامل کیا ہے۔ یہ بولی علم و ادب خاص طور پہ لوک ادب میں اہم بولی سمجھی جاتی ہے۔ ڈنگل کی اصطلاح سب سے پہلے پندرھویں صدی کے شاعر کشلابھ نے استعمال کی۔ ماہرینِ لسانیات کا کہنا ہے کہ ڈنگل ریگستانی زبانوں میں ایک شاعری کی صنف ہے۔ جس کا موضوع رزمیہ شاعری ہے، اور کچھ محققین کا خیال ہے کہ یہ بولی نہیں چرواہوں اور کسانوں کا لہجہ ہے۔ کچھ بھی ہو یہ بولی باجرے کے لہلاتے ہوئے کھیتوں، گاؤں کے میدانوں، ریت کے ٹیلوں اور رات کی خنکی میں ہونے والی محفلوں کی میٹھی بولی ہے۔ ریگستان کے دانش وروں، ادیبوں اور عالموں کا پنگل کے لیے اچھا رویہ رہا ہے، تھر کے مشہور رس نرتیہ کے لوک گیت راسو (راسوڑے) پنگل میں لکھے ہوئے ہیں۔ پارکری زبان کا ایک راسوڑا ہے:
‘مانرا مٹھڑا مہمان بھلیں آویا ہوں تان کہڑی کراں منوار’
(میرے پیارے مہمان! تجھے خوش آمدید میں تمہارا استقبال کیسے کروں)
یہ راسوڑا گیت تھر آنے والے ہر شخص نے سنا ہے۔
تھر پارکر درواڑی اور راجپوتانہ تہذیب کا سنگم ہے۔ تھر پارکر کی علاقائی تاریخ کی طرح زبان کی تاریخ بھی قدیم ہے۔ تھر کی زبان پر ‘موہن جو دڑو’ کی امر مُہر لگی ہوئی ہے۔ دوسری زبان کے لفظوں کو اپنے ماحول کے مطابق رنگ ڈھنگ دے کر اپنے وجود میں شامل کرنے سے اس بولی کی وسعت بڑھتی چلی گئی۔ تھر پارکر کی علاقائی بولی میں جہاں پانچ ہزار سال پرانے سندھی اور دراوڑی زبانوں کے الفاظ ملتے ہیں وہاں جدید دور کی سائنسی ایجادات کے سائنسی نام بھی جنم لے رہے ہیں۔
تھر پارکر علاقائی لحاظ سے نو حصوں ڈھاٹ، ونگو، کنٹھو، کھاہوڑ، پارکر، سامروٹی، مہرانو، پائر اور وٹ پہ مشتمل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان حصوں میں ہر ایک حصے کا اپنا لہجہ ہے۔ مگر مجموعی طور پہ تھر پارکر میں بولی جانے والی زبان کے تیں لہجے ہیں۔
1۔ سندھی تھری لہجہ
2۔ پارکری
3۔ ڈھاٹکی
سندھی تھری بولی:
سندھی تھری بولی سے مراد وہ لہجہ ہے جو اپنے مخصوص الفاظ، تلفظ، کہاوتوں، اصطلاحات کے ساتھ تھر میں بولا جاتا ہے۔ اس لہجے میں تھر کے جنگلوں، درختوں اور گھاس کے ساتھ ہر جان دار و بے جان کا اپنا نام ہے۔
انسانی ارتقا کے سفر کو سمجھنے کے لیے کتنی ہی تاریخی کہاوتیں، سماجی و معاشی تجزیوں کے فقرے، الفاظ کا مخصوص تلفظ اس لہجے کی خوب صورتی ٰٰہیں۔ اس لہجے پر تحقیق کے حوالے سے بہت کم کام ہوا ہے، مگر یہ سندھی زبان کا اہم لہجہ ہے۔ سندھ کی کلاسیکل اور جدید شاعری میں اس لہجے کا استعمال بھی ہوا ہے۔ سندھ کے عظیم شاعر شاہ لطیف سے لے کر سچل سرمست، نبی بخش قاسم اور شیخ ایاز جیسے نام ور شعرا نے اپنی شاعری میں اس لہجے کے کئی الفاظ استعمال کیے ہیں۔
پارکری:
پارکری کارونجھر کے پہاڑی سلسلے کی زبان ہے۔ آزادی سے قبل پارکری زبان کا رسم الخط گجراتی تھا، اب پارکری زبان کو عربی رسم الخط میں سندھی الف بے کے ساتھ پارکری تلفظ کے چار مخصوص حروف شامل کر کے پارکری الف بے تیار کی گئی ہے۔ ایک برطانوی نوجوان اسکالر رچرڈ ہائیکل کی پارکری زبان کے لیے خدمات قابلِ تعریف ہیں۔
1985ع میں سندھی نصاب کا پارکری ترجمہ ہوا ہے، پارکری میں پونم پاسکل کی کوشش سے ‘پربھات’ نامی ایک جریدہ شایع ہو رہا ہے۔ پارکری میں کئی کہانیاں، کہاوتیں اور لوک گیت مشہور ہیں۔ پارکری کے اہم شعرا میں سے ایک چندی رام بھاٹ بھی ہے، جس کے لیے جدید سندھی شاعری کے بڑے شاعر شیخ ایاز نے کہا ہے ‘ان کے شعر نہیں، پتھر پہ لکیریں ہیں، جو کبھی مٹ نہیں سکتیں’۔ چندی رام کے مشہور اشعار میں سے ایک شعر ہے:
کارونجھر ری کور مریں تو پن مہلیں نہیں
ماتھے ٹہوکے مور ، ڈونگر لاگے ڈیپتو
(اپنی زندگی کی آخری سانس تک اس کارونجھر پہاڑ کو مت چھوڑنا جس پر کھڑا مور جب بولتا ہے تو سارا پہاڑ چراغ کی مانند روشن ہوجاتا ہے۔)
ڈھاٹکی:
ڈھاٹکی ایک لہجہ ہے یا مکمل بولی، دونوں صورتوں میں ڈھاٹکی کو تھر کے ریگستان میں نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ سندھ کے مشہور و معروف لسانیات کے ماہر ڈاکٹر غلام علی الانا نے ڈھاٹکی کو سندھی زبان کا چوتھا لہجہ قرار دیا ہے۔ ادیب ڈاکٹر عبدالجبار جونیجو اور ہدایت پریم نے اپنے مشہور کتاب "تھر جی بولی” میں لکھا ہے کہ ڈھاٹکی کو سندھی زبان کا محاورہ نہیں کہا جا سکتا بلکہ اس کی اپنی ایک علیحدہ حیثیت ہے۔ لسانیات کے دو بیرونی ماہرین پیٹاگرینگر اور نیٹا گرینگر نے اپنی تحقیق پرائمری سروے لینگویج آف سندھ میں ڈھاٹکی کو مارواڑی کے قریب دکھایا ہے۔ مختصر طور پر بات یہ ہے کہ ڈھاٹکی تھر کی اہم زبان ہے، جس کو سوڈکی بھی کہتے ہیں۔ ایک غیر سرکاری سروے کے مطابق ضلع تھرپارکر میں 75 فیصد لوگوں کی مادری زبان ڈھاٹکی ہے، ستانوے فیصد تھر کی آبادی ڈھاٹکی سمجھتی اور بول سکتی ہے، ضلع عمرکوٹ میں 54 فیصد لوگوں کی مادری زبان ڈھاٹکی ہے، ساٹھ فیصد سے زیادہ آبادی ڈھاٹکی سمجھتی اور بول سکتی ہے۔ اسی طرح کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص، ٹنڈوالھیار، سانگھڑ، بدین اورٹھٹھہ میں ڈھاٹکی بولنے والے مل جاتے ہیں ۔ ڈھاٹکی پہ تحقیق کے حوالے سے سندھ کے بڑے اسکالر ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ کی خدمات قابلِ تعریف ہیں۔ انھوں نے اپنی کتاب ‘سندھی بولی ادب جی مختصر تاریخ’ میں لکھا ہے کہ ‘ڈھاٹکی کا بنیادی محور سندھی زبان ہے‘۔
لوک ادب اور سماج کا پختہ رشتہ ہے۔ لوک ادب سماج میں ہونے والی روز مرہ کی کارگزاری کا عکاس ہے۔ تھر کا لوک ادب بھی اسی حوالے سے کافی منفرد، دل چسپ اور ساری دنیا میں مشہور ہے۔ یہاں کا لوک ادب اور ثقافتی رنگ اپنے اصل روپ میں موجود ہے۔ لوک ادب اور ثقافتی حوالے سے تھر کی زمیں بہت زرخیز رہی ہے۔ دنیا کے لوک ادب کی طرح بادشاہوں اور پریوں کے ساتھ ساتھ یہاں کے مقامی لوک کرداروں کی کہانیوں اور شعر و شاعری کا بڑا ذخیرہ بھی ملتا ہے۔ قاضی قادن، شاہ لطیف، سچل سرمست اور دیگر صوفی شعرا نے تھر کا تذکرہ اور ڈھاٹکی زبان کا استعمال اپنی شاعری میں دل چسپ اندازمیں کیا ہے۔ ڈھاٹکی کی موسیقی سوز و حزن میں گندھی ہوئی ہے۔ لوک گیتوں میں فطری سادگی کا حسین رنگ بھرا ہوا ہے۔ لوک گیت کسی ایک شاعر کی تخلیق نہیں بلکہ صدیوں کا ورثہ ہے۔ چارن، بھاٹ، بھان اور منگنہار قبیلوں کا ڈھاٹکی لوک ادب میں بڑا کردار رہا ہے۔ ان کی وجہ سے یہ ادب آج تک زندہ ہے۔ موروں کے دل ربا رقص اور حب الوطنی کے عظیم کردار مارئی کی داستان میں مہکتے ہوئے ڈھاٹکی کے گیتوں کو مقامی گلوکاروں نے دل سے گایا ہے، جب بھی کوئی سنتا ہے تو اس کے دل کی دھڑکن ساز کے ساتھ دھڑکنے لگتی ہے۔ ڈھاٹکی میں جو قدیم ادب کے نمونے ملتے ہیں، ان میں سڈونت سارنگا، ڈھولا مارو کے دوہے اور گیت شامل ہیں۔ تاریخ نویسوں کے مطابق سڈونت سارنگا کا قصہ پاری نگر کے دور کا ہے، مگر شاعری کی ساخت سے ظاہر ہوتا ہے کہ دوہے سومروں کے پہلے دور گیارھیں صدی کے ہیں۔
1226ع میں سوڈھا خاندان کے دورِ حکومت میں ڈھاٹکی کو خوب پذیرائی ملی۔ عربی رسم الخط میں سندھی الف بے کی مدد سے ڈھاٹکی کی الف بے تیار کی گئی ہے۔ حروف کی تعداد چونتیس رکھی گئی ہے۔ جس طرح گنے میں رس اور مہندی میں رنگ چھپا ہوا ہوتا ہے،اسی طرح بولی کے کھیت میں حسنِ بیان پوشیدہ ہوتا ہے۔ ڈھاٹکی میں بہت ساری کہاوتیں ملتی ہیں۔ ڈھاٹکی سیکھنے کے لیے کچھ کتابیں بھی شایع ہوئی ہیں۔ مگر اب تک ڈھاٹکی کا کوئی جریدہ نہیں نکلتا۔ ریڈیو پاکستان مٹھی پہ دو ڈھاٹکی کے پروگرام ‘ڈھاٹی مانہجا ڈھول’ اور ‘تھر ری سرہان’ روزانہ نشر ہوتے ہیں۔ پیارو شوانی اور راقم الحروف نے شیخ ایاز کی شاعری کو ڈھاٹکی اور مارواڑی روپ دیا ہے۔ ڈھاٹکی شعر و شاعری اور موسیقی کا اپنا منفرد مقام ہے۔ ڈاکٹر مرلی بھاونانی اور ڈاکٹر پھلو’سندر’ مینگھواڑ نے ڈاٹکی زبان پر پی ایچ ڈی کی ہے۔ ڈاکٹر مرلی کے تھیسز ‘سندھی تھری’ نامی کتاب میں چھپا ہے اور ڈاکٹر پھلو کا تھیسز زیر اشاعت ہے۔
ان تین اہم لہجوں کے ساتھ مارواڑی، گجراتی، سرائیکی، بلوچی اور کچھی زبان بھی تھر میں ملتی ہے۔
مارواڑی :
تھر میں ڈھاٹکی کے ساتھ مارواڑی زبان بھی بولی جاتی ہے، لیکن بولنے والوں کی آبادی کم ہے۔ تھر کے گاؤں گوٹھوں میں آنے والے خانہ بدوش لوگ مارواڑی زبان بولتے ہیں ۔ تھر کی لوک شاعری پر مارواڑی زبان کا گہرا اثر رہا ہے۔ مارواڑی زبان کا رسم الخط مارواڑ کی سرزمین پر دیوناگری ہے، مگر تھر میں مارواڑی عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔
گجراتی:
مارواڑی کی طرح گجراتی بولنے والوں کی آبادی تھر میں کم ہے لیکن تھر کے لوک ادب خاص طور پہ رس نرتیہ کے لوک گیت راسو (راسوڑا) پر گجراتی کا بہت اثر ملتا ہے۔ گجراتی کا اپنا رسم الخط ہے۔ پارکری زبان کے مشہور لوک شاعر چندی رام بھاٹ کی شاعری گجراتی رسم الخط میں شائع ہوئی ہے۔ چارن کوی کھمڈان کوی کے قلمی نسخے گجراتی رسم الخط میں ملتے ہیں۔
کچھی:
کچھی زبان بولنے والوں کی بھی آبادی تھر میں بہت کم ہے۔ لیکن تھر کے حصے وٹ کی زبان پر کچھی زبان کا بڑا اثر ہے، کچھی زبان سندھی زبان کے بہت قریب ہے۔
سرائیکی اور بلوچی :
تھر میں آباد بلوچ قبیلوں کی زبان سرائیکی اور بلوچی ہے۔ تھر کے لوک ادب میں سرائیکی اور بلوچی کے اس ریگستانی لہجے کا ادب ملتا ہے ۔
صحرائے تھر کے لوک ادب پر کہیں سندھی تھری اور ڈاٹکی کا رنگ ہے تو کہیں مارواڑی کا، کسی جگہ پارکری اور گجراتی کا اثر دکھائی دیتا ہے، تو بعض جگہ کچھی، میواتی، مالوی اور سرائیکی کا اثر ہے۔ جنوبی ایشیا کے بڑے ریگستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے اپنے مزاج اور لہجہ کے مطابق لوک ادب کو ڈھال لیتے ہیں۔ اسی وجہ سے لوک گیتوں کی زبان ضرور بدلی ہوئی معلوم ہوتی ہے مگر ان سب کا بنیادی جذبہ ایک ہی ہے۔
ادب، تاریخ، ثقافت اور جعرافیہ کو فی البدیہہ انداز میں موسیقی کا روپ دیا جاتا ہے۔ جو کہ سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی چلی جاتی ہے۔ موسیقی میں ہر زبان کی اپنی ایک خصوصیت ہوتی ہے جو سننے والے کو اپنے حصار میں جکڑ لیتی ہے ۔ صحرا ئے تھر لوک گیتوں کی سر زمین ہے۔ صحرا کے دامن میں آباد لوگ قحط کے کرب، بادلوں کے انتظار، بارش کی تمنا یا ساون رت کے سنہرے دنوں میں جب مور ناچتے ہیں تو معاشرتی زندگی کے رسم و رواج ، تہذیب و ثقافت سے جڑے جذبات اور سارے احساسات کو زندگی کے ہر قدم پر لوک گیتوں میں گا کر بیان کرتے ہیں۔ تھر کے لوک گیت اس خطے کا سرمایہ ہیں، جن سے ریگستان کے لوگوں کی زندگی کی بھرپور عکاسی ہوتی ہے۔ ریگستان کے یہ لوک گیت کب وجود میں آئے؟ اس کا پختہ ثبوت ہمارے پاس موجود نہیں ہے کیوں کہ صحرائے تھر کے لوک گیتوں کا کوئی قلمی نسخہ ابھی تک دستیاب نہیں ہوا ہے جس کی بنیاد پر ریگستانی لوک گیت کی ابتدا اور ارتقا کی کہانی بیان کی جا سکے۔ کہا جا سکتا ہے کہ تھری لوک گیت زمانی اعتبار سے اتنے ہی قدیم ہیں جتنی خود صحرائی تہذیب۔ تھر کے لوک گیت نہ نئے ہیں نہ پرانے بلکہ صحرائی لوک گیتوں کی جڑیں ماضی میں پیوست ہیں۔ یہ لوک گیت صدیوں کا سفر طے کر کے نسل در نسل منتقل ہوتے آئے ہیں۔ ادبی نقاد کہتے ہیں کہ لوک گیت ایسی صنف ہے جس کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں ان کے بول اتفاقیہ طور پرچند حساس دلوں کی کیفیات کی ترجمانی بن کر نکلے، پھر وہ زبان زدِ عام ہو گئے ہوں گے، جن میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ان لوک گیتوں میں بچوں کی لوریاں، بڑوں کے لیے پندونصیحت، موسموں کا تغیر، شادی بیاہ کی رسومات، ہجر و وصال کے دکھ اور راحتیں، شجاعت کی گل فشانیاں، سخاوت و فیاضی کی داستانیں،ایثار و قربانی کے بیان،ہم دردی کا جذبہ، حسن وعشق کی روداد اور سر و ساز کے آہنگ ،سب کچھ ہی ان گیتوں میں موجود ہوتا ہے۔ ان لوک گیتوں میں سلگتے ہوئے سوال اور جلتے ہوئے جواب بھی مل جائیں گے۔ یہ لوک گیت ریگستانی لوگوں کے جذبات کا فطری اور براہ راست اظہار ہیں۔
انگریزی ادب میں لوک گیت اور لوک کتھاؤں کے لیے Ballad’ لفظ استعمال ہوا ہے،’ Ballad’ کا ماخذ دراصل لاطینی زبان کا لفظ ‘بے لارے’ ہے نام ور نقاد ‘رابرٹس گریبس’ نے لکھا ہے کہ
‘اس کا تعلق’ Balle’ لفظ سے ہے۔ اس کا مطلب اس گیت سے تھا جو گیت رقص کرتے وقت گایاجائے مگر بعد میں اس کا اطلاق ہر طرح کے گیتوں پر ہونے لگا۔’
صحرائے تھر کے لوک گیتوں میں رس نرتیہ کے لوک گیت بھی ملتے ہیں۔ جن کو راسوڑا کہا جاتا ہے۔ پارکر کے حصے میں رس نرتیہ کے لوک گیت گاتے ہوئے گربی رقص کیا جاتا ہے۔ اور ڈھاٹ والے حصے میں مٹکو،ڈانڈیا، جھومر، اور گھومر رقص کرتے ہیں۔
صحرائے تھر کی موسیقی میں ایسے سحر انگیز اور مقبول لوک گیت ہیں، جو ہر عہد میں اپنے الفاظ اور اپنی دھنوں میں سننے والوں کی روحوں کو ہمیشہ سرشار رکھتے ہیں۔ ان کی سماعت کر کے زندگی گنگناتی ہوئی محسوس ہونے لگتی ہے۔ حسن، آواز میں ہو یا چہرے میں، جین مندر میں ہو یا راناسر کے تالاب پر حسن تو حسن ہی ہے، حسن اپنا فطری مطالبہ رکھتا ہے۔ صحرا کا باسی ہونے کے ناطے میں یہ سدا بہار حسین لوک گیت سنتے اور رقص دیکھتے ہوئے بڑا ہوا ہوں۔ آج بھی مختلف مواقع پر اکثر و بیش تر لوک گیت اور رقص ہمارے گھروں میں سننے اوردیکھنے کو ملتے ہیں۔
تھر اپنی مختلف ثقافتی رنگا رنگی کی وجہ سے ایک منفرد خطہ تصور کیا جاتا ہے۔ تھر کا صحرا جس قدر وسیع و عریض ہے، اسی طرح اس کے لوگوں کے دل بھی وسیع ہیں۔ صحرائے تھر کے لوک گیتوں پر تحقیقی کام ہوا ہے مگر اس کی مقدار تسلی بخش نہیں ہے۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے اپنی کتاب ‘سندھی لوک گیت’ میں صحرائے تھر کے چالیس لوک گیت مرتب کرنے کے ساتھ لوک ادب کے سلسلے میں تھر کے قصے کہانیاں اور لوک داستانیں مرتب کرتے ہوئے ان میں لوک گیتوں کا رنگ بھی شامل کیا ہے۔ رائچند ہریجن نے اپنی مشہور و مقبول سندھی کتاب ‘تاریخِ ریگستان’ میں تھر کے کچھ لوک گیت شامل کیے ہیں۔ منگھارام اوجھا کی کتاب ‘پرانو پارکر’ میں پارکر کے دو لوک گیت اور کتاب شریمالی اتہاس میں ‘چونری رسم کے گیت’ ملتے ہیں۔ پارومل پارکری نے اپنی کتاب ‘ساگر جا موتی’ میں کولھی قبیلے کےچند لوک گیت مرتب کیے ہیں۔ پیرڈان سنگھ کی کتاب ‘سوڈھن جا گیت’ سوڈھا قبیلے کے لوک گیت جب کہ کلادھر متوا کی کتاب ‘ متون جا گیت’ میں متوا قبیلے کے لوک گیت ملتےہیں۔ ڈاکٹر نارائن بھارتی نے اپنی کتاب ‘سندھی لوک گیت’ اور ‘تھر جا لوک گیت’ میں لوک گیتوں پر تحقیقی کام کیا ہے۔ ڈاکٹر جیٹھو لالوانی کی کتاب ‘بنی کے لوک گیت’ اور ڈاکٹر کمال جامڑو کی کتاب ‘سندھو جا گیت’ پی ایچ ڈی کے مقالے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالکریم سندیلو نے اپنی ڈاکٹریٹ کے مقالے ‘لوک ادب جو تحقیقی جائزو’ میں لوک ادب کی دیگر اصناف کے ساتھ لوک گیت کی صنف پرجائزہ پیش کرتے ہوئے تھر کے لوک گیتوں کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ محمد عثمان ڈیپلائی، سروپ چند شاد، معمور یوسفانی، ہری سنگھ، ٹھاکر شرما، پریتم پیاسی، سنبھومل ہمیرانی، حاجی محمد کمہار اور دلیپ کوٹھاری کے لوک گیتوں پر مشتمل مضامین سندھی ادبی بورڈ کے ادبی جریدے ‘ٹماہی مہران’ اور پی آئے ڈی کے ‘نئین زندگی’ نامی سندھی جریدوں سمیت مختلف رسائل میں ملتے ہیں۔ پروفیسر نور احمد جنجھی نے تھر کے منتخب لوک گیتوں کا انگریزی ترجمہ کیا ہے۔ ڈاکٹر کشنی پھلوانی کے مقالے ‘تھر میں ‘گائجندڑ سندھی داستان’ میں تھر کی لوک داستانوں کے گیت ہیں۔ پاری ننگر کی لوک داستان سڈونت سارنگا پر محمد عثمان ادیب کی جامع اور محمد قاسم راہموں کا سندھی میں کتابچہ شائع ہوا ہے۔ آغا سلیم کی کتاب ڈھولا مارو لوک ورثہ اسلام آباد نے سندھی اور اردو دونوں زبانوں میں شائع کی ہے۔ اردو زبان میں چھپی ہوئی تاج محمد قائم خانی کی کتاب ‘ڈھولامارو’ قابلِ ذکر ہے۔ اردو ادب میں صحرائی ادب کے حوالے سے باغ علی شوق کی کتاب ‘راجستھانی زبان و ادب’ بہت معروف رہی ہے۔ باغ علی شوق نے صحرائی ادب میں تھر کے لوک گیتوں کا اچھا تذکرہ کیا ہے۔ اسی طرح دیگر محققیں نے بھی سندھی، اردو اور انگریزی زبان میں تھر کے لوک گیتوں پر کام کیا ہے.
میں نے تھر کے لوک گیتوں پر 2001 سے کام کا آغاز کیا جو آج تک جاری ہے۔ لوک شاعری اور خصوصی طور پر لوک گیت میرے لیے ایک پرکشش آغوش کی مانند ہیں۔ میں نے کبھی دھرتی کے خوب صورت لوک گیتوں کی میٹھی لوری پر گہری نیند کا لطف لیا ہے اور کبھی لوک گیتوں کے راگ پر چشمِ بیدار کی کیفیت سے سرشاری ملی ہے ۔ میں نے اپنی نوجوانی کے حسین دنوں کو لوک شاعری کے سپرد کر دیا ۔ میرا خواب ہے کہ لوک گیتوں کے بولوں سے اپنی دھرتی کی اس تاریخ کو مرتب کروں جس کے اوراق وقت کی تند و تیز ہواؤں میں بکھر گئے ہیں۔ میری پہلی کتاب گیت سانون گیت من بھاون جا’ کے نام سے میرے پیارے دوست دلیپ کوٹھاری نے 2004ع میں ‘نینہن پبلیکیشن مٹھی’ کی جانب سے شائع کی۔ ساون رت میں تھر کے چپے چپے میں بہاروں کے منظر دکھائی دیتے ہیں۔ چاہے وہ پارکر کا پہاڑی اور ہموار میدانی علاقہ ہو، یا ڈھاٹ کا اونچے ٹیلوں والا حصہ ۔ رن کچھ سے جڑا ہوا وٹ کا حصہ ہو یا سامروٹی کا، ہر جگہ چرند پرند کی فطری آوازوں کے ساتھ صحرائی لوگوں کی طویل لے کے لوک گیت دلوں کو لبھاتے ہیں۔ سندھی زبان کی اس کتاب ‘گیت سانون من بھانون جا’ میں ساون رت کے لوک گیت سندھی زبان میں اپنے پس منظر اور ان کی شرح کے ساتھ شامل ہیں۔
سندھ کے خوب صورت شاعر اور سیاست دان محترم سائیں سردار علی شاہ صاحب نے محمکہ ثقافت و سیاحت کی وزرات کا قلم دان سنبھالنے کے بعد لوک ادب اور لطیفیات پر میری برسوں کی محنت کی بہت قدر دانی کی۔ شاہ صاحب نے ذاتی دل چسپی لیتے ہوئے دو ہزار سترہ سے دو ہزار بیس تک سندھی زبان میں میری پانچ کتابیں محمکہ ثقافت و سیاحت کے زیرِ اہتمام شائع کروائیں۔ ان میں سے ایک تھر کے لوک گیتوں پر مشتمل کتاب ‘دھرتی گائے تھی’ شامل ہے۔
بھارومل امرانی سوٹہڑ
چیلہار تھرپارکر