صحرائے تھر میں کسانوں کا تہوار
بھارومل امرانی سوٹہڑ
صحرائے تھر میں کسانوں کا تہوار
بھارومل امرانی سوٹہڑ
سرسوتی اور ہاکڑو ایک دریا کے دو نام ہیں یا دو علاحدہ علاحدہ دریا ہیں، اب تک کوئی حتمی رائے مل نہیں سکی لیکن اس بات پہ اتفاق رائے ہے کہ برصغیر کے ریگستان والے علاقے میں جب دریا بہتا تھا تو ہر طرف ہرے بھرے کھیت لہلہاتے تھے۔ تب یہاں خوشحالی، شادمانی، رقص و کیف کے میل ملاپ سے تہذیب پروان چڑھتی گئی۔ اسی دوران فنون لطیفہ اور موسمی تہواروں کے بڑے میلے منقعد ہوتے گئے۔ ہاکڑو وادی کے زرعی سماج نے بہار کی آمد پہ پھولوں کی رنگت کا تہوار ہولی متعارف کروایا۔ یہاں کی زبان کے اسم ’پھرگنہ‘ سے پھاگن یا پھگن مہینہ بنا۔ گندم کی کٹائی کے بعد بیساکھ میں کسانوں کا دن مخصوص کر کے دنیا کو کسان کی اہمیت کا پیغام دیا گیا۔ ساون کی گھنگھور گھٹاؤں اور بارش کی رم جھم کے ترانوں میں تیج کا تہوار منا کر عام و خاص کا ایک ساتھ جھولوں میں جھولنے کا آغاز کیا۔ رومان کی داستانیں اور راگ مھالا پیش کرنے کے لیے شاعروں، مصوروں اور موسیقاروں کی حوصلا افزائی کی گئی۔ ساون رت کے آخر میں موسم سرما شروع ہونے سے پہلے کاتک ماس میں گھر کی چوکھٹ پر دیا جلا کر روشنیوں کا تہوار منایا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسی کوئی بڑی تبدیلی آئی یا حادثہ رونما ہوا جس سے دریا کی روانی ٹوٹ گئی، ہاکڑا وادی کے میدانی علاقے نے خشک ہو کر ریگستانی ٹیلوں کا روپ اختیار کر لیا۔ ریت کی لہروں میں صحرا کی پیاس بڑنے لگی اور لوگوں کی معاشی زندگی کی ترجیحات تبدیل ہوئیں لیکن سماجی و ثقافتی رنگ نہیں بدلے۔ اس وجہ سے صحرائے تھر کے سماجی اور ثقافتی رنگوں میں آج بھی ہاکڑا وادی کی تہذیب وتمدن کے رسم و رواج ہزاروں سال گزرنے کے باوجود کثرت میں پائے جاتے ہیں ۔
وقت گزرنے کے ساتھ ایسی بڑی کوئی تبدیلی آئی یا حادثا رونما ہوا جس سے دریا کی روانی ٹوٹ گئی، ہاکڑا وادی کے میدانی علاقے نے خشک ہو کر ریگستانی ٹیلوں کا روپ اختیار کر لیا۔ ریت کی لہروں میں صحرا کی پیاس بڑنے لگی۔ لوگوں کی معاشی زندگی کے ترجیحات تبدیل ہوئے لیکن سماجی و ثقافتی رنگ نہیں بدلے، اس وجہ سے صحرائے تھر کے سماجی اور ثقافتی رنگوں میں آج بھی ہاکڑا وادی کی تہذیب وتمدن کے رسم و رواج ہزاروں سال گزرنے کے باوجود کثرت میں پائے جاتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ہاکڑا تہذیب کے عروج کے دنوں میں کسانوں کا تہوار کے موقعے پہ دریا کے کنارے پر جل پوجا کر کے خوشحالی کی پراتھنا کی جاتی تھی۔ آج فطرت کی قربت میں جا کر پیاسے صحرا پر بارش برسنے کے شگن دیکھے جاتے ہیں۔ بادلوں کے برسنے اور اچھا سال آنے کی دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ کسانوں کا تہوار تیں دن تک چلتا ہے۔ پہلا دن چیت کے کرشن پکش (کالی راتوں والے 15 دن ) کے اماوس (اماس) کا دن ہوتا ہے۔ دوسرا دن بیساکھھ کے شکل پکش (چاندنی راتوں والے دنوں میں ) میں چاند رات کے دوسرے دن کسانوں کا تہوار ( ہارین جو پربھ ) اور چاند رات کے تیسرے دن آکھا ٹیج ( آکھاٹی ) مناتے ہیں۔
صحرائے تھر کے مشہور و مقبول لوک گیت ‘موریہ رے موریہ’ میں ‘آکھا تیج’، ‘چوتھ’ اور ‘پانچم’ کا تذکرہ ہے۔ آکھا تیج کو ‘اکشیا تریتیا’، ‘پرشورام جینتی’ یا ‘اکتی’ بھی کہا جاتا ہے ‘آکھا تیج’ کو نئے منصوبوں، شادیوں اور سونے کی خریداری کے لئے ایک اچھا دن سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دن اچھی قسمت لاتا ہے۔ چوتھ آکھا تیج کا دوسرا دن اور پانچم تیسرا دن ہے۔
ان تینوں دنوں کی شروعات گھر کے آنگن میں بارانی فصلوں کے علامتی چھوٹے چھوٹے ڈھیر (جس کو مقامی زبان میں کھرا کہا جاتا ہے) بنا کر کسان لوگ کھیتوں کی طرف جاتے ہیں۔ راستے میں جنگل کے فطری منظروں کا سینہ بہ سینہ چلتے ہوئے صدری علم کے تحت بہت قریب سے مشاہدہ کرے ہوئے بارش اور آنے والی سال کے شگن دیکھتے ہیں۔ شگن میں پرندوں کی بولی بھی شامل ہوتی ہے۔ ریگستان میں ایک چھوٹا سا شگن کا پرندہ پایا جاتا ہے جس کو ‘مالہاری’ کہتے ہیں۔ ‘مالہاری’ کی بولی سے شگن سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اس میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ مالہاری دائیں ہاتھ کی سمت پر بول رہی ہے یا بائیں ہاتھ کی سمت پر کس درخت پر بیٹھی ہے۔بڑی عمر کے سگھڑ لوگ مالہاری کے شگن جانتے ہیں۔ مالہاری کے اچھے شگن کو سانگونی کہا جاتا ہے۔ کسانوں کے تہوار میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ گھر کے آنگن میں بنائے ہوئے ڈھیر سے چیونٹیاں کون سی فصل کے دانے کس سمت لےکر جاتی ہیں۔ گاؤں کے چھوٹے بچے لکڑی کے چھوٹھے چھوٹے ہل بنوا کر میدان میں چلاتے ہیں۔ ہل چلانے کے کھیل میں کوئی بچہ کسان بنتا ہے اور کوئی اونٹ، ان کے من کی تمنا ہوتی ہے کہ یہ سال اچھا ہو، بچوں کے اس کھیل کے منظر دیکھنے جیسے ہوتے ہیں۔ گاؤں کے بڑے جنگل سے واپس آ کر گاؤں کی ایک بیٹھک میں یا کسی بڑے درخت کے نیچے جمع ہوتے ہیں۔ تہوار کے دن کی کچہری کو رہان کہتے ہیں۔ وہاں ہر کسان اپنے اپنے شگن بیان کرتا ہے۔ رہان میں ساون رت کے چار مہینوں ہاڑ، ساون، بھادوں اور اسو کے نام پر مٹی کے علامتی ترایاں (تالاب) بنا کر پانی ڈالتے ہیں۔ جس نام کا تالاب پہلے ٹوٹے گا، اس مہینے میں بارش برسنے کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی بھی تالاب نہیں ٹوٹتا۔ اس کو قحط کا شگن (بد شگن) تصور کیا جاتا ہے۔رہان میں چائے، ساکر وغیرہ کی منوار ہوتی ہے۔ داستان گو سگھڑ، منگہار اور چارن کوی لوک شاعری اور داستانیں سناتے ہیں۔ تہوار کے موقعے پر چاول کی طرح باجرے کا خصوصی طعام تیار کیا جاتا ہے، جس کو ‘باجرا کا بھت’ کہتے ہیں۔ باجرا کا بھت سچے گھی اور گڑ سے کھایا جاتا ہے۔ باجرے کا خاص طعام ایک دوسرے کے گھروں میں بانٹتے ہیں۔ بیٹھک کی رہان میں شریک ہونے والوں کو بھی کھلایا جاتا ہے۔ تہوار کے آخری دن (آکھا ٹیج) پر گڑ کی ربڑی خصوصی طور پر تیار کی جاتی ہے۔ روٹی کے ساتھ کنڈی کے درخت کی پھلی ‘سنگری’ سبزی طور پکائی جاتی ہے۔ اب صحرائے تھر میں نٹور قبیلے کے لوگ کچھ تعداد میں عمرکوٹ میں بستے ہیں، لیکن ناچ گانے کی منڈلیاں نہیں لگاتے، تاریخ کے ماہریں کہتے ہیں جب یہاں ہاکڑو بہتا تھا، تب کسانوں کے تہوار کے دن رات کو نٹوروں کی منڈلی اپنے فن کا مظاہرہ پیش کرتی تھی۔ نٹور اور نٹنی کی کہانی رہان رس کی محفل میں بیان کرتے ہوئے گائک اور سگھڑ کہتے ہیں کہ :
رات گھڑی بھر رہ گئی تھاکے پنجر آئے،
کہے نٹنی سن پیا مدھرا تال بجائے،
( اب بھی رات گھڑی بھر رہ گئی ہے، میرا انگ انگ ٹوٹ رہا ہے، نٹنی کہتی ہے اے میرا محبوب اس لیئے اب تال آہستہ آہستہ بجاؤ۔)
گھنی گئی تھوڑی رہی، تھوڑی بی اب جائے،
بھاگٹ نٹ سن نائکہ تال بھنگ نی لائے،
( رات بہت گزر گئی تھوڑی رہی ہے، تہوڑی بھی اب بیت جائے گی، تن ٹوٹتی نائکہ سن اب تال آہستہ نہ ہوگی)
رہان میں جب چائے، ساکر اور آفیم کی منوار ہوتی ہے۔ داستان گو سگھڑ، منگہار اور چارن کوی لوک شاعری اور داستانیں سنتاتے ہوئے ایسے دوہے سناتے ہیں۔
بیجا سہے برچنا توں مت برچے میھ،
توں برچیا بھوپت ڈگے سجن جاوے تھے چھیھ۔
( تمام لوگ ناراض ہو جائیں مگر اے برسات تو ناراض مت ہونا، اگر تو نے ایسا کیا تو راجا ڈگمگا جائے گا، اور پریتم بھی بچھڑ کر چلا جائے گا)
گر موران بن کنجراں، آنبا رس سوئان،
سین کوچن جنم بھوم ایسا ویسرسی موئان،
( موروں کو پہاڑ، ہاتھیوں کو جنگل، طوطوں کو آم کا رس، دوست کی بری بات، پیدائشی جگہ یہ تمام مرنے سے پہلے نہیں بھولتیں)
موراں میھ نہ ویسرے منگت نا ڈاتار،
مہلی پیہر نا ویسرے، جیوں ہاڑی نا بھتوار۔
(مور برسات کو نہیں بھولتے، مانگنے والا سخی کو اور شادی شدہ عورت میکے کو اس طرح نہیں بھولتی، جس طرح کسان کھیت میں دوپہر کا کھانا لانے والی اپنے گھر کی عورت نہیں بھولتا، انتظار کرتا ہے۔ )
رانی ساکھی ان تامنی، کا اج کرنی پنکھی،
اوے سرے، ہوں گھر اپنے، دونوں نا میلی انکھی
( اے سکھی، رات تالاب کے اوپر کسی پنچھی نے شور کیا، نہ اس کی تالاب میں آنکھ لگی، نہ میری اپنے گھر میں)
کونجاں رات کریڑیو، ٹولی ٹولی تیس،
میں ستی ساجن ساریو، ارلی بھاگی ایس،
( اے سکھی، رات کو کونجیں کرلا رہی تھیں، ٹولی ٹولی میں تیس تھیں، میں نے اپنے ساجن کو یاد کیا، چھاتی سے چارپائی کی پائنتی کو توڑ دیا۔ )
اکتھ کہانی پریم کی مکھ سے کہی نا جا،
گونگے کا سپنا بھیا، سمر سمر پچھتا،
( اے سکھی، پیار کی کہانی بڑی مشکل ہوتی ہے، زبان سے کہی جا نہیں سکتی، گونگے کے خواب کی طرح ہے، جو کسی کو بتا نہیں سکتا، یاد کر کے پچھتاتا ہے۔ )
وین الاپے ویکھ سس رینی ناد سلین،
سسھر مرگھ رتھ موہیا، تن ہس میلہے وین،
( سندری نے وینا بجا کر چاند کی طرف دیکھا، چاند تو حسینا کی بجائی ہوئی وینا کا مدہر آواز سن کر اپنا ہوش گنوا بیٹھا، یہ منظر دیکھ کر حسینا مسکرا کر وینا ایک طرف رکھ دیا۔ )
موریہ رے موریہ لوک گیت کا یہ نمونہ بھی بڑے شوق سے گایا جاتا ہے۔ خاص طور نٹور قبیلے کے لوگ دل و جان سے گاتے ہیں۔
ارے موریہ رے موریہ تھانے پرناواں پیڑے پومچے پومچے پومچے
مانرا پانچم واڑا پھیرا کھائیجے آج موریہ
مانرا پانچم واڑا پھیرا کھائیجے آج موریہ
میٹھو تون بولیو گڑتی رات رو رات رو
ارے موریہ رے موریہ آیوڑی سرامنئے پہلی ٹیج رے ٹیج رے ٹیج رے
مانرے بڑلے بدھاڑاں ہینڈ رے موریہ مانرے بڑلے بدھاڑاں ہینڈ رے موریہ
مانرو بالم وسے پردیس موریہ
مانروبلالو وسے پردیس موریہ
میٹھو تون بولیو گڑتی رات رو رات رو
ارے موریہ رے موریہ تھانرے باگان میں کانہیں کانہیں نپجے نپجے نپجے
مانرے امرانے میں پلجے ڈاڑم ڈاک موریہ
مانرے امرانے میں پلجے ڈاڑم ڈاک موریہ
میٹھو تون بولیو گڑتی رات رو رات رو
ارے موریہ رے موریہ تون کی بولیو ڑے آدھی رات رو رات رو
مانری اڈ گئی انکھیاں واڑی اونگ موریہ
آچھو تون بولیو گڑیی رات رو رات رو
مانرو بالم وسے پردیس موریہ
مانروبلالو وسے پردیس موریہ
میٹھو تون بولیو گڑتی رات رو رات رو
موریہ رے موریہ تھانرے رے باگاں ری کھڑکی کھولی رے کھولی رے کھولی رے
مانری اڈ گئی انکھڑیاں ری نیند رے موریہ
آچھو تون بولیو گڑتی رات رو رات رو
میٹھو تون بولیو گڑتی رات رو رات رو
ارے موریہ رے موریہ تھانرے پگاں ری پایل باجنی رے باجنی باجنی
تھانرا رم جھم واجیں گھنگھریاں رے موریہ
آچھو تون بولیو گڑیی رات رو رات رو
مانرو بالم وسے پردیس موریہ
مانروبلالو وسے پردیس موریہ
میٹھو تون بولیو گڑتی رات رو رات رو
ترجمہ :
ارے موریہ رے موریہ تیری شادی کراؤں پہنا کر پیلا پومچا رے پومچا مومچا
تیری شادی کراؤں پہنا کر پیلا پومچا رے پومچا مومچا
میرے پانچم والے پھیرے کھائیو آج موریہ
میرے پانچم والے پھیرے کھائیو آج موریہ
میٹھا تو بولا ہے گزرتی ہوئی رات میں
ارے موریہ رے موریہ آئی ہے ساون کی پہلی تیج رے تیج رے تیج رے
میرے برگد کے درخت پہ رسی ڈال کر جھولا جھولوں رے موریہ موریہ
میرا بالم بسے پردیس موریہ
میرا بلالہ بسے پردیس موریہ
میٹھا تو بولا ہے گزرتی ہوئی رات میں رات میں
میٹھا تو بولا ہے گذرتی ہوئی رات کو رات کو
ارے موریہ رے موریہ تیرے باغوں میں کہیں کہیں ہوتی ہے ہوتی ہے
میرے امرانے میں ہوتے ہیں انار انگور موریہ
میرے امرانے میں ہوتے ہیں انار انگور موریہ
میٹھا تو بولا ہے گزرتی ہوئی رات میں رات میں
میٹھا تو بولا ہے گذرتی ہوئی رات کو رات کو
ارے موریہ رے موریہ تو کیوں بولا ہے آدھی رات کو رات کو
میری اڑگئی آنکھوں والی نیند رے موریہ
میٹھا تو بولا ہے گزرتی ہوئی رات کو رات کو
میرا بالم بسے پردیس رے موریہ
میرا بلالہ بسے پردیس رے موریہ
میٹھا تو بولا ہے گزرتی ہوئی رات کو رات کو
موریہ رے موریہ تیرےباغوں کی کھڑکی کھلی رے کھلی رے کھلی رے
میری اڑ گئی آنکھوں کی نیند رے موریہ
اچھا تو بولا ہے گزرتی ہوئی رات میں رات میں
میٹھا تو بولا ہے گذرتی ہوئی رات کو رات کو
ارے موریہ رے موریہ تیرے پائوں کی پایل باجے رے باجے باجے
تیرے رم جھم باجے گھنگھرو رے موریہ
آچھا تو بولا ہے گزرتی ہوئی رات کو رات کو
میٹھا تو بولا ہے گذرتی ہوئی رات کو رات کو
مائرا بالم بسے پردیس موریہ
مانرا بلالہ بسے پردیس موریہ
میٹھا تو بولا ہے گزرتی ہوئی رات کو رات کو
بھارومل امرانی شاعر لیکھک اور ماحولیاتی کارکن ہیں، ان کا ای میل ایڈریس ہے۔
bharumal.amrani5@gmail.com