شورش کاشمیری – شمشیرِ برہنہ
آغا عبدالکریم شورش ایک غریب گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔وہ کسی سرمایہ دار ، جاگیر دار یا عیدیدار کے بیٹے یا عزیز نہ تھے۔
کسی سیاسی قیادت یا مذہبی سیاست کے حامل خانوادے میں بھی انہوں نے آنکھ نہیں کھولی تھی ۔ کسی جدید کالج یا یونیورسٹی کی سند فراغ بھی ان کے ہاتھ میں نہ تھی ۔ نہ کسی قدیم درسگاہ کی دستارِ فضیلت ہی ان کے زیب سر تھی ۔ وہ کسی سیاسی پارٹی کے بڑ ے رہنما یا کسی اسمبلی کے ممبر بھی نہ تھے۔ اس کے باوجود مبداء فیاض نے ان کے قلم اور ان کی زبان اور شخصیت میں ایسی کشش و تاثیر اور ایسا رعب اور بدبہ پیدا کر دیا تھا جس سے دوست شادا ں و فرحاں اور دشمن ترساں و لرزاں رہتے تھے۔ میرے نزدیک ان کی اس مقبولیت اور غیر معمولی اثر و رسوخ کی وجہ یہ ہے کہ وہ جس صداقت پر ایمان رکھتے تھے اور جس اصول کو صحیح سمجھتے تھے اس کے لیے اپنی جان لڑا دیتے تھے۔ وہ اگرچہ عابد و زاہد اور متشرع انسان نہ تھے مگر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے گہری اور قلبی وابستگی رکھتے تھے اور ناموسِ رسالتؐ کے تحفظ کی خاطر تیغ بدست اور کفن بردوش رہتے تھے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی
ْٰٓقیامِ پاکستان سے قبل جب وہ عملی سیاست میں حصہ لیتے تھے اس وقت انہوں نے قید و بند میں جو جانکاہ اور روح فرسا مصائب و شدائد برداشت کیے ان کی روداد وہ اپنے قلم سے بیان کر چکے ہیں۔ پاکستان قائم ہوجانے کے بعد وہ عملی سیاست سے کنارہ کش ہوجانے کا اعلان کر چکے تھے لیکن آمر اور سلطان جابر کے سامنے کلمۂ حق کہنے اور اس کے نتیجے میں ہر خطرے کو انگیز کرنے کے لیے وہ ہر وقت اور ہمہ تن آمادہ رہتے تھے۔ اس سلسلے میں ان کی بے خوفی اور جان نثاری کی مثالیں پیش کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے تاہم میں اس کی ایک مثال بیان کیے دیتا ہوں جس کا تعلق پاکستان کے ابتدائی ایام اور میری ذات سے بھی ہے۔
۱۹۴۸ء میں جب مجھے میرے دورفقائے کار کے ساتھ نظر بند کر دیا گیا تو اس وقت کے وزیرِ داخلہ نے پریس کے نمائندوں کو ایک کانفرنس میں مدعو کیا اور ان کے اشارے پر ایک صحافی (امین الدین صحرائی) نے میرے خلاف الزام تراشی شروع کی کہ یہ شخص قائدِ اعظم کو بُرا بھلا کہتا ہے اور جہادِ کشمیر کا مخالف ہے… وغیرہ ذالک ۔ شورش مرحوم جو وہاں موجود تھے فوراً اُٹھ کھڑ ے ہوئے اور سختی سے مقرر کو ڈانٹ کر کہنے لگے کہ ایاز قدر خود بشناس۔ تُو کون ہوتا ہے جو مودودی کے منہ آتا اور اس کے متعلق ہرزہ سرائی کرتا ہے ۔ یہ سب باتیں جھوٹ اورخلافِ واقعہ ہیں۔ پھر وزیر موصوف کو مخاطب کرکے کہنے لگے کہ پہلے اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں اور اپنی صفوں پر نظر ڈالیں۔ آپ کا وزیرِ خارجہ وہ شخص ہے جس نے قائدِ اعظم کا جنازہ تک نہیں پڑھا جو آپ سب کو کافر سمجھتا ہے اور جو یو ۔ این ۔او میں تقریریں کرتا ہے کہ ہمار ا جنگِ کشمیر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نہ ہمارا کوئی آدمی وہاں لڑ رہا ہے ۔ اس پر جو سناٹا چھاگیا اور کسی کو مزید کچھ کہنے کی جرأت نہ ہوسکی۔
اس کے بعد ہر دَور کے اربابِ اقتدار کو جس طرح ان کی غلطیوں پر برملا انہوں نے ٹوکا ہے اور ان کے جبر و تشدد کا جس طرح ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے، پریس اور پرچہ ضبط کر دیا ہے اور جیل خانوں میں جس طرح جان گھلائی ہے وہ ایک طویل اور صبر آزما داستان ہے جس کے بیان کے لیے بڑی مہلت درکار ہے۔ قادیاں کے متنبی کاذب اور اس کی امت کے خلات شورش مرحوم ایک شمشیر برہنہ تھے اور اپنی عمر کے آخری لمحات تک وہ اس گروہ کے خلاف برسرِ پیکار اور مصروفِ جہاد رہے ۔ اس سازشی ٹولے کی ریشہ دوانیوں اور اس کے سیاسی عزائم پر وہ کڑی نظر رکھتے تھے اور انہیں ہمیشہ آشکارا کرتے رہتے تھے۔ علامہ اقبال مرحوم کی قادیایوں سے متعلق تحریرات کو انہوں نے جمع کر کے شائع کیا جن میںسے بعض ایسی نادرو نایاب تھیں جو غالباً پہلی بار ہی اشاعت پذیر ہوئیں۔ اس جھوٹی نبوت کے خلاف ان کا یہ مسلسل اور پیہم مجاہدہ انشاء اللہ ان کے حق میں بہترین توشۂ آخرت ہے۔
جماعت اسلامی اور میرے متعلق ان کا رویہ ہمیشہ خیر خوانہ اور موافقانہ رہا۔ کبھی کبھار مخلصانہ اختلاف بھی کرتے تھے مگر بحیثیت عمومی ہمارے حق میں کلمۂ خیر ہی کہتے تھے۔میرے خیالات و نظریات سے وہ سب پہلے جیل ہی میں روشناس ہوئے۔ پہلے میری کتاب الجہاد فی الاسلام پڑھی ۔ پھر دوسری کتابوں کا مطالعہ کیا۔ پھر مجھ سے شخصی تعارف پیدا کیا جس نے ایک گہری قلبی وابستگی کی صورت اختیار کر لی۔ بارہا ایسا ہوتا تھا کہ کبھی ان کے جی میںآتا تھا یا کوئی خاص بات انہیں قابلِ اطلاع و مشورہ محسوس ہوتی تھی ، اچانک میرے ہاں آجاتے تھے اور دیر تک بیٹھے گفتگو میں مصروف بلکہ محورہتے تھے۔ ہم دونوں نے عمر عزیز کا ایک بڑا حصہ قید و بند میں گزارا ہے۔ ایک مرتبہ میری جیل سے رہائی ہوئی تشریف لائے بڑے تپاک سے ملے اور نشاط و انبساط کے ساتھ باتیں کرتے رہے۔وہیں مجلس میں کسی ذریعے سے معلوم ہوا کہ اسی دن ان کے کسی قریبی عزیز(غالباً بھانجے) کا انتقال ہوا ہے جس سے میں بالکل بے خبر تھا۔ میں نے تعزیت اوربہت اظہارِ افسوس کیا اور تعجب سے پوچھا کہ آپ نے بتایا نہیں۔
کہنے لگے بلا شبہ یہ سانحہ رو نما ہوا ہے لیکن اس خوشی کی محفل میں اس غم کی خبر سنانے کا کیا موقع تھا؟ میں اپنے غم میں آپ کو شریک کرنے کی بجائے آپ کی خوشی میں شریک ہونے اور خوش آمدید کہنے کے لیے آیا تھا۔ اس سے ان کے ضبطِ نفس اور مجھ سے تعلقِ خاطر کا اندازہ ہوسکتا ہے۔
بہر حال اب جب کہ وہ اس دارِ فانی کو چھوڑ کر عالمِ جاودانی کو روانہ ہوچکے ہیں اور اپنے رب کے حضور حاضری دے چکے ہیں، میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی کوتاہیوں سے درگزر فرما کر ان کے اعمالِ حسنہ کا انہیں بہترین اجر دے ، انہیں جنت میں اپنے سچے اور آخری نبی علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے قدموں میں جگہ دی۔