شفیع عقیل ..جیک آف آل ٹریڈز
گیارہ سال پہلے ، آج ہی کے روز ہم نے شفیع عقیل صاحب کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہا تھا ۔
صحافی، ادیب، مترجم، آرٹ کریٹک، جیک آف آل ٹریڈز۔ باہر سے ایسے سخت گیر دکھائی دیتے تھے کہ نئے صحافیوں کی روح فنا ہو جاتی تھی ۔ اندر کا کھیل بعد میں کھلتا تھا۔ وہ برسوں جنگ کراچی کے میگزین ایڈیٹر رہے۔ میری ان سے بس رسمی سلام دعا تھی کیونکہ میں اخبار جہاں میں تھا۔ تین چار سال کی ملازمت کے بعد ہی میں اخبار جہاں چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا۔ سال بھر بعد واپس آیا تو شفیع عقیل صاحب اخبار جہاں کے ایڈیٹر ہو چکے تھے۔
ان سے پہلا آفیشل ٹاکرا نہایت مزے دار تھا ۔
انہوں نے آزمائشی طور پر مجھے کوئی چھوٹا سا کام دیا۔ کسی سیاسی ڈائری کی ایڈیٹنگ کرنی تھی اور سرخی نکالنی تھی۔ یہ ایسا کام تھا جو میں مدت سے کرتا آیا تھا۔ میں کام مکمل کر کے ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے کاغذات پر نظر ڈالی، عینک اتاری، مجھے غور سے دیکھا، اور ذرا سخت اور اجنبی انداز میں بولے "یار اخلاق صاحب، آپ کو تو سرخی نکالنی بھی نہیں آتی۔”
میں لمحہ بھر تو سکتے میں کھڑا رہ گیا۔ آپ کو اچانک بے صلاحیت کہہ دیا جائے تو اپنی بے وقعتی کا احساس سینے پر کسی گھونسے کی طرح لگتا ھے اور غصے کی ایک لہر پورے بدن میں دوڑ جاتی ہے۔ لیکن میں اپنے سینئر کے سامنے کھڑا تھا۔ نہ جانے کیسے میں نے جواب میں وہ کہا جس کی توقع خود شفیع عقیل صاحب کو بھی نہیں تھی۔ میں نے کہا ” سر، رفتہ رفتہ سرخی نکالنا آپ سے سیکھ لوں گا۔”
اب وہ ساکت بیٹھے رہ گئے ۔
انہوں نے اپنی میز کو دیکھا، اوپر رکھے کچھ کاغذات ادھر ادھر کھسکائے، ٹیبل کیلنڈر کا رخ موڑا، اور نسبتا” نرم لہجے میں آہستہ سے بولے "چلو ، میں دیکھ لوں گا ، کوئی تبدیلی کرنی ہوئی تو کر دوں گا۔”
ایک ہفتے بعد انہوں نے مجھے سیاسی ڈائریوں کا انچارج بنا دیا۔ تین ہفتے بعد ٹائٹل کی سرخیوں سے لے کر اندر کی سرخیوں تک ہر چیز فائنل کرنے کا کام سونپ دیاگیا۔ میں بعد کے دنوں میں انہیں اکثر چھیڑا کرتا تھا کہ آپ نے تو مجھے پہلی سرخی پر ہی مسترد کر دیا تھا۔ وہ دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ کہتے تھے "اوئے بکواس نہ کر، تو نے سرخی ھی خراب نکالی ھو گی۔”
شفیع عقیل صاحب اپنی وضع کے منفرد آدمی تھے۔ سو فیصد دیسی۔ انہیں اس بات پر ہمیشہ فخر رھا کہ وہ ایک بہت ہی غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اور اس پر بھی کہ وہ تعلیم یافتہ نہیں تھے، شاید اسکول کی ابتدائی جماعتیں پڑھی تھیں اور پھر مزدوری کرنے لگے تھے۔ ایسی کوالی فیکیشن کے ساتھ صحافت اور ادب اور آرٹ کی تنقید میں اتنی بلندی تک پہنچنا بلا شبہ حیرت انگیز ھے۔
ایک ان لکھا معاہدہ میرے اور ان کے درمیان ہمیشہ رہا۔ وہ ٹھیک دس بجے دفتر آ جاتے تھے۔ میں ھمیشہ تاخیر سے بارہ ایک بجے پہنچتا تھا۔ معاہدہ یہ تھا کہ وہ آتے ھی کام شروع کرا دیں گے، اور میں کاپیاں فائنل کر کے پریس بھجواوں گا خواہ کتنی ھی رات ھو جائے۔ وہ شام کو ٹھیک چھ بجے اسٹوڈیو روم میں جھانک کر مجھ سے کہتے تھے۔ ” لے بھئی سید ، میں چلا۔” میں کہتا تھا۔ "ٹھیک ہے سر۔” برسوں روز دہرایا جانے والا یہ منظر اب تک میری نظروں میں گھومتا ہے ۔
ایک زمانے میں وہ روز ہمارے ، یعنی میرے اور انور سن رائے کے کمرے میں آ کر بیٹھ جاتے تھے۔ ہم دونوں ان کے قصے سنتے رھتے تھے۔ وہ ادب وغیرہ میں ھم لوگوں کی دلچسپی کے سبب ہمیں بہت پسند کرتے تھے۔ اس زمانے میں ماہنامہ سرگزشت شائع ھونے لگا تھا۔ اس پرچے کے ایڈیٹر ہمارے دوست انور فراز تھے۔ شاید انور فراز کی تحریک پر بھائی انور سن رائے نے ایک صفحے کا خاکہ لکھ دیا جس میں شفیع عقیل صاحب کی پوری زندگی کا احاطہ کیا گیا تھا۔ شفیع صاحب کو جب کسی نے اس کے بارے میں بتایا تو وہ ناراض ہوئے، روز کی طرح ہمارے کمرے میں آ کر بیٹھے اور جمال احسانی کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ انہیں شبہ کیا، یقین تھا کہ یہ کام جمال احسانی کا ھے جو ان دنوں ڈائجسٹوں کے اس گروپ سے وابستہ تھے۔ انور سن رائے کی اور میری حالت دیکھنے والی تھی۔ پھر چند روز بعد اس وقت غضب ھو گیا جب کسی نے انہیں وہ شمارہ پہنچا دیا جس میں وہ خاکہ چھپا تھا۔ وہ تیر کی طرح ہمارے کمرے میں آئے اور ہمیں ایسی بے نقط سنائیں کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ وجہ یہ تھی کہ اس خاکے میں ان کی زندگی کے بارے میں کچھ ایسی باتیں شامل تھیں جو انہوں نے صرف ہم دونوں کو باتوں باتوں میں بتائی تھیں۔ کتنے ہی دن وہ ہم سے ناراض رہے اور پھر مسلسل معافیاں مانگنے کے بعد نارمل ہوئے۔
جب میں نے ان کے ساتھ کام شروع کیا تھا تو یاروں کا خیال تھا کہ میں ان کے ساتھ نہیں چل پاؤں گا۔ لیکن میں ان کے ساتھ خوب چلا۔ شاید بہت کچھ سیکھا بھی۔ یہ سیکھا کہ کامیابی کی اول شرط محنت ھے ۔ اور یہ بھی کہ صحافت اور ادب سے بیک وقت تعلق نبھایا جا سکتا ھے ۔
ان کے ساتھ بہت وقت گزرا ، کچھ سفر بھی ساتھ کئے ۔ یہ جو تصویریں ہیں ، یہ 28 سال پرانی ہیں جب میں اور وہ اور ھماری ٹیم اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے انٹرویو کرنے اسلام آباد گئی تھی۔
آج پلٹ کر دیکھتا ھوں تو حیرت ہوتی ہے، شفیع عقیل صاحب عجیب ایڈیٹر تھے۔ سادہ، بے فکر، اپنے جونئیرز کو اختیارات بخش دینے والے، اپنی ٹیم پر اعتماد کرنے والے۔ وہ ایڈیٹر تھے تو میں ان کا نائب تھا ۔ پھر میں ایڈیٹر بن گیا تو وہ ایڈیٹوریل ڈائریکٹر بن گئے ۔ ریٹائر ہونے کے بعد بھی وہ لکھنے پڑھنے میں مصروف رہے ۔ اور گیارہ برس قبل، ایسی ہی ایک شام کو ہمیں اداس چھوڑ کر رخصت ہو گئے۔