شاہد ذکی ۔۔۔۔ ایک تازہ کار شاعر
تحریر ۔۔۔ راشد عباسی
شاہد ذکی ۔۔۔ ایک تازہ کار شاعر
شاہد ذکی تازہ کار اور انفرادیت کا حامل شاعر ہے۔ یقینا کچھ نعمتیں خالق و مالک کی عطا ہوتی ہیں لیکن ایک تخلیق کار کا انداز فکر اور شعوری کوششیں بھی بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ شاہد ذکی نے شہرت و مقام کے پیچھے بھاگنے کے بجائے تخلیق سخن کو اپنا مسئلہ بنا کر اپنی ساری توانائیاں اس کے لیے مختص کر دیں۔ وہ اپنے گرد و پیش، حالات و احوال اور تیزی سے زوال کی منازل طے کرتے اپنے معاشرے کی ہر روش کا گہری نظر سے مشاہدہ کرتے ہیں اور اپنے رنگ اور آہنگ میں اپنے تجربات اور مشاہدات کو شعر میں ڈھال کر اپنے معاصرین کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ میاں ! اس کو کہتے ہیں شعر !۔
شاہد ذکی کی غزل جمال احسانی کی غزل کی طرح مختلف اور منفرد ہے۔ وہ متاثر ہونے کے بجائے موثر بن کر اپنے معاصرین سے بہت آگے نکل گئے ہیں۔
شاہد ذکی کی غزلوں میں فقط تازی کاری نہیں ملتی بلکہ گہرا تفکر و تدبر، شعری روایت سے بھرپور جڑت، زبان و بیان پر عبور اور اپنے انداز میں بات کرنے کا سلیقہ جیسے عناصر انھیں ایک اہم شاعر کے طور پر نمایاں مقام عطا کرتے ہیں۔
شاہد ذکی کے اب تک چار شعری مجموعے زیور طبع سے آراستہ ہو کر داد و تحسین کے حصول میں کامیاب رہے۔۔۔
- خوابوں سے خوشبو آتی ہے
- خوابوں سے خالی آنکھیں
- سفال میں آگ
- دھنک دھوئیں سے اٹھی
ان کی درج ذیل غزل آپ سب کی بصارتوں اور بصیرتوں کی نذر ۔۔۔۔
یار بھی راہ کی دیوار سمجھتے ہیں مُجھے
میں سمجھتا تھا مِرے یار سمجھتے ہیں مُجھے
جڑ اکھڑنے سے جُھکی رہتی ہیں شاخیں میری
دُور سے لوگ ثمر بار سمجھتے ہیں مُجھے
نیک لوگوں میں مجھے نیک گِنا جاتا ہے
اور گنہ گار، گنہ گار سمجھتے ہیں مُجھے
میں تو خود بِکنے کو بازار میں آیا ہُوا ہوں
اور دُکاں دار خریدار سمجھتے ہیں مُجھے
میں بدلتے ہوئے حالات میں ڈَھل جاتا ہوں
دیکھنے والے اداکار سمجھتے ہیں مُجھے
وہ جو اُس پار ہیں اِس پار مُجھے جانتے ہیں
یہ جو اِس پار ہیں اُس پار سمجھتے ہیں مُجھے
میں تو یوں چُپ ہوں کہ اندر سے بہت خالی ہوں
اور یہ لوگ پُر اَسرار سمجھتے ہیں مُجھے
روشنی بانٹتا ہوں سرحدوں کے پار بھی میں
ہم وطن اِس لیے غَدّار سمجھتے ہیں مُجھے
لاش کی طرح سرِ آبِ رواں ہوں شاہدؔ
ڈوبنے والے مددگار سمجھتے ہیں مُجھے
آخر میں شاہد ذکی کے چند اشعار۔۔۔۔۔۔
ہم کہ مامور ہیں دنیاؤں کی دلجُوئی پر
ہم کسے جا کے سنائیں جو ہمارا دُکھ ہے
اس نے اک بار کہا، کوزہ گری سیکھنی ہے
ہم گہے خاک، گہے چاک میں تبدیل ہوئے
تو مری پیاس خریدے گا، ہنسی آتی ہے
میں تو لعنت بھی نہ بھیجوں گا ترے پانی پر
یہ کس بلندی پہ لا کر کھڑا کیا ہے مجھے
کہ تھک گیا ہوں توازن سنبھالتا ہوا میں
شاید کسی جگہ کوئی کردار کم پڑے
چپکا ہوا ہوں تیری کہانی کے ساتھ میں
انہیں بتاؤ کہ لہریں جدا نہیں ہوتیں
یہ کون لوگ ہیں پانی پہ وار کرتے ہوئے
میں اکیلا ہی بچا ہوں تو بتاؤں کس کو
کہ میں دنیا کی تباہی کا سبب جانتا ہوں
تیرا دکھ یہ ہے کہ کچھ بھی تجھے معلوم نہیں
میرا دکھ یہ ہے مری جان! کہ سب جانتا ہوں
جدھر بھی دیکھیے اک راستہ بنا ہوا ہے
سفر ہمارے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے
شعوری کوششیں منظر بگاڑ دیتی ہیں
وہی بھلا ہے جو بے ساختہ بنا ہوا ہے
اب کوئی آئے چلا جائے میں خوش رہتا ہوں
اب کسی شخص کی عادت نہیں ہوتی مجھ کو
ایسا بدلا ہوں ترے شہر کا پانی پی کر
جھوٹ بولوں تو ندامت نہیں ہوتی مجھ کو
انہیں جگہ نہیں دیتے یہ سامنے والے
کئی ستارے پسِ آسماں پڑے ہوئے ہیں
میں دشمنوں کو بتاوں تو شرم آتی ہے
کہ میں نے کس لیے احباب سے کنارہ کیا
گھر سے چلا تو گھر کی اداسی سسک اٹھی
میں نے اسے بھی رکھ لیا رختِ سفر کے بیچ
کوزے بنانے والے کو عجلت عجیب تھی
پورے نہیں بنائے تھے سارے بنائے تھے
راشد عباسی