سندھی ناول "سیتا زینب” کا پہاڑی ترجمہ
تحریر : سجاد عباسی

سندھی ناول "سیتا زینب” کا پہاڑی ترجمہ
برادرم راشد عباسی کی ادبی صلاحیتیں حیران کن اور قابل رشک ہیں۔ توانائی سے بھرپور ایک عمدہ ادیب، جس نے اپنا وقت، صلاحیت اور وسائل پہاڑی ادب کی ترویج کے لیے وقف کر رکھے ہیں۔ یہ بات کہنا آسان مگر عمل کے میدان میں ثابت قدمی دکھانا خاصا مشکل ہے۔
ہم اکثر انہیں ون مین آرمی قرار دیتے ہیں، مگر ایسا لگتا ہے کہ ہم یہ اصطلاح اپنی ذمہ داریوں سے فرار کی خاطر استعمال کرتے اور اپنی کوتاہی کو ان کی تعریف کے دبیز پردے تلے ڈھکنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں اور ساتھ یہ بھی پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ "لگے رہنا.. ساڈے آسرے تے نہ رہنا” ۔۔
مگر یہ "جوان” بھی اپنی دھن کا پکا ہے ۔صلے کی تمنا، نہ ستائش کی آرزو۔۔ کوئی قافلے میں شامل ہو گیا تو ٹھیک۔۔ نہ ہوا تو فبہا۔۔۔۔
آپ اندازہ کریں کہ ڈیڑھ دو برس کے دوران پہاڑی زبان کی اتنی کتابیں۔۔۔ دو شعری مجموعے "سولی ٹنگی لو اور "عشق اڈاری” ( غزلوں اور نظموں کے مجموعے)، بچوں کے لیے فکر اقبال پر مبنی کتاب "اقبال نیں شاہین” اور پھر ممتاز سندھی ادیب ،زیب سندھی کے ناول "سیتا زینب” کا پہاڑی ترجمہ.. یہ نہ صرف حیران کن بلکہ ناقابل یقین کارنامہ ہے۔۔ اور پھر اس کے ساتھ معمول کی علمی ادبی سرگرمیوں کے علاوہ پہاڑی جریدے "رنتن” کی اشاعت جاری رکھنا، جس کا ابھی پانچواں نمبر جو پہاڑی افسانوں پر مشتمل ہے، حال ہی میں زیور طبع سے آراستہ ہوا ہے ۔۔
آپ کسی شخص کے کسی خاص شعبے میں غیر معمولی انفرادی کام کو سراہنے کی خاطر اسے "ادارے” سے تشبیہ دیتے ہیں، مگر سچی بات یہ ہے کہ اس تعریف کے اصل حقدار راشد عباسی جیسے لوگ ہیں، جو تن تنہا ایک ٹیم سے زیادہ کام کر دکھاتے ہیں۔۔
آج ہمارا موضوع ناول "سیتا زینب” کا پہاڑی ترجمہ ہے. سیتا زینب مختصر عرصے میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے والا ناول ہے، جس کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اردو ترجمہ معروف مترجم شاہد حنائی نے کیا ہے۔ یہ زبان و بیان کے اعتبار سے ایک دلکش ناول ہے، جس میں تجسس کا عنصر غالب ہے اور قاری کی دلچسپی آخر وقت تک برقرار رہتی ہے۔۔ کہانی بہت دلچسپ ہے، جس کا مرکزی کردار سیتا نامی لڑکی ہے جو بعد میں اسلام قبول کر لیتی ہے۔ ناول میں کردار نگاری اور منظر نگاری بہت جاندار ہے۔
ادب سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ ایک سے دوسری زبان میں ترجمہ کرنا محض ترجمہ نہیں ہوتا بلکہ اس تحریر کی روح کو دوسری زبان میں ڈھال کر پیش کرنا ہوتا ہے تاکہ تخلیق کار کو نئی تحریر کے اندر بھی اپنی تخلیق سانس لیتی محسوس ہو۔۔ یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات ترجمہ نگاری نئی تخلیق سے زیادہ مشکل ثابت ہوتی ہے، مگر ہمارے ممدوح راشد عباسی چونکہ ویسے ہی مشکل پسند انسان ہیں جنہوں نے پہاڑی زبان کی بنجر زمین پر ہل چلا کر اس کو گل و گلزار میں تبدیل کر دیا ۔ ظاہر ہے اگر کسی زبان میں پہلے سے ادب موجود ہو تو اپ کو ہموار زمین ملتی ہے، مگر یہاں انہیں اپنی دنیا آپ پیدا کرنا تھی، جس میں وہ سرخرو رہے۔۔ مجھے یقین ہے کہ اسی مشکل نے ان کے لیے سیتا زینب کے ترجمے میں آسانی پیدا کی ہوگی۔
ناول کے ترجمے کے لیے انہوں نے اگرچہ شاید حنائی کے اردو ترجمے سے استفادہ کیا ہے، مگر سندھی سے پہاڑی زبان میں ترجمے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ دونوں زبانوں میں بے شمار الفاظ، محاورے اور تراکیب ایک جیسی ہیں جبکہ دریاؤں سے قربت کے بہ سبب تہذیب و تمدن میں بھی بڑی حد تک اشتراک پایا جاتا ہے۔ کتاب کے اچھے ترجمے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مترجم مادری زبان کے فن تحریر میں مناسب استعداد رکھتا ہو۔ اب جس کا اوڑھنا بچھونا ہی مادری زبان اور اس کا ادب ہو اور جس کی کئی تخلیقات پہاڑی زبان میں آ چکی ہوں ، ترجمے کے لیے اس سے بہتر انتخاب کون ہو سکتا ہے؟ امید کی جانی چاہیے کہ "سیتا زینب” کا پہاڑی ترجمہ دونوں زبانوں کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کرے گا کیونکہ اب تک شاید یہ پہلی کوشش ہے جس پر راشد عباسی مبارکباد کے مستحق ہیں.
کتاب آواز پبلی کیشنز کے تحت ندیم اعجاز صدیقی نے شائع کی ہے (03005211201 )۔ دیدہ زیب سرورق کے ساتھ 160 صفحات کی کتاب کی قیمت 800 روپے رکھی گئی ہے۔ آن لائن حاصل کرنے والے ڈاک خرچ کے بغیر کتاب گھر بیٹھے حاصل کر سکتے ہیں۔
پہاڑی زبان بولنے اور سمجھنے والوں کو کوشش کرنی چاہیے کہ ادب سے تعلق برقرار رکھنے اور بچوں کو مادری زبان سے جوڑنے کی خاطر اس کتاب سے ضرور استفادہ کریں۔ یہ واحد سرمایہ کاری ہے جس میں خسارے کا کوئی خدشہ نہیں…۔ سو فیصد گارنٹی کے ساتھ !
سجاد عباسی ۔۔۔۔۔۔۔ بیروٹ، سرکل بکوٹ