سریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت،کب کیا ہوا؟
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی نے آج فیض آباد دھرنا کیس کی دھماکہ خیز سماعت کی۔سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس میں عملدرآمد سے متعلق رپورٹ طلب کرلی ہے۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف ، وزارت داخلہ اور آئی بی سمیت دیگر سرکاری اداروں نے نظر ثانی اپیل دائر کی تھی تاہم اب یہ درخواستیں واپس لے لی گئی ہیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ فیض آباد دھرنے کے معاہدے پر دستخط کرنے والوں کے خلاف کاروائی کی یقین دہانی کرائی جائے ۔انہوں نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن کا نظر ثانی کی اپیل دائر کرنے پر معافی نامہ کدھر ہے ؟صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ ہم درخواست واپس لے رہے ہیں۔ یا تو آپ یہ کہیں کہ معاہدے پر دستخط کرنے والے کے خلاف ایکشن لیا جا رہا ہےاور ہم نے عدالتی فیصلے کی فلاں فلاں نکات پر عمل درامد کر لیا ہے یایہ کہیں کہ معاملہ اگلی افرتفری تک ایسا ہی رہے گا۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل تین رکنی بینچ فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس کی سماعت کررہا ہے۔
وفاق نے بذریعہ وزارت دفاع نظرثانی درخواست دائر کی تھی تاہم اب اٹارنی جنرل عثمان منصور نے کہا ہے کہ فیض آباد دھرنا نظرثانی درخواست واپس لے رہے ہیں۔
کیا آپ کو درخواست واپس لینے کا اختیار ہے؟ چیف جسٹس کا پی ٹی آئی وکیل سے سوال
دھرنا کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہم اپنی درخواست کی پیروی نہیں کرنا چاہتے، اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ کو درخواست واپس لینے کا اختیار ہے؟ اگر آپ فریق بننا چاہتے ہیں تو عدالت آپ کو اجازت دے گی، علی ظفر نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ نہیں ہم اس کیس میں فریق نہیں بننا چاہتے۔
اب کیا فیصلے میں غلطیاں ختم ہوگئیں؟ چیف جسٹس کا سوال
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے دوران سماعت فیض آباد دھرنے کے فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق متعلقہ حکام اور اداروں کے سامنے اہم سوالات اٹھائے ہیں۔
چیف جسٹس نےاستفسار کیا کہ پہلے کہا گیا تھا فیصلہ غلطیوں سے بھرا پڑا ہے، اب کیا فیصلے میں غلطیاں ختم ہوگئیں؟ آخرنظرثانی درخواستیں واپس لینے کی وجہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ جن کے پاس اختیار تھا وہ ٹی وی اور یوٹیوب پرتقاریرکرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ہمیں سنا نہیں گیا، اب ہم سننے کیلئے بیٹھے ہیں، یہ درخواستیں التوا میں رکھ لیتے ہیں، آ کر اپنا موقف واضح کریں۔
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ اگرکسی کو کچھ کہنا ہے تو تحریری طورپرکہے، آپ طویل پروگرام کرلیں مگر ہر ادارے کو تباہ نہ کریں، یہاں آپ خاموش ہیں اور ٹی وی پر کہیں گے کہ ہمیں سنا نہیں گیا،انہوں نے مزید کہا کہ ہم پیمرا کی درخواست زیرالتو رکھیں گے،کل کوئی یہ نہ کہے ہمیں سنا نہیں گیا، سوال تو اٹھتا ہے کہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پرعمل کیوں نہیں ہوا؟ آخر سب اتنے ڈرے کیوں ہوئے ہیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ بتائیں کیا معاملہ تھا آخر2017 میں؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ کا فیصلہ تمام حقائق بیان کررہا ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جب فیصلہ درست ہے تو نظرثانی میں کیوں آئے؟ کون سا نقص تھا جو تب فیصلے میں تھا اور اب نہیں ہے؟
انہوں نے مزید کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب یہ سوال کیوں نہیں اٹھایا کہ نظرثانی درخواستیں پہلے کیوں نہ لگیں؟ یہ کہنا ٹھیک نہیں ہوتا کہ نئی حکومت یا پرانی حکومت، حکومت، حکومت ہی رہتی ہے پارٹی جو بھی ہو، سپریم کورٹ بھی وہی رہتی ہے جج چاہے کوئی بھی ہو۔
کیا الیکشن کمیشن ہمیشہ سے کنٹرول ہوتا آیا ہے؟ چیف جسٹس کا ایک اور سوال
سپریم کورٹ میں دوران سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل قمر افضل نے کہا کہ ہم نظرثانی واپس لے رہے ہیں ہے، اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن تب ٹھیک تھا یا اب ہے؟ کیا کوئی کنڈکٹر تھا جو یہ سب کرا رہا تھا؟ سوال یہ ہے کہ تب کس کے کہنے پر نظرثانی درخواست دائرکی گئی تھی؟
انہوں نے دلچسپ مثال دیتے ہوئے کہا کہ آرکیسٹرا میں سب میوزک بجاتے ہیں اور سامنے ایک شخص ڈنڈا لیے کمانڈ دے رہا ہوتا ہے، کیا الیکشن کمیشن تب کنٹرول ہورہا تھا اب ہورہا ہے یا ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے؟چیف جسٹس نے کہا کہ مان لیں کہ الیکشن کمیشن کو اس وقت فرد واحد کے حوالے کیا گیا تھا، آج الیکشن کمیشن آزاد ہوگیا ہے، ہمت ہے تو کہیں تب کون سب کچھ کنٹرول کر رہا تھا؟
کہا جاتا ہے "حکم اوپر سے آیا ہے”جو ہوا اس کا اعتراف تو کرلیں۔چیف جسٹس
سماعت کے دوران ایک موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان میں وہ چلتا ہے جو پوری دنیا میں نہیں ہوتا، کہا جاتا ہے کہ”حکم اوپر سے آیا ہے”، نعوذ باللہ اوپرسے حکم اللہ کا نہیں یہاں کسی اورکا ہوتا ہے، نبی کریم نے بھی جھوٹ سے منع کیا ہے، جو ہوا اس کا اعتراف تو کرلیں، جزا سزاکا فیصلہ بعد میں ہو گا، اعتراف جرم تو کریں، پورے پاکستان کو منجمد کیا گیا، خادم رضوی مرحوم نے تو تسلیم کیا، آپ لوگ تو وہاں تک پہنچ بھی نہیں سکتے، کس کا ڈر ہے؟ اوپر والے کا تو نہیں ہے آخر کس سے ڈرتے ہیں؟انہوں نے کہا کہ ٹی وی پر جاکر بھی تقریریں کریں گے تو عدالت کو ہی سچ بتادیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ بتائیں کیا معاملہ تھا آخر2017 میں؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ کا فیصلہ تمام حقائق بیان کررہا ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جب فیصلہ درست ہے تو نظرثانی میں کیوں آئے؟ کون سا نقص تھا جو تب فیصلے میں تھا اور اب نہیں ہے؟
"یہاں جو بھی ہوکہتے ہیں ’مٹی پاؤ، چاہے لوگ مر جائیں،جتھہ آج بھی غالب ہے”
فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ کراچی میں 55 لوگ مارےگئے،مگر کوئی ایکشن نہیں ہوا، یہاں کچھ بھی ہو جائے کہا جاتا ہے”مٹی پاؤ”، لوگ مرجائیں مٹی پاؤ، حضرت عمر نے کہاتھا کہ دریا کے کنارے کتا بھی بھوکا مرجائے تو میں جوابدہ ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جتھے کی طاقت کی نفی نہیں کی گئی، وہ آج بھی غالب ہے،ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا ، انہوں نے ڈاکٹر طاہرقالقادری کا نام لئے بغیر کہا کہ جن صاحب کو بہت جمہوریت چاہیے تھی وہ کینیڈا سے واپس کیوں نہیں آتے؟ پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہورہی، اسلامی جمہوریہ پاکستان تو غلطیاں بھی تسلیم نہیں کرتا، مجھ سمیت احتساب سب کا ہونا چاہیے۔
Hearing of the Faizabad dharna case in the Supreme Court, chronology, سریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت،کب کیا ہوا؟