سرد راتیں ـــــــــــــــــ افسانہ ۔۔۔ہارون الرشید عباسی

روح کو جھنجھوڑتی ایک عمدہ تحریر

98dd0385 b1d4 47fb b914 8d1374c28fa0صاحب تحریر

برف باری تو شائد سہ پہر سے ہی جاری تھی لیکن آدھی رات کے بعد اسکی شدت میں اضافہ ہو گیا تھا ۔
عجیب وحشت ناک خاموشی نے سارے گاؤں کو لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ شاکا نے لکڑی کا ایک ٹکڑا جلتی انگیٹھی میں ڈالا جس نے جلد ہی آگ پکڑ لی۔ اس نے اپنے ہاتھ گرم کرنے کیلئے انگیٹھی کے اوپر پھیلا لئیے اور خالی خالی نظروں سے سامنے بیٹھی ریشماں کو دیکھنے لگا جس کا چہرہ موم بتی کی ٹمٹماتی لو میں کچھ زیادہ ہی زرد دکھائی دے رہا تھا۔ ریشماں اور شاکا کی شادی کو پانچ برس بیت چکے تھے۔
ان کا صرف 6 ماہ کا ایک بیٹا تھا جو ان کی پریشانیوں سے بے خبر بستر پر سویا پڑا تھا ۔
میں کل پھر سے کوشش کروں گا، شائد کوئی وسیلہ بن جائے، یہ کہتے ہوئے شاکانےبچے کے سر کا بوسہ لیا اور اسکے قریب ہی بستر پر نیم دراز ہوگیا ۔
"مجھے اپنی تو فکر نہیں بس اس کے لئیے ” ریشماں نے بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فقرہ نامکمل چھوڑ کر چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا۔
صبح ہوئی تو ہر طرف سفیدی چھائی ہوئی تھی ۔ چاروں طرف کے پہاڑ برف سے ڈھکے ہوئے تھے۔ سیب کے باغ کا سب سے پرانا درخت زمین بوس ہو چکا تھا ۔ دور پہاڑی ڈھلوانوں کے درمیان سے دھند کا ایک مرغولہ سا اوپر کو اٹھ رہا تھا۔
شاکا ترمچوڑ لے کر اپنے کچے کوٹھے پر سے برف ہٹانے کےلئیے نکلا۔ "3 فٹ سے زیادہ ہے شائد” اس نے اپنا پاوں برف میں مار کر اندازہ لگاتے ہوئے خود کلامی کی اور جیسے تیسے اپنا کام مکمل کر لیا۔ کمرے میں واپس آکر اس نے پاؤں گرم کئیے، جرابوں کے اوپر پرانے پلاسٹک شاپنگ بیگ باندھ کر جوتے پہنےاور بازار کی طرف چل پڑا۔ ریشماں نے اسے الوداع کرتے وقت کچھ کہنے کی کوشش کی تھی لیکن الفاظ اسکے گلے میں ہی اٹک گئے ۔
رستے میں اسے عباسی صاحب نے روک لیا، وہ اسکے قریبی ہمسائے تھے ” یہ برف صاف کر دو،سارا صحن بھر گیا ہے” اس نے بیلچے کے ساتھ 30 منٹ میں برف صاف کر دی۔ مزدوری کے طور پر اسے نیم ٹھنڈی چائے کا ایک کپ ملا ۔ چائے پیتے ہوئے اس نے عباسی صاحب سے کوئی بات کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بچوں کے ساتھ مل کر "سنو مین” بنانے میں مصروف تھے۔انہیں دوسرے شہروں میں رہنے والے دوستوں کے لیئے اپنےنئے ” 14 پرو ” کی مدد سے تصاویر بنا کر فیس بک پر اپ لوڈ کرنا تھیں، شائداسی لئے وہ شاکا کی بات پر توجہ نہ دے سکے
شاکا نے خالی کپ دھیرے سے برف کے ڈھیر پر رکھا اور بازار کے رستے پر ہو لیا۔ ہلکی برف باری اب بھی جاری تھی۔ موسم کے کھلنے کا امکان کم ہی تھا، لیکن اسےجاناتوتھاہی ۔
آج وہ بازار کی طرف جانے والا پہلا فرد تھا، کچی برف پر قدموں کے پہلے نشانات اسی کے تھے ۔ ۔ بازار میں بھی ہو کا عالم تھا ۔ ۔ ہائی وے کی بڑی مشین مین سڑک صاف کرتی اس کے سامنے سےگزری تو اس کے انجن کی آواز اور ٹائروں پر لگے چین کی چھن چھن سے ماحول کا سکوت ٹوٹا اور زندگی کا احساس پیدا ہوا۔ وہ دور جاتی اس اکیلی آواز کو غور سے سنتا رہا اور ایک بار پھر سفید کفن میں لپٹے شہر پر سکوت مرگ طاری ہو گیا۔
بازار میں ایک آدھ دوکان ہی کھلی تھی۔ شاکا دوکاندار سے مزدوری کے بارے میں پوچھا۔
"کوئی بندہ بشر آئے گا تو مزدوری ہوگی بھائی، لوگ سودا سلف برف باری سے پہلے ہی لے گئے ہیں اب کوئی آجائے یا فون کرے تو شائد تجھے پھیرا مل جائے، ادھر ہی بیٹھ جا اور یہ لے چنے کھا” دوکاندار کے ہاتھ سے چنے لے کر اس نے جیب میں ڈالےاور جلتی آگ کے سامنے انتظار میں بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد دوکاندار نے اسے مٹھی بھر چنےمزید پکڑائے جو اس نے نظربچا کردوبارہ جیب میں ڈال لئے۔
انتظار کرتے شام آ گئی مگر مزدوری نہ آئی، سردیوں کی شامیں اتنی جلدباز اور راتیں اس قدر طویل کیوں ہوتی ہیں، وہ سوچنے لگا۔
دکاندار نے اسے مغرب سے پہلےواپس گھر جانے کا مشورہ دیا اور ساتھ یہ بھی کہہ دیا کے جیسے ہی مزدوری ملے مرا ادھار چکا دو ۔ "1500 ہوگیا ہے جب تک کھاتہ کلیئر نہیں کرتے ایک دھیلے کا سودا نہیں دوں گا”
ہوا میں اب کچھ تیزی آگئی تھی
شاکا کے دماغ میں بھی برف آلود ہواؤں کے جھکڑ چلنے لگے
اندر اور باہر کے اس طوفان سے لڑتے لڑتے برف سے اٹا رستہ کب کٹ گیا ۔ ۔ رات کب چھائی اسے پتہ ہی نہ چلا اور وہ گھر کی دہلیز تک پہنچ گیا۔
اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا، عباسی صاحب کے گھر کی بجلی روشن تھی۔ "برف باری سے کوئی کھمبا نہیں گرا اس بار”
شاکا نے سوچا
اسکے گھر میں بجلی تو کیا ہونا تھی، موم بتی بھی شائدآج آخری ہی تھی۔
وہ کتنی ہی دیر دروازے کے باہر کھڑا رہا تھا، ریشماں کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی اس میں، آخر اس نے دروازہ کھٹکھٹا کر کھولا اور اندر داخل ہوگیا ۔ ریشماں نے لکڑیاں ڈالنے کیلئے انگیٹھی کا ڈھکن اٹھایا تو دھواں اور روشنی ایک ساتھ برآمد ہوئے یوں کمرے میں پھیلی دھندلی سے روشنی میں کچھ لمحوں کا اضافہ ہو گیا ۔
آج بہت دیر لگا دی آپ نے،آپ کو پتہ ہے مٰیں نے کل صبح سے کچھ بھی ۔ ۔ ۔۔ اور کاکا بھی ۔ ۔ ۔ کام ملا آج ؟ شاکا نے اسکے ناتمام سوالوں کا جواب دینے کے بجائے جیب سے بھنے ہوئے خشک چنے نکال کر سامنے کردئیے۔ انگیٹھی میں جلتی آگ سے نیم روشن کمرے میں دونوں نے خشک چنے آنسوؤں سے بھگو کر کھائے، ریشماں نے تشکر آمیز نظروں سے اپنے مجازی خدا کی طرف دیکھا اور بچے کو دودھ پلانے کے لیئے گود میں اٹھا لیا۔
عین اسی وقت پڑوس کے گھر میں عباسی صاحب لیپ ٹاپ پر کسی سیکولر فیس بک دوست کو اسلامی نظام زندگی کی بنیادی خصوصیات سے آگاہ کر رہے تھے
دوران چیٹ وہ باربار جذباتی ہوجاتے، کچھ دیر بعد ان کے دوست آف لائن ہوئے تو لیپ ٹاپ آف کرتے ہوئے ان کی نظر سامنے رکھی گاجر کے حلوےسے بھری پلیٹ پر پڑی جو کب کی ٹھنڈی ٹھار ہوچکی تھی ۔
انہیں حلوے سے بروقت لطف اندوز نہ ہونے پر افسوس تو ضرور ہوامگر ان کی یہ قربانی بھی تو بہر حال دین کی سربلندی کیلئے ہی تھی ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ایک تبصرہ چھوڑ دو