kohsar adart

سامراج کی بھٹی میں تیار شدہ "سیاست دان”

امریکی غلامی سے نکلنے کے لیے جس نے پر کھولے اس کی سانس کی ڈوری کاٹ دی گئی

تحریر:راشد عباسی

ہماری پچھتر برس پر محیط قومی تاریخ المیوں سے بھری پڑی ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم ایک قوم کے طور پر خود احتسابی کا حوصلہ پیدا نہیں کر سکے۔ ہم آج تک حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر نہیں لا سکے تاکہ سقوط مشرقی پاکستان (اب اسے سکوت مشرقی پاکستان کہیے، کہ کسی کو اس بارے میں بولنے کی آزادی نہیں) جیسے المیے کے اصل ذمہ داروں کے چہرے عیاں ہوتے۔

 

میجر جنرل راؤ فرمان علی

مشرقی پاکستان کے سبزہ زار کو سرخ کرنا ہو گا

 

ہم نے آزادی کے حصول کے چھبیس برسوں بعد آئین کی تشکیل تو کر دی تھی اور ببانگ دہل اعلانات بھی ہوئے تھے کہ چند برسوں میں قرآن و سنت کے خلاف جتنے بھی قوانین ہیں انھیں ختم کر دیا جائے گا لیکن قرآن و سنت سے متصادم سب سے بڑے مسئلے "سود” کے خلاف بھی قانون سازی نہیں ہو سکی۔ اس پر ہی اگر تحقیق ہو جائے تو ایسے ایسے پردہ نشینوں کے چہروں سے نقاب ہٹنے کا خطرہ ہے جو خود کو دین کا سب سے بڑا محافظ قرار دیتے ہیں۔ ہماری عدالتیں آج بھی برٹش انڈیا ایکٹ آف 1935 کے تحت عدالتی نظام چلا رہی ہیں۔ آج بھی وکیل ججوں کو "می لارڈ” کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ آج بھی سارے فیصلے انگریزی میں لکھے جاتے ہیں (جن کی سمجھ بعض اوقات وکیلوں کو بھی نہیں آتی).

ہماری قومی تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ ایوب خان جیسے امریکہ نواز شخص کو ہماری تاریخ ہیرو بنا کر پیش کرتی ہے۔ ہم اپنے بچوں کو تاریخ کے نام پر جھوٹ اور منافقت کا سبق پڑھاتے ہیں۔ ہماری تاریخ میں ہمارا سب سے بڑا دشمن "ہندوستان” کو لکھا جاتا ہے حالانکہ اپنی پون صدی کی تاریخ کا تجزیہ کریں تو ہمارا سب سے بڑا دشمن "امریکہ” ہے جو  اندرونی طاقتوں کے  ذریعے اس ملک کی بنیادیں کھوکھلی کر رہا ہے۔

 

افغانستان میں امریکی جنگ میں اپنے ملک کے مستقبل کو داؤ پر لگانے والے پاکستان کے سب سے بڑے غدار تھے لیکن سامراج کے سکرپٹ کے مطابق اداکاری کے جوہر دکھانے والوں نے انھیں سب سے بڑے "مجاہد” کے روپ میں پیش کر کے داد و تحسین اور ریال اور ڈالر کے علاوہ تازیست مراعات حاصل کیں۔

جمہوریت کا اصلی چہرہ مسخ کرنے والے بہ ظاہر آقا دکھائی دیتے ہیں لیکن دراصل وہ کٹھ پتلی کے سوا کچھ نہیں، جس کی ڈوریں حقیقت میں کسی اور کے ہاتھ میں ہیں۔ آقا اپنے غلاموں کو ہمیشہ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے آئے ہیں۔

 

ایوب خان کے دور سے پاکستان میں کنٹرولڈ ڈیماکریسی کے زیر اثر چند لوگوں کو مخصوص بھٹی کے ذریعے "سیاست دان” کے طور پر تیار کیا گیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو مخصوص اہداف کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ بڑے اور دور رس نتائج کے حامل اہداف سامراج کے تھے جب کہ کچھ چھوٹے اہداف کٹھ پتلیوں کے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے تھے۔

سامراج کے اہداف بین الاقوامی مالیاتی کمپنیوں (کارپوریٹو کریسی) کے ذریعے ملکی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے لیے تھے۔ اس ہدف کے مطابق ملکی معیشت کو قرض کے ڈالروں کا محتاج رکھنا ہے۔ امریکہ کی غلامی سے نکلنے کے لیے جس نے پر کھولے اس کی سانس کی ڈوری کاٹنی ہے۔ ملک کے قدرتی وسائل کو ملکی ترقی کے لیے استعمال نہیں ہونے دینا۔ اشرافیہ کو اس سلسلے میں سامراج نے اپنے ساتھ ملایا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف کو اشرافیہ کے بلین ڈالر ماہانہ کے اللے تللے بھاری محسوس نہیں ہوتے لیکن غریب آدمی کو زندگی بچانے کے لیے ملنے والی سبسڈی چبھتی ہے۔

کٹھ پتلیوں کے اہداف میں اپنے مفادات کا تحفظ اور عوام کی بے توقیری اور توہین و تذلیل تھی۔ اس توہین و تذلیل کے پیچھے نفسیاتی عوامل کار فرما ہیں۔ آزادی کے بعد ہی عام آدمی کی ذہن سازی کی گئی کہ یہ سوچ پروان چڑھانی ہے۔۔۔۔۔۔۔ "ہم بے بس ہیں”. ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ہم صورت حال کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ ہم غلام ابن غلام ہیں۔ ہم بلڈی سویلین ہیں۔ یہ کوئی معمولی ہدف نہیں ہے۔ اگر اس کا نفسیاتی تجزیہ کریں تو "عام آدمی” کے حقوق کے خلاف یہ سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ آج اگر عام آدمی اس مخمصے سے نکل آئے اور اسے اپنی طاقت کا اندازہ ہو جائے تو کیا کٹھ پتلیاں اس کے سامنے ریت کی دیوار ثابت نہیں ہوں گی؟

 

جو سیاست دان کٹھ پتلیوں نے اپنی مخصوص بھٹی کے ذریعے تیار کیے انھیں ملک و قوم سے اور نئی نسلوں کے مستقبل سے کوئی سروکار نہیں۔ ان کی سیاسی جماعتیں "پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں” ہیں۔ ایسی تمام سیاسی جماعتیں جو موروثیت کی بنیاد پر ایک خاندان کی ملکیت ہیں وہ کٹھ پتلیوں کی کٹھ پتلی ہیں۔ انھیں ملکی خزانہ لوٹنے کی آزادی دی جاتی ہے جس سے وہ بیرون ملک جائیدادیں خریدتے اور کاروبار چلاتے ہیں۔ وہ صرف اس وقت پاکستان کا رخ کرتے ہیں جب انہیں کرسی کے حصول کی جنگ لڑنی ہو۔

ان کی نسلوں کا مستقبل پاکستان کے مستقبل سے وابستہ نہیں ہے۔ جس طرح کٹھ پتلیوں کو مکمل آزادی ہے کہ وہ سامراج کے مفادات کے تحفظ کے صلے میں یورپ اور آسٹریلیا میں جزیرے خرید کر پر تعیش زندگی گزاریں۔ کوئی عدالت ان سے یہ استفسار کرنے کی جرات نہیں کر سکتی کہ اتنی کم آمدنی والے سرکاری ملازم کے پاس یہ قارون کے خزانے کہاں سے آئے۔

بھٹی میں تیار شدہ سیاست دان ہزاروں کنال پر مشتمل محلات میں رہتے ہیں۔ دس دس لاکھ روپے کے امپورٹڈ جوتے پہنتے ہیں۔ کروڑ روپے کی گھڑیوں کی نمائش کرتے ہیں۔ پچاس پچاس لاکھ روپے کے سوٹ اور لاکھوں روپے کے بیگ رکھتے ہیں۔ ان کو ملنے والی مراعات سے سالانہ کئی یونیورسٹیاں بن سکتی ہیں۔ جب ایسا سیاست دان عام آدمی کے حقوق کی بات کرتا ہے تو اس کے اس رویے کو منافقت کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے۔

راشد عباسی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More