سائفرکی نئی انگڑائی،کیاعمران خان پھنس سکتے ہیں؟
امریکی نیوز ویب سائٹ " انٹر سیپٹ" نے مبینہ متن چھاپ کر پاکستان میں پھر ہلچل مچا دی
سائفرکی نئی انگڑائی،کیاعمران خان پھنس سکتے ہیں؟
کوئی ڈیڑھ برس پہلے پاکستانی سیاست اور ایوان اقتدار میں ہلچل برپا کرنے والے امریکی سائفر نے طویل خاموشی کے بعد ایک نئی انگڑائی لی ہے ،
اور ایک بار پھر یہ سفارتی مراسلہ موضوع بحث بن گیا ہے جس کا مبینہ متن ایک امریکی نیوز ویب سائٹ ” انٹر سیپٹ” نے شائع کرتے ہوئے یہ دعوی کیا ہے کہ یہ متن انہیں بعض پاکستانی حکام کی جانب سے فراہم کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر اسد مجید کی جانب سے بھیجے گئے اس مراسلے کو تحریک انصاف کے چیئرمین اور اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے اپنے اقتدار کے خاتمے کے لیے امریکی سازش کے ثبوت کے طور پر پیش کیا تھا۔
تاہم چند مہینے بعد عمران خان نے اپنے موقف سے رجوع کرتے ہوئے امریکی حکام کو اس مبینہ سازش سے تقریبا” بری الذمہ قرار دے دیا تھا۔
مذکورہ سائفر میں امریکی محکمہ خارجہ یعنی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے حکام کے درمیان ہونے والی ملاقات کی تفصیل درج تھی،
جس میں جنوبی اور وسط ایشیائی امور سے متعلق اسسٹنٹ سیکرٹری اف اسٹیٹ ڈونلڈ لو کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔
امریکی عہدیدا ڈونلڈ لو جنہیں سائفر کا مرکزی کردار کہا گیا
اس گفتگو میں پاکستانی سفیر اسد مجید خان بھی موجود تھے جنہوں نے بعد ازاں مراسلے کے ذریعے اپنی حکومت کو اس گفتگو سے آگاہ کیا۔
مراسلے کا متن ایک بار پھر امریکی نیوز ویب سائٹ نے شائع کیا ہے تا ہم اس بات کی
آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی کہ آیا انٹرسپٹ کی جانب سے شائع کردہ متن اصلی ہے یا نہیں۔
امریکی ترجمان میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے،
اب اس نئی صحافتی "واردات” سے ایک نیا پنڈورا باکس بھی کھل گیا ہے کیونکہ اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ مذکورہ متن امریکی ویب سائٹ کو تحریک انصاف کی حکومت یا اس کے کسی ذمہ دار کی جانب سے فراہم کیا گیا ہے، تو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ذمہ داران کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے اور بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اس حوالے سے قانون کی زد میں آسکتے ہیں جو پہلے ہی تین سالہ جیل بھگتنے کے لیے اٹک قلعے پہنچ گئے ہیں۔
امریکی ویب سائٹ پر شائع مبینہ متن کا عکس
امریکی ترجماں نے تازہ صورت حال پر کیا کہا؟
امریکی محکمہ خارجہ نے سائفر کے مبینہ متن کی تصدیق کے حوالے سے تبصرے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ اس کے مندرجات میں امریکا کی جانب سے
ایسے کسی مؤقف کا کوئی اشارہ نہیں مل رہا کہ پاکستان کی قیادت کس رہنما کے پاس ہونی چاہیے
۔سائفر کے مذکورہ متن کے مطابق امریکا نے یوکرین جنگ کے تناظر میں عمران خان کی خارجہ پالیسی پر اعتراض کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں مری میں گائے اوربچھڑا چوری کرتاملزم رنگے ہاتھوں پکڑا گیا
بی بی سی کے مطابق امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ سائفر کی بنیاد بننے
والی پاکستانی سفیر سے امریکی وزارتِ خارجہ کے افسر کی گفتگو میں
امریکی اہلکار کی باتوں کو سیاق و سباق سے ہٹ کر اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
محکمۂ خارجہ کی بریفنگ کے دوران ترجمان میتھیو ملر کا کہنا تھا کہ اگر جن باتوں کے بارے میں رپورٹ کی گئی وہ سو فیصد بھی درست تھیں
اور میں نہیں جانتا کہ ایسا ہے، وہ کسی بھی طرح سے یہ ظاہر نہیں کرتیں
کہ امریکہ نے یہ موقف اختیار کیا ہو کہ پاکستان میں قیادت کس رہنما کے پاس ہونی چاہیے۔‘
یہ بھی پڑھیں کوئٹہ،موتی رام روڈ پر دھماکا اور فائرنگ، 2 افراد زخمی
میتھیو ملر کا کہنا تھا کہ ’امریکہ نے پاکستان کے ساتھ عمران خان کی جانب سے یوکرین پر حملے کے
دن ماسکو کا دورہ کرنے پر خدشات کا اظہار ضرورکیا تھ
ا لیکن یہ الزامات درست نہیں کہ امریکہ نے پاکستان کے داخلی فیصلوں میں دخل اندازی کی،
اس وقت امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر بھی
یہ بات کہہ چکے ہیں ۔لہٰذا ایسے الزامات غلط ہیں۔‘