راشد عباسی کی کتاب "اقبال نیں شاہین”
تحریر : شکیل اعوان
کالم شالم "اقبال نیں شاہین "
محترم راشد عباسی کا شکریہ، اُن کی نئی کتاب "اقبال نیں شاہین” موصول ہوئی۔ اقبال پر بہت کچھ لکھا جاچُکا ہے اور مستقبل میں بھی لکھا جائے گا مگر پہاڑی زبان کی یہ پہلی کاوش ہے جو محترم راشد عباسی کے حصے میں آئی ہے
ایں سعادت بزور ِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
اقبال انقلابی شاعر ہے۔ اُس کے افکار "لک ترٹّوں، سُتوں” کو جگانے کے لیے ہیں۔ روایت ہے کہ انقلاب ایران کے پیچھے بھی فکر اقبال ہی کار فرما تھی۔ اقبال کے کلام کا غالب حصہ فارسی میں ہے۔ اردو میں تو اُنھوں نے برصغیر کے لوگوں کے لیے لکھا، جو اب اُردو سے جان چُھڑا کر انگریزی کے غلام بنے بیٹھے ہیں۔
راشد عباسی ایک درویش انسان ہے، بلکہ برزبان پہاڑی کہا جائے تو ” کہروں کھائی تے فقیری کرنے” والی بات ہے۔ اِس دور پُرفتن میں انسان اپنی بنیادی ضروریات ہی پوری کر لے تو بہت بڑی بات ہے چہ جائیکہ "سُتوں کو جغانے” کا اضافی کام یعنی قبرستان میں "بانگاں”۔ آج کل کتاب کی اشاعت جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ وطن عزیز میں ہر شے مہنگی ہو گئی ہے سوائے خون انسانی اور آبرو ہائے پاکستانی کے۔ اس مہنگائی کے طوفان میں کاغذ اور طباعتی مواد کی قیمتیں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ جو کتاب بھلے وقتوں میں تیس چالیس ہزار روپے میں چھپ جاتی تھی اب لاکھ سے اوپر میں چھپتی ہے۔ سو شعراء و ادباء جو پہلے ہی "پہُکھ پنگڑے تے عشق بنیرے” کے مصداق دل سوزی کرتے اور جگر کا خون کر کے تخلیق کے عمل سے گزرتے ہیں۔ ان کے لیے مہنگائی کی اس لہر نے مسائل میں مزید اضافہ کر دیا ہے کہ انسان بچوں کی روزی روٹی کا جگاڑ کرے یا سماج کو متعدل رکھنے کی کوششیں۔
راشد عباسی نے کم وقت میں ادبی حلقوں میں اپنے کام کا لوہا منوایا ہے اور پھر اُس زبان میں جِسے اس کے بولنے والے بھی احساس کمتری کی وجہ سے بولتے، لکھتے، پڑھتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔ حالانکہ راشد عباسی اردو زبان کا بھی اُتنا ہی اچھا شاعر ہے جتنا پہاڑی مسکینی کا۔ "سُولی ٹنگی لوء” اور "عشق اڈاری” جیسے خوبصورت شعری مجموعوں کے خالق کا اقبال کو پہاڑی میں متعارف کرانا ایک انقلابی کوشش ہے۔ جہاں اقبال کو فقط "لب پہ آتی دعا بن کے تمنا میری” تک محدود کر دیا گیا ہو وہاں یہ مشن جہاد سے کسی طرح کم نہیں ہے اور یوں راشد عباسی کا کردار بھی ایک مجاہد کا ہے۔
جہاں ملکہ کوہسار کے بڑے بڑے عہدوں پر رہنے والے اپنی ماں بولی کے لیے آج تک کچھ نہ کر سکے۔ وزیر اعظم، وزیر اعلی، گورنر، وزیر، مشیر ہو کر بھی کوئی اکیڈمی، کوئی ریسورس سینٹر، کوئی ادارہ بنانا تو درکنار کبھی کسی اسمبلی میں اپنی ماں بولی کا ذکر بھی نہ کر سکے، وہاں راشد عباسی "ون مین آرمی” کی صورت ہر ادبی، ثقافتی محاذ پر ڈٹ کر کھڑا ہے اور ہم جیسے "آلسیوں” کو بھی "تہِک تُہک ” کر اپنے ساتھ "تُہرو” لیتا ہے۔
راشد عباسی نے مری ہزارہ کے سکولوں میں فکر اقبال کی روشنی پھیلانے کا مشن شروع کر رکھا ہے۔ اس کی کتاب "بیت بازی کلام اقبال” کے بعد "اقبال نیں شاہین” بھی نئی نسل کو اقبال شناسی کی طرف راغب کرنے کے لیے ایک قابل تحسین و تقلید قدم ہے۔
بر سبیل تذکرہ ایک بار ہم ایک پرائیوٹ سکول میں مہمان خصوصی کے طور پر مدعو تھے۔ وہاں کے اردو ٹیچر نے ڈسک پر آ کر اقبال کے اشعار پڑھنے شروع کیے تو ہم ورطہ حیرت میں گم ہو گئے کہ ہم نے اقبال کے تقریبا تمام اردو کلام کا مطالعہ کر رکھا تھا مگر جو اشعار استاد محترم سنا رہے تھے وہ ہماری نظر سے نہیں گزرے تھے۔ تقریب کے اختتام پر ہم نے اُن کو قریب بُلا کر استفسار کیا کہ "بڈیو” آپ کا رابطہ چونکہ اقبال سے آج بھی بحال ہے تو یہ تازہ اشعار کب آپ تک پہنچے ہیں؟ پہلے تو استاد محترم ” پُھنڈ پُھنڈ ” کسی جگہ چلے گئے، پھر میرے کان میں سرگوشی کی "معاف کرنا، یہ اشعار میں نے فیسبُک سے لیے تھے”. اب آپ اندازہ لگائیں کہ جب سکول کے اساتذہ کا یہ حال ہو تو طالب علم فکر اقبال سے کس حد تک انسلاک رکھتے ہوں گے۔
راشد عباسی سر پھِرا اور من چلا درویش ہے، جو اپنی لگن میں مست چلا جا رہا ہے۔ اگر ہم واقعی کوئی قوم ہوتے تو اقبال جیسے دانائے راز سے بہت کچھ حاصل کر سکتے تھے۔ مگر ہم قرآن جیسی ہدایت مبین کو فراموش کر کے زوال کے پاتال کی طرف ” چھک پٹ ” کے دوڑے چلے جا رہے ہیں۔ اس عہد زوال میں بھی نئی نسل کو مایوسیوں کے اندھیروں سے نکال کر شعور، آگہی اور علم و تحقیق سے مربوط کرنے کی راشد عباسی کی ان کاوشوں کو بھرپوُر خراج تحسین پیش کرنا ہم سب کا فرض ہے۔
"اقبال نیں شاہین” سے پیشتر راشد عباسی نے پہاڑی نظموں کے مجموعے "عشق اڈاری” میں ہر صفحے پر پہاڑی زبان کے مشکل اور غیر مانوس الفاظ کا اردو ترجمہ پیش کر کے تفہیم کے مسائل حل کر دیے تھے۔ لیکن اس کتاب کے نہایت عام فہم ہونے کے باوجود ہر مضمون کے آخر میں اس کا اردو خلاصہ بھی شامل کر دیا ہے تاکہ پہاڑی، پوٹھوہاری، ہندکو زبانیں نہ سمجھنے والے بھی اس سے استفادہ کر سکیں۔ یہ کتاب جہاں اساتذہ ، اہل علم اور والدین کے لیے نسل نو کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے ایک "گائیڈ بک” کا درجہ رکھتی ہے، وہیں نوجوانوں کے لیے اس کتاب کا ایک پورا حصہ مختص کیا گیا ہے۔ تیسرے حصے میں علامہ اقبال کے کلام کو بھی ترجمے سمیت شامل کیا گیا ہے۔ لیکن مسجد قرطبہ کی تشریح شاید صفحات کی کمی کی وجہ سے شامل اشاعت نہیں ہے۔
قارئین سے عرض ہے کہ اگر آپ اپنی اپنی ماں بولی کے لیے اور کچھ نہیں کر سکتے تو کم سے کم راشد عباسی جیسے لوگوں کا "ہتھ گڈا ” تو کر ہی سکتے ہیں۔ یہ لوگ ہم سب کے حصے کا کام کرنے کے لیے وقف ہیں۔ اس کاز کے لیے انھوں نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا ہے۔ انھیں کسی صلہ و ستائش کی تمنا نہیں ہے۔ ہم اور کچھ نہیں تو اتنا تو کر سکتے ہیں کہ پہاڑی زبان کی شائع شدہ کتابیں خرید کر خود بھی پڑھیں اور اپنے بچوں کو بھی اپنی زبان سے روشناس کرائیں۔ دوستوں کو یہ کتابیں تحفے میں دیں۔ سکولوں، کالجوں کی لائبریریوں کو ہدیہ کریں۔ سوشل میڈیا پر پیغامات اپنی ماں بولی میں لکھیں۔ ہماری یہ چھوٹی چھوٹی کوششیں ہماری مادری زبان کو معدوم ہونے سے بچا سکتی ہیں۔
سوشل میڈیا پر پہاڑی زبان کے جتنے فورم ہیں، جیسے "پہاڑی زبان اساں نی پچھان” ، "انجمن فروغ پہاڑی زبان” ، پہاڑی واز” وغیرہ نیز انفرادی طور پر جو احباب اثر و رسوخ کے حامل ہیں وہ اپنی ماں بولی کی عملی خدمت کے لیے مزید فعال کردار ادا کریں اور پہاڑی زبان کی شائع شدہ کتابوں کو قارئین تک پہنچانے کے لیے مؤثر لائحہ عمل تیار کریں۔
آن لائن کتابیں حاصل کرنے کے لیے
آواز پبلی کیشنز
03005211201
اللہ کریم آپ کا حامی وناصر ہو
فقط مادری زبان کا سیوک
شکیل اعوان