راشد عباسی کی نئی کتاب "اقبال نیں شاہین” طباعت کے مرحلے میں
نئی نسل کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے پہاڑی زبان میں پہلی کتاب ہے

الحمد للہ ادبی رسالے "قوس” سے شروع ہونے والا اشاعتی کام جاری ہے۔ سعودیہ میں قیام کے دوران منطقہ شرقیہ میں موجود پاک و ہند کے اردو شعراء کی غزلوں کا انتخاب "ارمغان اعجاز” شائع ہوا۔
"بیت بازی کلام اقبال” ایک اور وقیع کام تھا۔ اسے ملک بھر میں بھرپور پزیرائی ملی۔
پہاڑی زبان کے فروغ کے لیے "انجمن فروغ پہاڑی زبان” پانچ چھ سال سے سرگرم عمل ہے۔ اس کے زیر اہتمام کتب کی اشاعت کے علاوہ کتابی سلسلہ "رنتن” بھی شائع ہوتا ہے۔ جس کے اب تک چار شمارے شائع ہو چکے ہیں۔ پہاڑی زبان غزلوں کے مجموعے "سولی ٹنگی لوء” اور نظموں کے مجموعے "عشق اڈاری” کی معیاری اشاعت کے بعد نئی نسل کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے کتاب "اقبال نیں شاہین” طباعت کے مرحلے میں ہے۔ اس کتاب میں شامل مضامین سے کچھ اقتباسات پیش خدمت ہیں۔ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ پہاڑی زبان میں تحریر کیے گئے ہر مضمون کے آخر میں اردو میں اس کا خلاصہ بھی پیش کیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معاشرہ لوکاں نال بنناں۔ اس واستے کدے لوکاں ناں اخلاق تے کردار مثالی ویہہ تے ہک مثالی معاشرے واستے نظام بنانا آسان ہوئی گشناں۔ اساں جاننے آں جے بچے کسے قوم ناں مستقبل ہونے۔ قوم ناں مستقبل محفوظ بنانے واستے بچیاں نی کردار سازی تے چنگی تربیت ضروری ای۔ یاء تربیت صرف والدین تے استاداں نی ذمہ داری نیہی بلکن معاشرے ناں ہر فرد اس ناں ذمہ دار آ۔ ہک مثالی معاشرے نی منیاد رکھنے واستے معاشرے ناں ہر فرد اہم کردار ادا کرنا۔
(عرض مصنف)
سکول میں داخلے کے لیے تین چار سال کے بچے کو اردو، انگریزی اور ریاضی جیسے مضامین کا امتحان پاس کرنا ہوتا ہے۔ والدین مین گیٹ سے اندر داخل نہیں ہو سکتے۔ بچہ پہلی مرتبہ ایک عمارت کا منہ دیکھتا ہے۔ وہ حیرانی اور پریشانی کے سمندر میں غوطہ زن ہوتا ہے اور ایسے میں اسے انتہائی خوف زدہ ماحول میں تین پرچے تھما دیے جاتے ہیں۔ ہم بالغ لوگ بھانت بھانت کے تجربات سے گزرنے کے بعد بھی جب کہیں ملازمت کے انٹرویو کے لیے جاتے ہیں تو ڈر کے مارے ہمارے پسینے چھوٹ رہے ہوتے ہیں۔ لیکن ہم ایک کم سن، معصوم اور غیر تجربہ کار بچے کی ذہانت کو پرکھنے کے لیے نمبروں کو کسوٹی سمجھتے ہیں۔
(پہلی جماعت میں داخلے کا طریقہ کار)
اگر ہمیں بھی حقیقی ترقی کی راہ پر گام زن ہونا ہے تو ہمیں اپنے نظام تعلیم کو بہتر بنانا ہو گا۔ صرف انگریزی سیکھنے سکھانے پر صلاحیتیں ضائع کرنے کے بجائے بچوں کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے مواقع فراہم کرنے ہوں گے۔ ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی تاکہ وہ تحقیق اور ایجادات کی طرف راغب ہوں۔
(نظام تعلیم)
مطالعہ کرنے نال بچے وچ علم، آگہی تے شعور پیدا ہونا۔ مختلف موضوعات نے مطالعہ نال اس نے علم وچ اضافے نے نال نال دنیا نے بارے وچ ہور جاننے، انساناں کی سمجھنے تے دنیا کی امن تے سکون نال پہرنے واستے خود مثبت کردار ادا کرنے نی تحریک پیدا ہونی۔
(بچیاں ناں ادب)
عام آدمی خواہ وہ دکان دار ہے، ڈرائیور ہے، کسی ہنر سے وابستہ ہے یا مزدور ہے اس کے قول و عمل سے بھی نسلوں کی تربیت منسلک ہے۔ بچوں کا مشاہدہ بہت تیز ہوتا ہے۔ ہر آدمی اگر خود سے یہ عہد کر لے کہ وہ اس مشن کے تحت اپنی تربیت نفس پر توجہ دے گا کہ کوئی بچہ اسے دیکھ کر کسی برائی کا مرتکب نہ ہو تو اندازہ لگائیں معاشرے میں کتنی بڑی تبدیلی آئے گی۔ اگر بالغ افراد یہ تہیہ کر لیں کہ وہ بچوں کے سامنے دنگا فساد نہیں کریں گے ، سگریٹ نوشی سے پرہیز کریں گے، جھوٹ نہیں بولیں گے، گالم گلوج نہیں کریں گے، غرور و تکبر، بے حیائی اور فضول خرچی کا ارتکاب نہیں کریں گے تو اس کے بھی مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔
(عام آدمی بھی استاد ہے)
سائنسی ترقی کے اس عہد میں عالمی گاؤں میں بسنے والوں کے بیچ فاصلے سمٹ گئے ہیں۔ سوشل میڈیا، آئی ٹی اور کمیونیکیشن کی سہولیات نے جہاں آسودگی مہیا کی ہے وہیں تضیع اوقات کے امکانات کو فروغ دیا ہے۔ طالب علموں کے لیے تنظیم الاوقات سیکھنا نہایت ضروری ہے تاکہ وہ اپنے وقت کا بہترین اور منظم استعمال کرتے ہوئے ناکامی اور نقصان سے بچ سکیں۔
(کامیابی کے لیے وقت کی قدر لازمی ہے)
مقصد زندگی کا تعین کیے بغیر کامیابی کے بارے میں سوچنا خام خیالی ہے۔ آپ کے سامنے کوئی منزل ہو گی تو آپ سفر آغاز کر سکتے ہیں۔ ورنہ بے سمت سفر کا حاصل تو رائیگانی کے سوا کچھ نہیں۔
مقصد حیات ہمیں سمت سفر دیتا ہے۔ ہمارے سامنے زندگی کی مقصدیت آتی ہے اور کچھ کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ مقصد حیات ہی ہے جو ہمارے سامنے ایک ہدف رکھتا ہے۔ پھر مسلسل تفکر و تدبر کے بعد فیصلہ کرنے کی عادت پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح چھوٹی چھوٹی کامیابیاں جہاں ہمارا حوصلہ بڑھاتی ہیں وہیں ہمیں اطمینان بھی حاصل ہوتا ہے۔ ایک مقصد اور ہدف کی موجودگی ہماری زندگی میں لچک، نظم و ضبط اور تحرک پیدا کرتی ہے۔ اسی طرح نابغہ روزگار شخصیات پیدا ہوتی ہیں جن کے کارنامے ان کی آئندہ نسلوں کا ورثہ ہوتے ہیں۔
(مقصد حیات)
اَللّہ پاک نے ہر بندے کو منفرد خواص اور صلاحتوں کے ساتھ پیدا فرمایا۔ اس لیے اپنا موازنہ کسے دوسرے کے ساتھ کبھی نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مثبت استعمال کرتے ہوئے کامیابی کے اعلٰی درجے پر پہنچنے کی سعی کرنی چاہیے ۔ کامیاب لوگ مُتاثّر نہیں مؤثّر بننے کی جدوجہد میں عمر گزارتے ہیں۔
(اقبال کے شاہینوں کے نام)
نَویاں نَسلاں نی چَنگی تربیت واستے ضروری آ جے معاشرے ناں ہر فرد "جیو تے جینے دیو” نے فلسفے اُپّر عمل کرے۔ اَساں کی اِس حقیقت کی مَنناں چائیناں جے کسے زندہ، پڑھے لِخے تے باشعور فرد واستے ممکن یے ناء جے اوہ ہُو بَہُو کسے ہور آرا سوچے۔
(مکالمہ کیاں ضروری آ)
کَدے اَساں زوال نَیں پاتال وِچّا باہر اَشناں تے فِر اَساں کی اپنے سوچنے ناں انداز بدلنا پَیسی۔ علم، تحقیق، تفکّر، تدبّر، اخلاق تے کردار نَیں زور اُپّر یے کوئی قوم بادھا کَری تے دُنیاں وِچ قابلِ عزّت مقام حاصل کَری سَکنی۔ اَساں کی اُمّت نَیں طور اُپّر وی تے قوم نی حیثیت نال وی اپنا محاسبہ کَرنا پَیسی۔ اَساں کی محبّت، رواداری تے خدمت کی اپنا شعار بنانا پَیسی۔ تکبّر نَیں بجائے عاجزی اختیار کَری تے انسان دوست بَنی تے اَساں اَللّہ نی پسندیدہ قوم بَنی سَکنے آں۔
(اقبال۔۔ شاعر محبت)
آج کے نوجوان کے لیے اس شدید مسابقتی یعنی صرف غیر معمولی لوگوں کے عہد میں اپنا لوہا منوانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ تعلیم کا نظام صلاحیتوں کے کھوج اور پھر ان کے فروغ نیز تخلیقیت کو بہ روئے کار لانے کے بجائے غیر ضروری طور پر صرف انگریزی زبان کی تدریس کا فریضہ سر انجام دے رہا ہے۔ حال آنکہ ماہرین نفسیات اور ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دینے سے بچے کی تخلیقی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں۔
(مسابقتی دور میں کامیابی کا حصول)
مثبت سوچ سی کَیہہ مراد ای؟ مثبت سوچ ہک ذہنی رویّے نا نآں آ، جس ناں حامل شخص ہمیشہ صورتِ حال ناں مثبت پہلو مدِنظر رکھنا آ۔ اجیئا شخص اپنیاں صلاحیتاں اُپّر اعتماد کرنیاں یقین رکھنا جے اُس نی جُہدی نَیں نتیجے وِچ ربّ العالمین اُس کی کامیابی ضرور دیسن۔ یعنی مثبت سوچ مثبت رویہ پیدا کرنی۔
(مثبت سوچ تے کامیابی)
خُودی نی حفاظت کرنے والا مسلمان اتنی وسیع کائنات وِچ ہِک ذَرّہ ہونے نَیں باوجود عرفانِ ذات (خودی) نے مرحلے طے کَری تے ہک ذَرّہِ ناچیز ناء رہنا بلکن اوہ "مردِ مومن” بنی تے اپنی تقدیر ناں خود مالک بَنی گَشناں۔ جِسلے اُس کی یوء مقام لَبھّی گَچھّے تے فر اوہ اعلان کرنا آ۔۔۔۔
بَیا یک ذَرہ اَز دَردِ دِلَم گِیر
تہِ گَردوں بہشتِ جاوداں ساز
(اقبال ناں تصور خودی)
دُنیا نی تاریخ وچ جتنے بڑے تے کامیاب لوک پیدا ہوئے اُنھاں کی اپنے ماؤُ پِیُو نِیاں دعائیں حاصل سِیاں۔ والدین نے معنی مآء تے پے دوئے اے۔ بدقسمتی نال اَساں ہر جائی ہکے فقرہ لِخیا یا دِکھنے آں جے ماؤُ نی دُعا نال بندہ کامیاب ہوناں آ۔ جنت ماؤُ نے قدماں تَھلّے ای۔ پِیُو ناں کوئی ذکر یے ناء ہونا اس واستے عام نوجوان کی یاء غلط فہمی ہوئی سَکنی جے ساہڑا دِین فقط ماؤُ نَیں احترام ناں حکم دَیناں۔ والد بے چارہ تے بس معاشی ضرورتاں پوری کرنے تائیں اِس دُنیا وچ آیا۔ نوجواناں کی یاء غلط فہمی نَیہی ہونی چائینی. حقیقت وچ والد ناں مقام تے مرتبہ والدہ نے مقابلے وچ کسے وی طرحے کَہٹ (کم) ناء۔
(والدین نی عزت تے فرمانبرداری)
مِیکی یقین آ جے ساہڑے نوجوان دُنیاں نے باضمیر تے باشعور لوکاں کی قائل کَری کِہنسَن جے اوہ ساہڑے وسائل اُپّر قبضے واستے جَگتی تے مقامی سامراج نَیں ظلم تے لُٹ نَیں خلاف ساہڑے نال ہوئی گَچھن ۔ کِیاں جے انسانی ضمیر نے اندر "اَلستُ بِرَبّکُم” نے جواب وچ روحاں ناں اعتراف بہ ہر حال موجود آ۔ تے سب سی بڑا عدل کرنے والا اَللّہ جس کولا چاہے کَم کِہنّی سَکناں آ کِیاں جے دل اُسے نے قبضہِ قُدرت وچ اے
(نیا زمانہ نئے صبح شام پیدا کر)